امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں واقع قصرِ سفید دیکھنے میں ایک نہایت عام اور معمولی سی سفید رنگ کی عمارت ہے‘ کوئی شکوہ نہ شان۔ کوئی آن بان نہ رعب و دبدبہ۔ کوئی منقش درودیوار نہ مزین راہداریاں‘ کوئی دیدہ زیب فرنیچر نہ پُرکشش رنگ و روغن‘ قیمتی غالیچے نہ گرانقدر پینٹنگز۔ قصرِ سفید (وائٹ ہائوس) دراصل اس پورے احاطے کا نام ہے جس میں ایک طرف داخلی دروازے کے قریب انتظامی بلاک ہے تو دوسری طرف ٹریژری کے دفاتر ہیں۔ دونوں عمارتوں کے درمیان ایک چھوٹی سفید رنگ کی عمارت ہے جس کے اندر اوول آفس ہے جہاں قصرِ سفید کا مکین بیٹھتا ہے اور ملکی اور غیرملکی مہمانوں سے ملاقات کرتا ہے۔ اوول آفس ہی سے ملحق وہ کمرہ ہے جہاں امریکی صدر اور غیرملکی مہمان میڈیا فوٹو سیشن کراتے ہیں اور ملاقات کے بعد میڈیا کے سامنے ملاقات کے بارے میں بیانات جاری کرتے ہیں۔ بعض اوقات میڈیا کو سوالات کی اجازت ہوتی ہے اور بعض اوقات اجازت نہیں دی جاتی۔ اوباما‘ نواز شریف ملاقات کے بعد پریس بریفنگ میں سوالات کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس قصرِ سفید میں داخلے کے لیے سکیورٹی کے بہت کڑے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ میڈیا کے پانچ چھ ساتھیوں کو اس لیے وائٹ ہائوس کے گیٹ سے واپس جانا پڑا کہ کچھ کے پاس پاسپورٹ نہیں تھے اور کچھ کے نام حتمی فہرست میں شامل نہ تھے۔ اوول آفس اندر سے بھی بہت سادہ سا دفتر ہے۔ دیواروں پر جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن کی تصاویر لگی ہوئی ہیں۔ فرنیچر بہت ہی سادہ اور عام سا تھا۔ دونوں اطراف میں رکھے ہوئے صوفے پرانے ہونے کا تاثر دے رہے تھے۔ نیویارک میں مقیم ایک خاتون صحافی نے بریفنگ کے بعد سوال کرنے کے لیے منہ کھولنے کی کوشش کی تو اسے چپ کرا دیا گیا۔ بعد میں ہم نے طیبہ ضیاء سے پوچھا کہ تم نے کیا سوال کرنا تھا‘ تو وہ کہنے لگی کہ سوال تو کوئی نہیں تھا‘ بس جی چاہ رہا تھا کہ اوباما کو مشورہ دوں کہ کم از کم صوفے کا کپڑا ہی تبدیل کروا لیں یا صاف کروا لیں۔ اس پر ایک قہقہہ اٹھا اور ہم سب مزید پریس بریفنگ کے لیے مختص بڑے ہال میں پہنچا دیے گئے۔ میڈیا کے ساتھ گفتگو کے دوران صدر اوباما کی گفتگو اور بدن بولی بتا رہی تھی کہ ملاقات بہت اچھی رہی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے راستے اور امکانات تلاش کر لیے گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھا گیا ہے اور آئندہ مل کر چلنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔ نواز شریف بھی پُراعتماد تھے لیکن اُن کا کاغذ پر لکھا ہوا بیان پڑھنا کچھ اچھا نہ لگا۔ ہمارے وزیر اعظم کو بھی اسی طرح روانی اور آسانی کے ساتھ اپنا بیان دینا چاہیے تھا جیسے امریکی صدر نے دیا۔ خیر یہ دورہ اس لحاظ سے کامیاب رہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں اچھی شروعات ہوئی ہیں۔ مختلف شعبوں کی اعلیٰ سطح کی شخصیات نے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقاتیں کیں‘ جن میں صدر اوباما کے علاوہ نائب صدر جو بائیڈن‘ سیکرٹری خارجہ جان کیری‘ سیکرٹری توانائی‘ ٹریژری اور ٹریڈ کے وزرا‘ کانگریس کی امور خارجہ کمیٹی کے عہدیداران‘ سکیورٹی اور دفاع کے مشیران اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ شامل تھے۔ اس دورے کے دوران صرف امور خارجہ کمیٹی کے سینئر عہدیداروں اور دفاع اور سکیورٹی سے متعلق اعلیٰ سطح کی ملاقات میں مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ جس میں وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کو شکیل آفریدی‘ سرحد کے آرپار دہشت گردی‘ جماعت الدعوۃ اور حافظ سعید کی سرگرمیوں اور ممبئی بم دھماکوں کی تحقیقات مکمل نہ کرنے پر تندوتیز سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ حافظ سعید کے حوالے سے وزیر اعظم اور ان کے وفد کا موقف تھا کہ ان پر مقدمہ چلایا گیا تھا اور ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر عدالتوں نے اُن کو رہا کر دیا تھا۔ پھر بھی اگر آپ کے پاس ان کے خلاف کسی قسم کا کوئی ثبوت ہے تو دیں‘ ہم تحقیقات کریں گے۔ انہوں نے شکیل آفریدی کو حوالے کرنے کا مطالبہ کیا اور پاکستان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بات کی۔ پاکستان نے ڈرون حملے ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ ہوٹل میں قیام کے دوران ہم نے نجی طور پر تو وزیر اعظم سے مختصر ملاقات کی لیکن ان کی میڈیا سے باضابطہ بات چیت صدر اوباما سے ملاقات کے بعد ہوئی جس میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پہلے ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہو گا‘ اس کے بعد ہی ہم ترقی‘ امن اور خوشحالی کی بات کر سکتے ہیں۔ اسی دوران وزیر اعظم اور ان کے اہلِ خانہ کا سامان ہوٹل سے باہر لے جایا جا رہا تھا اور وزیر اعظم بریفنگ کے فوراً بعد لندن کے لیے روانہ ہو گئے۔ وزیر اعظم کے وفد میں شہباز شریف کے بیٹے سلمان شہباز بھی شامل تھے‘ جنہیں تقریباً ہر ملاقات میں شامل رکھا گیا۔ اقتدار اور سیاست کے اس میدان میں حمزہ شہباز کے بعد سلمان کو بھی اتارنے کی تیاری ہو رہی ہے‘ یوں بلاول اور مونس الٰہی‘ حمزہ اور سلمان شہباز کی شکل میں سیاست کا ورثہ اگلی نسل میں منتقل ہو رہا ہے۔ یاد آیا ایک اور صاحب بھی تو تھے وزیر اعظم کے وفد میں جن کا نام سعید ایم شیخ ہے‘ وہ بھی ہر ملاقات میں وزیر اعظم کے ساتھ بیٹھتے تھے۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ شیخ صاحب شریف فیملی کے دیرینہ دوست اور مہربان ہیں اور نیویارک میں ان کا بہت بڑا کاروبار ہے لیکن اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں انہیں ساتھ بٹھانے کی وجہ سمجھ میں نہ آ سکی۔ باقی محکموں کی طرح میڈیا میں بھی بھارتی صحافیوں کی تعداد زیادہ ہے جو ہر وقت وائٹ ہائوس اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں آتے جاتے رہتے ہیں۔ وہاں شائع ہونے والے کثیرالاشاعت اخبارات واشنگٹن پوسٹ‘ نیویارک ٹائمز‘ لاس اینجلس ٹائمز‘ وال سٹریٹ جرنل سمیت تمام بڑے میڈیا گروپس میں بھارتی اور یہودی لابی کا خاصا اثرونفوذ ہے۔ دورے کے اختتامی خوش کن لمحات میں واشنگٹن پوسٹ میں ایک اور آرٹیکل شائع ہوا جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملے نہ صرف پاکستان کی مرضی سے ہو رہے ہیں بلکہ پاکستان کے حکمران خود یہ حملے کروانے کی درخواست دیتے ہیں۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک خاموش مفاہمت موجود ہے۔ افسوس امریکی میڈیا میں پاکستان کی طرف سے اس طرح کے الزامات کا جواب دینے والا کوئی نہیں۔ ہم ہر محاذ پر اور سطح پر مار کھا رہے ہیں۔ شاید اسی طرح مار کھاتے رہیں گے۔ خبر یہ ہے کہ سابق سفیر حسین حقانی کی نئی کتاب شائع ہو گئی ہے اور وہ آج کل بھارت میں اس کتاب کی تقاریب رونمائی کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ وہ بھارت اس کام کے لیے کیوں گئے ہیں؟ بھارت کا اس کتاب اور حقانی سے کیا تعلق ہے؟ یہ کتاب سوچنے اور کھوجنے سے تعلق رکھتی ہے۔