ایسے موضوعات پر لکھنا مشکل ہوتا ہے اور خاص طورپر ہم ایسے لوگ جن کے پاس کل اثاثہ اور سرمایہ چند حروف ہوں اور جولفظ کے ساتھ وابستگی میں ہی خیر محسوس کرتے ہوں‘ اس موضوع پر لکھتے ہوئے اپنے آدرشوں اور خوابوں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ لکھنے والا تو ہمیشہ مثالی معاشرے کے قیام، خوبصورت زندگی، مثبت اقدار ، امن، محبت اور بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کے خواب دیکھتا ہے اور قلم کے ذریعے ان کی خاطر بساط بھر جدوجہد کرتا اور اس جدوجہد کی قیمت چکاتا رہتا ہے۔ میں ذاتی طورپر ملک کے بارے میں سوچ کے حوالے سے کافی روایتی سا واقع ہوا ہوں۔ آپ جذباتی بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں اکثر اوقات ڈیپریشن میںبھی مبتلا ہوجاتا ہوں، لیکن یقین کریں کہ ہرطرف پھیلے ہوئے مایوسیوں کے اس غبار میں کوئی چراغ ہے جس کی دھیمی دھیمی لو مجھے اندر سے روشن رکھتی ہے۔ کوئی ہے جو مایوس دل کے حجرے میں آس کا دیا جلاتا ہے۔ جینے کی آرزو پیدا کرتا ہے، حوصلوں کی فصل اگاتا ہے اور مجھے ملک کا مستقبل امید اور روشنی کی طرف کھلتا ہوا دکھائی دینے لگ جاتا ہے۔ میں کل کی طرح آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری پہلی نسل نے وطن کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جواسے کرنا چاہیے تھا۔ اس کے دامن میں کوئی ایسے درخشاں باب نہیں تھے جو وہ ہماری نسل کو منتقل کرسکتے اور نتیجتاً ہماری نسل بھی وہی کچھ کررہی ہے ۔ یہ ایک بڑا سچ ہے کہ میری نسل جو عمر اور کیریئر کا نصف عبور کرچکی ہے اس کے پاس بھی آگے منتقل کرنے کے لیے کوئی روشن چیز نظر نہیں آرہی۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ اس ملک کو ناکام ریاست کہنے والے کم ہونے کی بجائے زیادہ ہوئے ہیں۔ 66برسوں کے بعد بھی ملک میں جمہوری اور آئینی ادارے مضبوط نہیں ہوسکے۔ آدھے سے زیادہ عرصہ مارشل لا کی نذر ہوگیا۔ ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور مجرموں کو سزا بھی نہ مل سکی۔ ایسا کیوں ہے کہ وسائل ، افرادی قوت اور اہلیت رکھنے کے باوجود بھی ہمارا ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے اور اسے لوٹنے والوں کی ہوس پوری نہیں ہورہی؟ ایسا کیوں ہے کہ ہم اسے اچھی حکمرانی نہیں دے سکے؟ ایسا کیوں ہے کہ کرپشن اور ناجائز طریقوں سے مال بنانا ہمارے Genesمیں شامل ہوگیا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ملک میں کسی کی جان اور مال محفوظ نہیں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ اس ملک میں مساجد، چرچ، امام بارگاہیں اور دوسری عبادت گاہیں کسی بھی وقت مقتل بن جاتی ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ یہ خطۂ زمین مختلف ملکوں کے لیے پراکسی جنگ کا مرکز بن گیا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ دنیا بھر میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے؟ ہماری خارجہ پالیسی خودمختاری اور خودداری پر سمجھوتوں سے عبارت ہے ، ایسا کیوں ہے کہ ہم دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہر حکومت عام آدمی پر زندگی کو مزید تنگ کرتی جارہی ہے اور غریب غریب تر اور امیرامیر ترین ہوتاجارہا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ عوام الیکشن اور حکمرانوں سے لاتعلق ہوتے جارہے ہیں؟ ایسا کیوں ہے کہ ہمارا معاشرہ اکیسویں صدی میں بھی ونی، کاروکاری، سوارا، غیرت کے نام پر قتل اور قرآن کے ساتھ شادی جیسی رسومات سے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کرسکا؟ ایسا کیوں ہے کہ ہمارے بڑے ادارے دیوالیہ ہوچکے ہیں؟ ہماری برآمدات پر سے دنیا کا اعتماد کیوں اٹھ گیا ہے؟ ہمارے ساتھ غیرملکی ایئرپورٹس پر بھیڑ بکریوں کی طرح سلوک کیوں کیا جاتا ہے؟ ہمارا روپیہ ڈالر کے مقابلے میں روز بروز قدر کیوں کھورہا ہے؟ اس ملک میں بھتہ، اسلحہ اور لینڈ مافیاز کی حکمرانی کیوں ہے اور ایسا کیوں ہے کہ ادب ، سیاست ،سائنس ، معیشت ،تعلیم اوردوسرے شعبوں میں بڑے آدمی پیدا نہیں ہورہے؟ اس ملک میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ کتنے بڑے سانحے اور حادثات ہوئے جو ایک قوم کو جگا دینے کے لیے کافی تھے۔ لیکن ہمیں تو کچھ بھی نہ ہوا۔ ہم نے تو یہ بھی نہ سوچا کہ ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم اتنے کمزور اور نادم کیوں ہیں، ہماری نمازوں اور روزوں سے اثر کیوں غائب ہوگیا ہے۔ ہم اپنی نصف سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی، صحت کی سہولیات اور چھت کیوں فراہم نہیں کرسکے۔ ہمارے ملک میں زلزلے کیوں آتے ہیں؟ ہم سیلابوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیوں نہ اٹھا سکے، ملک میں پانی اور بجلی کی قلت کو دور کرنے کے لیے ڈیم کیوں نہ بناسکے۔ میں ایسے کتنے ہی ’’کیوں‘‘ والے فقرے دہراسکتا ہوں۔ یہ وہ سوال ہیں جو آپ کے ذہنوں میں بھی کلبلاتے ہوتے ہوں گے۔ لکھنے والے کا کام سوال اٹھانا اور مکالمے کی فضا پیدا کرنا ہے۔ ہم آج مکالمہ نہیں کریں گے تو پھر کب کریں گے۔ ان 66برسوں میں اور کچھ نہیں کرپائے تو کم ازکم سمت کا ہی تعین کرلیتے۔ وہ بھی نہ ہوسکا۔ ہمارے سامنے کتنی مثالیں موجود ہیں ؎ کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے بے مقصد اور بے معنی سفر کا انجام کیا ہوتا ہے، کسی بھی شخص یا جماعت کو ملک سے غرض نہیں ہے۔ توانائیاں صرف اقتدار کو دوام دینے اور آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں لگائی جارہی ہیں۔ کوئی رہنما نہ کوئی سمت نما ، کوئی خواب دکھانے والا نہ تعبیر دینے والا۔ آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھے مسلسل چلے جارہے ہیں اور لکھنے والے خوف کی بکل مارے کسی کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ ہم یہ تو سوچ رہے ہیں کہ 2050ء میں پاکستان کیسا ہونا چاہیے لیکن ہم یہ نہیں سوچ رہے کہ ماضی کی روشنی میں ہم حال کو کیسے بہتر بناسکتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو کیسے خوبصورت پاکستان دے سکتے ہیں۔ محض ’’ ہم زندہ قوم ہیں ‘‘ کے ترانوں اور اربوں روپے کے اشتہارات سے تو زندہ قوم نہیں بنا جاسکتا۔ قوموں کی ترقی کی پیمائش ٹیکنالوجی ، ایٹم بم، میگا پراجیکٹس، اسلحہ، موبائل، انٹرنیٹ، گاڑیوں اور عمارتوں سے نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کو اخلاقیات، اصول ، غیرت ، خودداری اور جمہوری رویوں سے پرکھا جاتا ہے۔ کیا ہم نے اس سمت میں ترقی کی ہے؟ کیا ہم نے اپنی نئی نسلوں کے توانائی ، پانی اور وافر خوراک کے لیے کوئی بڑا منصوبہ بنایا ہے ؟ مجھے تو دور دور تک کوئی تیاری نظر نہیں آرہی۔ ہماری ترجیحات اور ہیں۔ ہم تو یہ سوچنے لگ گئے ہیں کہ بس آج کا دن خیر کے ساتھ گزر جائے ، باقی کل دیکھیں گے۔ 2050ء تو دور کی بات ہے میرے جیسا لکھنے والا تو آج بھی ایسا پاکستان دیکھنا چاہتا ہے جہاں عام آدمی کی عزت ، خودداری، مال اور جان محفوظ ہو، جہاں قومی آزادی اور سلامتی پر سمجھوتے نہ ہوسکیں، جہاں چرچ، مساجد، امام بارگاہوں اور عبادت گاہوں میں بغیر کسی خوف کے عبادت کی جاسکے۔ جہاں ایک غریب کا بچہ بھی معروف کالجوں اور بڑے سکولوں میں پڑھ سکے۔ جہاں انصاف کی راہ دیکھتے دیکھتے آنکھیں بجھ نہ جائیں اور ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے لوگ اپنے مالک کے پاس نہ پہنچ جائیں۔ جہاں ہر شخص کو دووقت کی روٹی عزت کے ساتھ میسر ہو۔ اشفاق احمدکہا کرتے تھے کہ اس ملک کے عام آدمی کی عزت نفس بحال کردو۔ بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ آپ اس میں اعتماد، سچائی، یقین اور خواب کا بھی اضافہ کرلیں تو کئی اور مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔ میں نے شاید آپ کو اداس کردیا۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا آئیے اداسی کو جھٹکتے ہیں اور زندگی کا اگلا ورق الٹتے ہیں اور اس ورق پر اپنے اپنے خوابوں کے برش اور آدرشوں کے رنگوں سے پاکستان کی نئی تصویر بناتے ہیں جو 2050ء میں ہمارے خوابوں سے بھی زیادہ خوبصورت ہوگی۔ (ایک غیرسرکاری تھنک ٹینک کے زیراہتمام منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا)