کھڑکی توڑ کانفرنس

کھڑکی توڑ رش سینمائوں میں فلم کے شائقین اور کرکٹ کے فائنل میچ کے دوران سٹیڈیم میں تماشائیوں کی جانب سے تواکثر دیکھنے میں آتا ہے لیکن ایک ادبی کانفرنس کے مختلف ادبی سیشنز میں جانے کے لیے لوگوں کو منتظمین کے ساتھ لڑتے اور منتظمین کو ہال کے اندر گنجائش ختم ہونے پر دروازے بند کرتے پہلی دفعہ دیکھا ۔یہ کراچی آرٹس کونسل کی چھٹی عالمی اردو کانفرنس تھی جس میں روزانہ سات سات ‘آٹھ آٹھ سیشنز تھے اور تمام سیشنز کے دوران آرٹس کونسل کے آڈیٹوریم میں لوگوں کو کھڑا ہونے کی جگہ بھی نہیں مل رہی تھی اور چند سیشنز ایسے تھے جن میں منتظمین کو باقاعدہ دروازے بند کرنا پڑے اور لوگوں کے ساتھ الجھنا پڑا۔ اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے منتظمین کو اوپن ایئر میں ٹی وی سکرین کے ذریعے لوگوں کو پروگرام دکھانا پڑے۔
گزشتہ ایک عرصے سے ادبی اور اردو کانفرنسوں کا خوب شہرہ ہے۔ ایک زمانے تک اکادمی ادبیات پاکستان سرکاری سطح پر ‘ سرکاری نوعیت کی کانفرنسوں کا انعقاد کرتی رہی لیکن اب وہاں ایسا ہونا ممکن نہیں رہا‘ اب سرکاری ادبی اور علمی ادارے ایک طویل عرصے سے یتیمی اور کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ کوئی سربراہ ،نہ کام۔ جہاں سربراہ ہے وہ بھی غیر ادبی۔ جن اداروں کو اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لالے پڑے ہوئے ہوں وہ کوئی اور بڑا کام کیسے کر سکتے ہیں۔ سو حکومت کے پاس ان اداروں کے لیے وقت نہیں اور ان اداروں کے پاس فنڈز نہیں۔ اللہ اللہ‘ خیر صلاّ ۔ 
اب اس طرح کی کانفرنسیں کروانے کا بیڑہ چند میڈیا گروپس اور فنونِ لطیفہ سے متعلق چند اداروں نے اٹھا رکھا ہے۔ اس طرح یہ کانفرنسیں اب ہر سال باقاعدگی سے ہو رہی ہیں جن میں دنیا کے مختلف ممالک سے چنیدہ ادیب شرکت کرتے ہیں۔ مقالے پڑھتے ہیں‘ گفتگو کرتے ہیں، سوال و جواب ہوتے ہیں، ملاقاتیں ہوتی ہیں، ادبی مباحث ہوتے ہیں، مشاعرے ہوتے ہیں، موسیقی کی محفلیں برپا ہوتی ہیں۔ اردو زبان کو درپیش چیلنجز پر بات ہوتی ہے، اردو زبان و ادب سے متعلق نئے نئے ایشوز سامنے لائے جاتے ہیں، کتابوں کی نمائش ہوتی ہے اور لوگ اپنے پسندیدہ ادیبوں کی کتابیں خریدتے ہیں۔ ان کانفرنسوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ عام آدمی جو زندگی کی مصروفیات کا مارا ہوا ہوتا ہے اس کو نہ صرف ادیب اور ادب کے ساتھ جُڑت کا موقع ملتا ہے بلکہ سرکاری اور سیاسی شخصیات کو بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ ادب‘شعر اور ادیب بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ کتاب اور دانش کا بھی اس سماج میں کوئی کردار ہے۔ ادیب اور ادب کا بھی سماج سے کوئی رشتہ ہے۔
کوئٹہ میں منعقدہ سیمینار میں شرکت کی وجہ سے میں اس کانفرنس میں ایک روز کی تاخیر سے پہنچا لیکن جاتے ہی مختلف ادبی سیشنز میں شرکت کر کے دو تین روز کی تھکاوٹ بشاشت میں بدل گئی۔ یہ کانفرنس ہر سال آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ منعقد کرواتے ہیں اور انہیں ان کے رفقاء کا پورا تعاون حاصل ہوتا ہے۔ احمد شاہ کا یہ تیسرا دورِ صدارت ہے اور سچی بات یہ ہے کہ وہ ہر دفعہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر جیتتا ہے۔ اس پر اعتراضات کرنے والے کہتے ہیں کہ وہ اس طرح کی کانفرنسیں انتخابات سے ایک مہینہ پہلے اس لیے کرتا ہے کہ اسے ووٹ لینے ہوتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اچھا جب بھی کیا جائے اس کا اعتراف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
