’’ کیا اس ملک میں نظریاتی سیاست کرنے والوں کی گنجائش ہے؟ کیا نظریے ، آئیڈیل اور آدرش کی خاطر جینے ، خواب لکھنے اور ان کی صورت گری کرنے والوں کا اس سماج میں کوئی کردار بنتا ہے؟ کیا ذہنی ، فکری اور علمی انتشار کے اس دور میں کسی کویکسوئی کے ساتھ ایک ہی راستے پر چلتے چلے جانا چاہیے؟ کیا محض سچائی اور سچ کی خاطر لکھتے چلے جانا دانشمندی ہے اور ایسا کرنے سے کتنوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں؟ کیا قلم کے ذریعے اس ملک اور سماج کو کرپشن ، لاقانونیت ، ظلم ، دہشت گردی ،انتہا پسندی ، توانائی کے بحران ، بے روزگاری اور بے حسی جیسی دلدل سے نکالا جاسکتا ہے؟ کیا لکھتے رہنے سے حکمرانوں ، ریاست اور عوام کے درمیان روز افزوں بلند ہوتی ہوئی دیوار میں شگاف ڈالا جاسکتا ہے ؟‘‘ میں نے معروف دانشور بیرسٹر حمید باشانی کی تازہ کتاب’’ شاہراہِ خیال‘‘ کو پڑھنا شروع کیا تو اپنے آپ سے استفسار کیا،سوالوں کا ایک نامختتم سلسلہ قطار باندھے میرے سامنے آکھڑا ہوا ،لیکن یوں لگ رہا تھا تمام سوال اندر ہی اندر کسی گہرے کنویں کی اتھاہ پاتال کی کسی گمبھیرخاموشی میں گرتے چلے جارہے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو کسی صلے ، لالچ یا تعریف کے بغیر کمٹ منٹ کے ساتھ ، نظریے کی سچائی کی قوت کے بل بوتے پر لکھتے جارہے ہیں، کیا لکھنا بذات خود کارِ فضول ہے؟ کتاب تھامے ہوئے میں سوچنے لگا:کیا لفظ اپنی وقعت اور لکھنے والا اپنی موجودگی کا احساس کھوچکا ہے؟ کیا اس معاشرے کو سچ کی ضرورت بھی ہے؟ کیا میں اور حمید باشانی کو جو ایک ہی دشت کے مسافر ہیں ، مسلسل لکھتے چلے جانا چاہیے ؟ جواب کا انتظار کیے بغیر میں نے کتاب کی ورق گردانی جاری رکھی۔ یوں لگا جیسے یہ کتاب سماجی ، سیاسی ، معاشی ، اخلاقی اور نظریاتی قدروں کے منہدم ہونے کا نوحہ ہے۔ ایک ایسا نوحہ جو ہمیں غیر محسوس طریقے سے نہ صرف ٹوٹتی زندگی ، شکستہ ہوتے آدرشوں اور کرچی کرچی ہوتے خوابوں کا چہرہ دکھاتا ہے بلکہ زخم زخم نظریے اور دھول ہوتے آئیڈیلز کے پیکر بھی سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ اس کے ورق ورق اور سطر سطر میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں، محرومیوں ، دکھوں ، سامراجی اور معاشی اداروں کے ہاتھوں اقوام اور افراد کی ذلت و استحصال ، فرد اور اقوام کی ذہنی غلامی ، سرمایہ دار مارکیٹ کی چالوں ، روزگار ، روٹی ، انصاف ، عزت ، چار دیواری اور انسانی حقوق کے لیے ترسنے والی مخلوق کی داستانیں ،چیختی چنگھاڑتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ کتاب معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور انتہا پسندی کا نوحہ بھی ہے اور دم توڑتے نظریوں اور اصولوں کا مرثیہ بھی ۔ حمید باشانی نے اس کتاب میں گلوبلائزیشن اور عالمی تہذیبی تصادم کے نظریے کے مضمرات کو کھولنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ وطن کی مٹی چھوڑ کر پردیس میں جابسنے والوں کے دکھوں اور مسائل کو بھی موضوع بنایا ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے سچ کی تلاش میں وہ میرا ہم سفر ہے۔ میں اور وہ اپنے اپنے حصے کی سچائی اکٹھی کرنے میں مصروف ہیں، اس امید پر کہ کبھی تو کوئی ان لفظوں کو پڑھ کر اپنے اندر تبدیلی کی لہر محسوس کرے گا۔ کہیں تو لفظ کے پانی سے ذہنوں کے پتھر پر کوئی شگاف پڑے گا۔ کہیں تو زندگی کی کوئی رمق کسی آنکھ میں جگمگائے گی۔ کسی دروازے پر دستک ہوگی۔ ضروری تو نہیں ہوتا کہ لکھے ہوئے لفظ سے کوئی انقلاب آجائے ، لیکن اگر کسی ذہن کے دریچے پر خفیف سی دستک ، سوچ کے بند کواڑوں میں کوئی ہلکی اور مہین سی دراڑ اور ٹھہرے ہوئے پانیوں میں کوئی معمولی سا ارتعاش بھی پیدا ہوجائے تو سمجھ لیں کہ لکھا ہوا لفظ اکارت نہیں گیا۔ ویسے بھی لکھنے والا کس کس کو ٹھیک کرے گا۔ جھوٹ کے اس سماج میں سچ سننے کی تاب کس کو ہے۔ بیورو کریسی ہو کہ ملائیت ، جاگیرداری ہوکہ اشرافیہ ، پولیس ہوکہ عوامی خدمت کے ادارے ، کہاں کہاں ضرب لگائی جائے ؟ کتنی قیمت چکائی جائے ؟ شاید یہ اندر کی طمانیت اور وجود کو سلامت رکھنے کی کوشش ہے۔ اسے یقین ہے کہ وہ اپنا کردار پوری دیانتداری اور سچائی سے ادا کررہا ہے۔ اس نے لکھا: ’’ برسوں پہلے اس بھلے دانشور نے کہا تھا کہ دنیا کا اصل مسئلہ معاشی ہے۔ وہ ہوشربا انکشافات کرنے کے بعد خود تو مٹی کی چادر اوڑھ کر سو گیا مگر ان انکشافات پر مبنی نظریات نے دنیا کو ہلاکر رکھ دیا۔ سیاست اور صحافت دراصل معیشت کے گرد گھومتی ہے۔ افراد سے لے کر اقوام تک سب کا یہی مسئلہ ہے۔ فرد فرد کا گلا کاٹتا ہے۔ قومیں قوموں کا خون بہاتی ہیں ، ریاستیں ریاستوں پر فوج کشی کرتی ہیں۔ اس ساری جنگ وجدل اور کشت و خون کے پس منظر میں کہیں نہ کہیں اصل مسئلہ معاشی ہی ہوتا ہے۔ افراد ہوں یا اقوام ، ان کو خوشحالی کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ قومیں وسائل کے بغیر ترقی نہیں کرسکتیں۔ ملک وسائل کے بغیر خوشحال نہیں ہوسکتے۔ یہ وسائل شہروں اور بستیوں سے دورجنگلوں ، پہاڑوں ، کھیتوں اور کھلیانوں میں پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سینکڑوں برسوں سے شہری اپنی افواج کو لے کر دیہات کا رخ کرتے رہے۔ جنگلوں میں آباد لوگوں پر حملہ کرتے اور ان کے وسائل پر قبضہ کرتے رہے۔ وسائل پر قبضہ کرنے کی دوڑ میں شہری ریاستیں آپس میں الجھتی رہیں۔ ان شہری ریاستوں کی دولت کا راز ان دور دراز پہاڑوں ، کھیتوں اور جنگلوں میں تھا۔ اس دولت کے لیے انہوں نے رفتہ رفتہ نو آبادیاتی شکل اختیار کرنا شروع کردی۔ اس سلسلہ عمل کے دوران یورپ کی سامراجی ریاستیں ابھریں۔ ان ریاستوں نے دنیا کو اپنے تسلط میں لانے کے لیے آپس میں کئی لڑائیاں لڑیں ۔ بڑی بڑی فوجیں پالی گئیں ۔ تباہ کن ہتھیار ایجاد ہوئے ۔ بین الاقوامی انجمنیں ، اتحاد اور بلاک معرضِ وجود میں آئے ۔ نئے قوانین اور ضابطے تخلیق ہوئے۔ وسائل پر قبضہ کرلیاگیا۔ صنعتی ٹیکنالوجی پر اجارہ داریاں قائم ہوئیں۔ منڈیوں پر قبضے ہوئے اور اس طرح نامنصفانہ اور غیر مساویانہ تجارتی ضابطے دنیا پر مسلط کردیے گئے۔‘‘ میں نے کتاب بند کرتے ہوئے سوچا، جس معاشرے میں ظلم ، ناانصافی اور استحصال کی پرورش کرنے والے ادارے اور سرپرستی کرنے والے افراد موجود ہوں، بلکہ ان کی تعداد زیادہ ہو، جہاں جھوٹ اس شدت اور تواتر کے ساتھ بولا جائے کہ اس پر سچ کا گمان ہونے لگ جائے ، جہاں قدم قدم پر خواب قتل کردیے جاتے ہوں ، جہاں زندگی اپنا جواز تلاش کرتے ہوئے ، وجود کھو بیٹھی ہو، جہاں کہنے والا لفظ تو ہو لیکن اس میں خلوص اور تاثیر کی قوت نہ ہو، جہاں حق اور سچ کی آواز اٹھانے والے معتوب اور مصلوب ٹھہریں، جہاں انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے والے تہِ تیغ کردیے جاتے ہوں، جہاں ہر ہرقدم پر اصول بکتے اور ٹوٹتے ہوں، جہاں چند روزہ اقتدار کی خاطر برسوں کی رفاقتوں ، اصولوں اور نظریات کو دفنا کر لوگ منڈی میں اپنی قیمت لگوانے اور وفاداریوں کو طشتری میں رکھ کر بازار کی زینت بن جاتے ہوں، جہاں بے حسی کی بکل اوڑھے ، کمروں کو کوزہ کیے ہوئے لوگ اس طرح چل رہے ہوں کہ ایک دوسرے سے آنکھ بھی نہ ملاسکیں ،وہاں بیرسٹر حمید باشانی جیسے لکھاریوں کا وجود غنیمت ہے جو لفظ اور سچ کی قوت سے ہمیں زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جینے کا حوصلہ عطا کررہے ہیں۔