مسیحا

''میں شاہ جی کا کتنا عادی ہو گیا ہوں‘‘۔ مارگلہ ٹریک پر اوپر جاتے ہوئے آج پہلی بار سانس کی ڈور میں عدم توازن محسوس ہوا تو میں نے سوچا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کسی نے پائوں کے ساتھ بڑے بڑے پتھر باندھ دیے ہوں۔ رفاقتیں اور مسافتیں اکٹھی ہو جائیں تو صدیاں لمحوں میں سمٹ جاتی ہیں ورنہ لمحے پہاڑ جیسی صدیاں بن کر ہمارے اوپر گر جاتے ہیں اور پھر سانس لینا بھی مشکل تر ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے وجود کو گھسیٹا اور وہاں لے آیا جس جگہ کو اوپر چڑھنے والے درمیانی مقام سمجھ کر سانس بحال کرنے کو رُک جاتے ہیں۔ سردیوں کی اس اداس اور سرمئی سہ پہر میں نے اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔ لمبی سانس لی اور نظریں سامنے کی طرف مرکوز کر لیں۔ اسلام آباد کی روشنیاں آہستہ آہستہ پھیلتی جا رہی تھیں۔ سہ پہر نے شام کی چادر اوڑھی تو یوں لگا جیسے شہر ایک برقی قمقمہ ہو جس کے اندر چھوٹے چھوٹے بلب روشن ہوں۔ یہی وہ بنچ تھا جس پر بیٹھ کر شاہ جی نے میرے اندر کی تلخی‘ مایوسی اور کڑواہٹ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ بات یوں شروع ہوئی تھی: 
''اگر تمہارے فلسفے پر آنکھیں بند کر کے ایمان لایا جائے تو پھر اس ملک کو اب تک ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ اگر سیاستدان‘ علماء‘ عدلیہ‘ فوج اور دانشوروں سمیت تمام طبقے ملک کو بچانے اور اسے گوناگوں مسائل سے نکالنے میں ناکام ہو چکے ہیں تو پھر ایسا کون ہو گا جو آگے آ کر نعرۂ مستانہ لگاتے ہوئے اس ڈوبتی نائو کو ساحل پر لے آئے گا۔ تمہارے Thesis کو اگر سچ تصور کر لیا جائے تو ہم ایک اندھے راستے پر بھاگتے چلے جا رہے ہیں جس کے آگے صرف اور صرف کھائی ہے اور اس میں گرنا ہمارا مقدر ہے‘ لیکن ایسی بات نہیں ہے‘‘۔ شاہ جی نے اپنے گلے کی زِپ کھولی اور پائوں پھیلا دیے۔ 
''ایسی بات کیوں نہیں ہے‘‘؟ میں نے تقریباً جھنجھوڑتے ہوئے کہا: ''ہم سیاستدانوں کو ہی لے لیتے ہیں۔ یہ ملک ایک سیاستدان نے بنایا لیکن اسے سیاستدانوں نے مل کر تباہ کر دیا۔ بعض سیاستدان غیرآئینی طور پر مسلط ہو جانے والے آمروں اور امپورٹڈ حکمرانوں کے تلوے چاٹتے رہے۔ اپنے اقتدار کو بچانے اور اقتدار میں رہنے کے لیے باوردی حکمرانوں کے اشارۂ ابرو پر رقص کرتے رہے۔ کوئی ذہنی طور پر مفلوج اور معذور غلام محمد کو اوتار سمجھتا رہا تو کوئی سکندر مرزا کو مستقل صدر بنانے کے خواب دکھاتے رہے۔ ایوب خان سے لے کر یحییٰ خان اور ضیاالحق سے لے کر پرویز مشرف تک‘ ہر ایک کو ایسے سیاستدانوں کی منڈی میسر آتی رہی جن کے بل بوتے پر وہ گیارہ گیارہ سال حکومت کرتے رہے۔ انہی سیاستدانوں نے ملک کو دولخت کرنے میں کردار ادا کیا‘ بیرونی اشارے پر تحریکِ نظام مصطفی چلائی‘ بھٹو کو پھانسی دلوائی۔ 1988ء سے 1999ء تک سیاستدان ہی ایک دوسرے کی حکومتوں کو کمزور کرتے رہے اور ملک جمہوری طور پر کمزور ہوتا رہا۔ انتقام اور اقتدار کی سیاست میں کسی سیاستدان کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ ملک کے لیے سوچ سکتا۔ پرویز مشرف کے ساتھ بھی یہی لوگ تھے۔ اس کے اکتوبر 1999ء اور 3 نومبر 2007ء کے ا قدامات کی حمایت کی۔ کرپشن‘ پرمٹ‘ قرضے‘ بے روزگاری‘ پلاٹ‘ رشوت‘ کمیشن جیسے مافیاز نے معیشت کو کھوکھلا کر دیا۔ جمہوری دور ہو یا غیرجمہوری‘ توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی ایک منصوبہ بھی نہ بن سکا۔ آج اس ملک میں بجلی ہے نہ گیس‘ اشیائے ضرورت کی قیمتیں آسمان تک پہنچ چکی ہیں۔ لاقانونیت، انتہاپسندی، فرقہ پرستی، قتل و غارت، دہشت گردی جیسے چیلنجز کا اس ملک کو سامنا ہے۔ سیاستدانوں کی کریڈیبلٹی خراب ہو چکی ہے‘ کوئی انہیں قرضہ نہیں دیتا‘ سرمایہ کار بھاگ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو ہی لے لو‘ کیا حکمرانوں کو مسائل کا ادراک ہے؟ کیا یہ لوگ چیلنجز سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔ ہر کوئی مال بنانے کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے۔ اس ملک کو جو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے وہ مارشل لاء ادوار میں پہنچا۔ ملک دولخت فوجی آمروں کے دور میں ہوا۔ سیاچن انہوں نے گنوایا‘ ڈیم انہوں نے بھارت کو بنانے دیے۔ ملک میں دہشت گردی اور لاقانونیت انہی کے دور میں پروان چڑھی۔ بلوچستان میں مسائل ہیں۔ سندھ میں مافیا کا راج ہے اور خیبرپختونخوا میں طالبان کی رٹ ہے۔ علماء اور مذہبی جماعتوں کو لے لو۔ انہوں نے ملک کو فرقوں میں تقسیم کرنے اور نفرت کی آگ میں دھکیلنے کے سوا اور کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے ہر آمر کا آلۂ کار بننے میں فخر محسوس کیا۔ یہی لوگ یحییٰ خان کو امیرالمومنین کہتے رہے۔ ضیاء الحق کو مرد مومن بنا کر شریک اقتدار رہے۔ ایم ایم اے بنا کر پرویز مشرف کو قانونی جواز عطا کرتے رہے۔ یہی علماء لال مسجد کے سانحے میں خاموش رہے۔ خودکش حملوں اور طالبانائزیشن کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی کو شعار کیا۔ ہمارے ملک کے دانشوروں نے بھی اپنے قلم اور زبان کو مجموعی طور پر گروی رکھے رکھا۔ انہوں نے سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے میں ہچکچاہٹ محسوس کی۔ سوائے چند سرپھروں اور جنونی لوگوں کے، سبھی خاموشی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے رہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب سارے طبقے ناکام ہو چکے ہوں تو پھر کون ایسا ہو گا جو مسیحا ہو گا‘‘۔ ''ہاں ایک شخص ہے‘‘ شاہ جی اٹھے اور فیصل مسجد پر نظریں گاڑتے ہوئے بولے: ''وہ ایسا شخص ہو گا جو عام لوگوں میں سے ہو گا‘ جس کی کریڈیبلٹی اور کردار مسجد کے ان میناروں جیسا اجلا ہو گا‘ جو کسی چوک، فورم، گلی یا منصب پر بیٹھ کر آواز لگائے گا تو لوگ اس کی آواز لبیک کہتے ہوئے کشاں کشاں چلے آئیں گے۔ وہ اگر ملک کے لیے یا معیشت کی بحالی کے لیے عام لوگوں سے مدد کی اپیل کرے گا تو ہر امیر، غریب اپنے ہاتھوں میں ایک روپیہ سے لے کر ایک کروڑ روپے تک لے کر اس کے پاس پہنچ جائے گا۔ وہی اس قوم کا مسیحا ہو گا۔ سو ابھی ہم ناکام نہیں ہوئے۔ ابھی اگر کسی کی آنکھوں میں خواب باقی ہیں تو وہ عام آدمی ہے‘ ابھی احساس زیاں کہیں موجود ہے۔ ابھی عام آدمی مسکرانا نہیں بھولا۔ جب تک پشیمانی کا ایک بھی آنسو موجود ہے ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ 
مجھے یوں لگتا ہے جیسے شاہ جی نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور ہم دھیرے دھیرے مارگلہ ٹریک سے نیچے اتر رہے ہیں۔ شہر پہلے سے زیادہ روشن ہو چکا تھا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں