یہ عملیت پسندی کی دنیا ہے۔ یہاں قوموں کے فیصلے جذبات کے بجائے حقیقت پسندی کو سامنے رکھ کر کیے جاتے ہیں۔۔۔ جوش نہیں‘ ہوش۔ نعرے‘ سستی جذباتیت‘ فتوے‘ شعلہ بار تقریریں‘ مظاہرے‘ دھرنے، منافقت اور سیاسی بیان بازیاں اب نہیں چل سکتیں۔سچ بولنا ہوگا،اپنے آپ کے ساتھ اوردوسروں کے ساتھ۔وہی بچیں گے جو زمینی حقائق اور علاقے کی صورت حال کا درست ادراک کر کے فیصلے کریں گے، زندگی کرنا سیکھیں گے۔ لوحِ وقت پکار رہی ہے کہ آئو مجھے پڑھو، کیا لکھ دیا گیا ہے؟ ہاں، لکھ دیا گیا ہے کہ خطے کی صورتِ حال بدل رہی ہے اور آپ کی اب تک کی تمام خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے پیڑ پر ثمر نہیں ببول اُگے ہیں۔ کہیں سے کوئی تازہ ہوا کا جھونکا اس چمنستاں میں وارد نہیں ہوا۔اگر آج تک کی پالیسیاں ثمربار نہیں ہو سکیں تو کیا یہ طے ہے کہ اسی سراب کے پیچھے بھاگنا ہے؟ بدلتے وقت کا بروقت ادراک کون کرے گا؟ جس ایران کے ساتھ آپ نے برسوں عرب ملک اور امریکہ کی وجہ سے تعلقات خراب رکھے اور اس کی قیمت ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو پھیلنے کی صورت میں چکائی‘ اسی کے ساتھ امریکہ نے اپنے تعلقات بہتر بنانے کا عمل شروع کردیا ہے، اپنے مفاد کے لیے کہ اسے افغانستان کے لیے ایک متبادل راستہ چاہیے تھا۔ وہ ایک اور اسلامی ملک کو ایٹمی پروگرام سے محروم کرنا چاہتا تھا اور دنیا کو دکھانا چاہتا تھا کہ امریکہ دنیا کو تباہی سے محفوظ کر رہا ہے،امن کے لیے کوششیں کر رہا ہے حالانکہ یہی ایران ان کے لیے Rogue State (بدمعاش ریاست تھا)‘ ایران کی لبنان میں حزب اللہ کی حمایت اور شام میں بشارالاسد حکومت کے ساتھ درپردہ تعاون امریکہ کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ ایران‘ امریکہ کے دوست اسرائیل کا دشمن اور امریکہ کے خلیجی دوست ممالک کے لیے بھی قابل قبول نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس نے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں ہی خیریت سمجھی اورایران کے پر کاٹ دیے۔اس معاہدے کا اہم پہلو یہ ہے کہ جہاں ایران کو یورینیم کی افزودگی پانچ فیصد تک لانے اور اپنا ایٹمی پروگرام عالمی معائنہ کاروں کے لیے کھولنے کی صورت میں سات بلین ڈالرز ملیں گے وہاں خطے کے ایک اور اسلامی ملک کو ایٹمی پروگرام سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ جب ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب تھے تو ایران نے بھارت کے ساتھ مضبوط تعلقات اختیار کر لیے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جنیوا میں بھارتی سفیر نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک اور اہم خبر یہ ہے کہ آج کل اوباما انتظامیہ میں جنوبی ایشیا سے متعلق امور کا سربراہ بھی بھارتی نژاد امریکی ہے جو گزشتہ کئی برسوں سے ایران کو عالمی تنہائی سے نکالنے اورامریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پر لانے کے لیے کام کررہا تھا۔چھ ماہ کے لیے عارضی معاہدہ ہونے پر ایران کوڈالرز ملنے کے علاوہ تیل کی برآمدسے پابندی بھی اٹھ جائے گی اور اس کے ساتھ ہی ایران پر عائد دوسری معاشی پابندیاں بھی اٹھ جائیں گی جس کے نتیجے میں اس کی کرنسی کی قدر بہتر ہوگی اور اندرونی معاشی صورتِ حال بھی بہتر ہونا شروع ہوگی۔ لیکن اہم پہلو یہ ہے کہ وہ ایران جس نے ایک عشرے تک امریکہ دشمنی میں ہر حد کو عبور کیا‘ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کے نعرے لگاتا رہا‘ 'مرگ بر امریکہ‘ ،'مرگ بر اسرائیل‘ ان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ تھے اور خلیجی ممالک کے
ساتھ معاندانہ تعلقات کو برداشت کیا گیا، اچانک اپنے ملک کی خاطر اس کی قیادت نے یوٹرن لیا اور ''بڑے شیطانوں‘‘ سے نہ صرف ہاتھ ملا لیا بلکہ اب ان ڈالرز سے بھوک مٹائے گا جو اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اسے نہیں مل رہے تھے۔ سو ڈالرز جیت گئے اور ایران کی غیرت اور جذباتیت سے بھرپور انقلاب کی بریگیڈ اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہو گئی۔ احمدی نژاد! مجھے آپ سے ہمدردی ہے ، آپ کے نعروں اور تقریروں نے اس ملک کو صرف خودداری دی جس کے ساتھ وہ قوم زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی تھی، سو اس نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ ایٹمی پروگرام بھی گیا اورغیرت و خودداری بھی، نعرے بھی گئے اور انقلاب کے ترانے بھی۔ وہ ملک جو اسلامی انقلاب کے بعد پوری مسلم اُمّہ کی امنگوں کا مرکز تھا اور جس نے استعماری طاقتوں کو للکارا تھا، اب انہی طاقتوں سے تعاون کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ اگر مجھے معاف کردیا جائے تو انہی طاقتوں کے کاسہ لیس قائدین نے اس قدم پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور پوری ایرانی قوم اپنے قائدین کے شانہ بشانہ ہم آواز کھڑی ہے کہ یہی وقت کی آواز بھی ہے۔ اگرہمارے ہاں
بھی ایسا ہو جاتا تو'غیرت اور خودداری‘سے تعلق رکھنے والے قبیلے نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کرکر کے اور نعرے لگا لگا کر ہی اس کا بُرا حال کر دینا تھا۔ شاید کفر کے فتوے بھی لگ جاتے۔
دھرنوں‘ جلسوں‘ فتوئوں‘ خودکش حملوں‘ تقریروں‘ بیانات‘ فرقہ وارانہ فسادات اور جھوٹ کی ماری ہوئی قوم اور اس کی حکومت کیا سوچ رہی ہے؟ کچھ پتہ نہیں۔ کیا حکومت یہ ادراک کر سکتی ہے کہ اب امریکہ کو پاکستان کی نیٹو سپلائی کے لیے ضرورت نہیں رہے گی۔ جس خطے میں بھارت‘ ایران اور امریکہ کا اتحاد بن رہا ہے وہاں پاکستان کی اہمیت کتنی رہ جائے گی؟ کیا یہ حکومت اس کے سیاسی و دفاعی بزرجمہر کچھ حکمتِ عملی تشکیل دے رہے ہیں؟ جس امریکہ نے عراق‘ لیبیا اور ایران کے ایٹمی پروگرام ختم کر دیے ہیں‘ کیا وہ پاکستان سے بھی ایسے مطالبے نہیں کرے گا؟ اگر پاکستان ان کے مطالبات نہیں مانتا تو ان ڈالرز کا کیا بنے گا جن سے ہماری معیشت چل رہی ہے؟ اگر معاشی اور دفاعی پابندیاں لگ گئیں تو پاکستان ایران کی طرح کتنے عرصے تک چل سکتا ہے؟
اس بدلتی ہوئی صورتِ حال میں حقائق کو اپنے مفادات کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور تنہائی کی طرف بھی روانہ ہوا جا سکتا ہے۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے جن کے ادراک کی صلاحیت کم ہے لیکن وقت ریت کی مانند مٹھی سے نکلا جا رہا ہے۔