احمد شاہ کے ساتھی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آرٹس کونسل ندیم ظفر نے جس طرح مستعدی سے معاملات کو سنبھالے رکھا وہ لائقِ تحسین ہے۔اس کانفرنس کی سب سے اہم بات مختلف سیاستدانوں کی مختلف سیشنز میں شرکت تھی۔ نثار کھوڑو، قائم علی شاہ‘ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک‘ فاروق ستار‘ حیدر عباس رضوی‘ سراج درانی اور دوسرے سیاستدانوں کی شرکت نے ادب اور سیاست کو ہم رشتہ کر دیا۔ ڈاکٹر مالک نے حبیب جالب کے حوالے سے اپنی ذاتی یادوں کو بیان کیا اور کہا کہ وہ بلوچستان میں بہت سارا فنڈ دانشوروں اور ادب پر خرچ کرنا چاہتے ہیں اور مارچ میں وہاں ایک کانفرنس کرانے کا سوچ رہے ہیں۔ جس پر احمد شاہ نے کہا کہ ہم یہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ کام بلوچستان حکومت اور وہاں کے ادیبوں کو خود کرنا چاہیے باقی صوبوں کے ادیبوں کو اس میں شرکت کرنی چاہیے۔ اس کانفرنس میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا سے نمائندگی نظر نہیں آئی جو بہت زیاد ہ محسوس کی گئی۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قسم کی
کانفرنسوں میں مخصوص چہرے اور نام ہی مدعو کیے جاتے ہیں۔ جس سے کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہو پاتا۔ اگرچہ اس کانفرنس میں کوشش کی گئی کہ کچھ اور نام بھی آ جائیں لیکن مجموعی طور پر وہی نام‘ وہی مقررین اور وہی شاعر‘ بھارت سے بھی وہی ادیب اور پاکستان سے بھی وہی لوگ۔ ایسی کوششوں کا کیا فائدہ۔ لوگ بھی ان ادیبوں کو دیکھ دیکھ کر اور سُن سُن کر تھک چکے ہیں۔ اسلام آباد سے اس مرتبہ میرے علاوہ کشور ناہید‘ محمد حمید شاہد‘ ڈاکٹر نجیبہ عارف اور محبوب ظفر نے شرکت کی۔ حمید شاہد نے اگر افسانے کے سیشن میں جھنڈے گاڑے تو محبوب ظفر نے مشاعرے کے کامیاب ترین شعراء میں جگہ بنائی۔ رضا علی عابدی نے اردو زبان کو انگریزی زبان کے الفاظ کی ملاوٹ سے پاک کرنے کی ضرورت پر زور دیا جبکہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے ٹی وی چینلز کے نیوز اینکرز کی زبان کی درستگی کی بات کی۔ اس پر احمد شاہ نے پیشکش کی کہ آرٹس کونسل نیوز اینکرز اور رپورٹرز کی زبان کی صحت کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرنے پرتیار ہے اور اس کے لیے ٹی وی چینلز سے بات چیت جاری ہے۔ ایسی کانفرنسوں کا انعقاد پشاور اور کوئٹہ میں بھی ہونا چاہیے کہ وہاں ایسے پروگراموں کے انعقاد کی کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے بھی زیادہ ضرورت ہے۔
کالم کے آخر میں ذائقہ بدلنے کے لیے اپنے تازہ اشعار :
بہت ہی سہل ہے اس بار حکمرانی مری 
نہ میری کوئی رعایا، نہ راجدھانی مری
تُو اس قدر بھی نہیں پُرکشش عروسِ حیات
میں تیرے ساتھ اگر ہوں تو مہربانی مری
پڑا ہوا ہے مرے سامنے مِرا اسباب
یہ میرا عشق ہے اور یہ ہے رائیگانی مری
مِرا پڑائو نہیں ہے ترے جہانوں میں
بُلا رہی ہے کہیں اور لامکانی مری
میں کِشتِ یاد میں روز ایک پھول اگاتا ہوں
اُسے پسندہے اس طور باغبانی مری
عجیب شکل بنادی ہے ہجر نے لَو کی
چراغ کہتا رہا رات بھر کہانی مری

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں