گولڈا مائیر کا استدلال اور ہم

عرب اور اسرائیل کے درمیان جنگ چھڑنے کو تھی۔ امریکی سینیٹ کی اسلحہ کمیٹی کا سربراہ اسرائیل آتا ہے۔ اسے اسرائیل کی وزیراعظم گولڈا مائیر کے پاس لے جایا گیا۔ چند لمحوں کی گفت و شنید کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ گولڈا مائیر اٹھی اور بولی ’’مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لیے اپنا سیکرٹری میرے سیکرٹری کے پاس بھیج دیں‘‘۔ اسرائیل اس وقت اقتصادی طور پر بہت بُری حالت میں تھا۔ لہٰذا جب اس سودے کو کابینہ کے سامنے رکھا گیا تو اس نے اسے رد کردیا۔ گولڈا مائیر نے کابینہ کا مؤقف سنا اور کہا: آپ کا مؤقف اور خدشات درست ہیں‘ لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور عربوں کو پسپائی پر مجبور کردیا تو تاریخ ہماری فتح کو یاد رکھے گی اور تاریخ جب کسی کو فاتح قرار دیتی ہے تو وہ بھول جاتی ہے کہ جنگ کے دوران فاتح قوم نے دن میں کتنی بار کھانا کھایا۔ جنگ ہوئی اور عرب شکست کھا گئے۔ کچھ عرصے کے بعد واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے نے گولڈا مائیر سے پوچھا: ’’امریکی اسلحہ خریدنے کے لیے آپ کے ذہن میں جو دلیل تھی وہ فوراً آپ کے ذہن میں آئی تھی یا پہلے سے آپ نے سوچ رکھا تھا؟‘‘ گولڈا مائیر نے جواب دیا ’’میں نے یہ استدلال اپنے دشمنوں کے پیغمبرﷺ سے لیا تھا۔ جب میں طالبہ تھی‘ مذاہب کا موازنہ میرا پسندیدہ موضوع تھا۔ انہی دنوں میں نے حضرت محمدﷺ کی سوانح حیات پڑھی تھی۔ اس کتاب میں ایک جگہ لکھا تھا کہ جب ان کا وصال ہوا تو ان کے گھر میں اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ چراغ جلانے کے لیے تیل خریدا جا سکے۔ لہٰذا ان کی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ان کی زرہ بکتر رہن رکھ کر تیل خریدا۔ لیکن اس وقت بھی ان کے حجرے کی دیواروں پر نو تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے سوچا کہ دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست کی کمزور اقتصادی حالت سے واقف تھے۔ کون جانتا ہوگا کہ مسلمانوں کے امیر اور ریاست کے سربراہ کے گھر میں اتنے پیسے بھی نہ تھے کہ وہ چراغ کے لیے تیل خرید سکے۔ لیکن پوری دنیا یہ ضرور جانتی تھی کہ مسلمان آدھی دنیا کے فاتح اور حکمران ہیں۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر مجھے اور میری قوم کو برسوں بھوکا رہنا پڑے تو بھی ہم اسلحہ خریدیں گے۔ خود کو مضبوط ثابت کریں گے اور فاتح کا اعزاز پائیں گے‘‘۔ گولڈا مائیر نے اس حقیقت سے تو پردہ اٹھا دیا مگر ساتھ ہی انٹرویو نگار سے درخواست کی کہ اسے آف دی ریکارڈ رکھا جائے اور پھر کسی مناسب وقت پر اسے شائع کردیا جائے۔ اس انٹرویو نگار نے اپنا عہد نبھایا اور پھر کچھ عرصہ پہلے اس واقعے کو منظرعام پر لایا۔ میں نے جب سے یہ واقعہ پڑھا ہے اس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو عزت اور آزادی کی ضمانت مہیا کرتی ہے۔ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ جو کشکول دراز کرنے سے پہلے اسے توڑ دیتی ہے۔ جو طارق بن زیاد کو کشتیاں جلانے پر مجبور کر دیتی ہے۔ جو پھٹے پرانے کپڑوں اور ننگے پائو ںسے جہاں بانی کے طریقے سکھاتی ہے۔ جواب آیا۔ وہ فقر‘ خودداری اور قربانی ہوتی ہے جو وسائل کی کمی‘ غربت اور قلتِ اسباب میں بھی تلواروں کو کند نہیں ہونے دیتی۔ تیروں کو زنگ آلود نہیں ہونے دیتی۔ کاش گولڈا مائیر کی بجائے مسلمان اپنے پیغمبرﷺ سے یہ سب کچھ سیکھتے۔ کاش قوم کی بجائے حکمران طبقہ اس کے لیے قربانیاں دیتا اور آج یہ حشر نہ ہوتا۔ کاش اس قوم کے حکمران ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف اور عالمی طاقتوں کے سامنے کشکول دراز کیے ہمہ وقت مانگنے کی بجائے خود قربانیاں دے کر قوم کو اچھے بُرے وقت کے لیے تیار کرتے۔ جتنی زیادہ بیرونی امداد ملتی ہے اتنی زیادہ کامیابی سمجھی جاتی ہے۔ ہماری کامیابیوں کا پیمانہ بیرونی امداد اور بھیک رہ گیا ہے۔ کوئی بیرونی دورہ اور کانفرنس ایسی نہیں جہاں ہم غیروں سے کچھ نہ کچھ نہ مانگیں۔ کبھی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے نام پر تو کبھی مہاجرین کی بحالی کے لیے‘ کبھی سیلاب اور زلزلے کے نام پر تو کبھی توانائی کے منصوبوں کے لیے‘ کبھی ٹریڈ کے نام پر تو کبھی تعلیم کے فروغ کے لیے‘ کبھی صحت کے منصوبوں کے لیے تو کبھی صاف پانی کی فراہمی کے نام پر‘ کبھی انتخابات کے انعقاد کے لیے تو کبھی مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کے لیے‘ کبھی جمہوریت کی مضبوطی کے لیے تو کبھی گڈ گورننس کے لیے‘ کبھی ماحولیات کے لیے تو کبھی غربت میں کمی کے منصوبوں کے نام پر‘ کبھی میڈیا کی تربیت کے نام پر تو کبھی سکولوں کے قیام کے لیے‘ کبھی نصاب کی بہتری کے لیے تو کبھی مدرسہ سسٹم میں اصلاحات متعارف کرانے کے نام پر‘ ہمیں صرف بیرونی امداد چاہیے‘ نام کوئی بھی ہو اور بہانہ کیسا ہی کیوں نہ ہو۔ بھیک چاہیے۔ صرف بھیک۔ اس قوم کا ایک ایک بچہ مقروض ہے اور ہر آنے والا بچہ بھی اسی طرح مقروض رہے گا۔ جب سے وزیراعظم نوازشریف امریکہ کا دورہ کر کے گئے ہیں کوئی کتنا بھی اسے مثبت اندازِ نظر سے دیکھے یہاں کی کمیونٹی اور میڈیا کے تجزیوں کے مطابق اس میں صرف مزید امداد پر بات ہوئی۔ پاکستان کے لیے 1.6 بلین ڈالرز کی امداد جاری بھی ہوئی۔ جب حکمران صرف ایڈ اور ٹریڈ کی بات کریں گے تو ان کے ساتھ ان کے آقا ایسا ہی سلوک کریں گے۔ ملک اس وقت مختلف محاذوں پر حالتِ جنگ میں ہے۔ اسے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ قوموں پر بحران آتے رہتے ہیں اور بحرانوں کا مقابلہ بھی کیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بھکاری بن کر پوری دنیا کے سامنے رسوا ہو جائیں اور پھر دنیا ہمارے ساتھ جیسے چاہے سلوک کرے۔ کاش کوئی میرے ملک کے حکمرانوں سے کہہ دے کہ ملک امدادوں اور قرضوں پر نہیں چلا کرتے۔ جنگیں اسلحوں اور سازو سامان سے نہیں جیتی جا سکتیں‘ اس کے لیے قربانی اور فقر کی ضرورت ہے‘ خودداری اور عزتِ نفس کی حفاظت کی ضرورت ہے‘ وسائل کی نہیں عوام کی طاقت اور اعتماد کی ضرورت ہے۔ اگر حکمران خود قربانی دیں اور کچھ عرصے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھ لیں‘ اگر قوم کچھ عرصے کے لیے رسول اکرمﷺ کی سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے سادگی اور فقر اختیار کر لے تو مختلف محاذوں پر جاری جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ صرف کچھ عرصے کے لیے ایسا کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ تاریخ فتوحات گنتی ہے۔ یہ نہیں دیکھتی کہ اس قوم کے دسترخوان پر انڈے‘ شہد اور جیم تھا یا نہیں۔ اس کے تن پر کپڑے پھٹے ہوئے تھے یا سلامت‘ وہ صرف فتح کو یاد رکھتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں