ایک دن کی کہانی

اس کارگاہِ روز و شب میں‘ سانس لیتی‘ بظاہر جیتی جاگتی‘ دوڑتی‘ ہانپتی‘ کانپتی‘ مسلسل رواں دواں زندگی کے سرپٹ بھاگتے‘ فراٹے بھرتے دن رات کی زنبیل میں سے ایک اور دن اور ایک اور رات پھسل کر کاسۂ عمر سے گرنے کے لیے بے تاب ہے۔ بے معنی‘ بے فیض اور بے انت سفر کی تھکن اپنی آنکھوں کی پتلیوں پر سجائے‘ بے یقین مسافتوں کی دھول کی گٹھڑی سر پر لادے‘ میں ایک دفعہ پھر سفر آغاز کرنے کے لیے اٹھ بیٹھا ہوں۔ رات کم سونے کی وجہ سے آنکھوں میں نیند کا غلبہ ہے لیکن مجھے وہ فائلیں دیکھنی ہیں جو میں روز اس نیت سے گھر لا رہا ہوں کہ تسلی سے دیکھ پائوں گا۔ ابھی پہلی فائل کی ورق گردانی شروع ہی کی تھی کہ خیال آیا کہ مجھے ایک غیر سرکاری تھنک ٹینک کے سیمینار میں بولنا ہے اور میں نے اس موضوع پر بالکل کوئی تیاری نہیں کی۔ یوں میں فائل ایک طرف رکھ کر چند کاغذات اٹھاتا ہوں اور کچھ پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن کچھ نہیں مل رہا۔ اسی چکر میں سات بجتے ہیں۔ ایک بچے کو سکول کے لیے خداحافظ کہتا ہوں۔ میں دفتر جانے کی تیاری شروع کرتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ دوسرے بچے کی وین نہیں آئی‘ لہٰذا اسے سکول چھوڑنا ہوگا۔ سکول چھوڑ کر واپس آتا ہوں تو ساڑھے نو بجے والی میٹنگ کے لیے تیار ہوتا ہوں۔ اس میٹنگ میں مجھے پریذنٹیشن دینی ہے۔ گھر سے نکلتے ہوئے دروازے کی گھنٹی بجتی ہے تو سامنے دو حضرات کھڑے نظر آتے ہیں۔ انہیں میرے بچپن کے ایک دوست نے بھیجا تھا کہ میں ایک وزارت میں کسی کام کے سلسلے میں اِن کی مدد کروں۔ انہیں گاڑی میں ساتھ ہی بٹھاتا ہوں اور دفتر کی جانب چل پڑتا ہوں۔ 9th ایونیو پر پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ ایک مذہبی جماعت کے لوگ اپنے ایک رہنما کے قتل پر احتجاج کر رہے ہیں لہٰذا ٹریفک بند ہے۔ پشاور موڑ چوک تک ایک طویل قطار ہے۔ سوا نو بج چکے ہیں اور میٹنگ کی پریذنٹیشن والی چیزیں میرے پاس ہیں۔ آدھ گھنٹہ انتظار کر کے گاڑی بند کر دیتا ہوں اور ساتھ بیٹھے لوگوں کے مسئلے کی تفصیل جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ تقریباً ساڑھے دس بجے انہیں اپنے دفتر بٹھا کر میٹنگ میں دیر سے شریک ہوتا ہوں۔ بارہ بجے مجھے اس سیمینار میں پہنچنا ہے جہاں میں نے کچھ بولنا ہے۔ لہٰذا ان کے فون آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میرے بارہ میٹنگ میں ہی بج جاتے ہیں۔ بھاگم بھاگ دفتر واپس آ کر ان دو حضرات کے لیے متعلقہ بندے کو فون کر کے انہیں بھجوا دیتا ہوں اور خود تھنک ٹینک کے سیمینار کے لیے چل پڑتا ہوں۔ چلتے ہوئے خیال آتا ہے کہ گھر کا گیس کا بل 25000 آیا ہوا ہے اور آج گیس کے دفتر میں میٹنگ کے لیے جانا ہے‘ وہاں اپنے اسسٹنٹ کو بھیج دیتا ہوں۔ سیمینار کی طرف جاتے ہوئے راستے میں منظر نقوی کا فون آتا ہے کہ میں اسلام آباد میں ہوں اور مجھے فوراً ملو۔ اس سے وقت طے کرتا ہوں۔ واپس دفتر پہنچتا ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی نمازِ جنازہ تین بجے ہے۔ انٹرکام کی گھنٹی بجتی ہے۔ باس یاد کر رہا ہے۔ باس سے فارغ ہو کر یاد آتا ہے کہ مجھے اپنی کتاب کے سلسلے میں پبلشر کے پاس جانا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ نہیں جا پائوں گا اسے یہیں بلا لیتا ہوں۔ اسے دفتر میں وقت دے کر جنازے میں شرکت کے لیے چلا جاتا ہوں۔ جنازے میں شرکت کے بعد تھوڑی دیر کے لیے سیفما جاتا ہوں جہاں حاضری لگانا ضروری تھا۔ واپس آ رہا تھا تو بیگم کا فون آیا کہ آج آپ نے بچوں کے ساتھ وعدہ کیا ہوا ہے کہ انہیں ان کے چچا کے گھر لے کر جائیں گے‘ جہاں بچوں کی ایک تقریب ہے۔ تھوڑی دیر بعد پھر گھر سے فون آتا ہے۔ اس دفعہ مِیرُو لائن پر ہے۔ وہ مجھے کہہ رہا ہے کہ ہم نے اپنے جیب خرچ سے جو پیسے بچائے تھے وہ اچھے خاصے ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اب وعدے کے مطابق ہم نے کسی کی مدد کرنی ہے اور ہمیں فلاں جگہ لے چلیں۔ میں اس سے وعدہ کرتا ہوں اور دفتر واپس پہنچ جاتا ہوں۔ دفتر آ کر پتہ چلا کہ کسی ٹی وی چینل سے فون آیا تھا‘ کسی پروگرام میں شرکت کے لیے‘ میں دفتری امور نمٹانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ہمارا ساتھ چھوڑ جانے والے ساتھی کا چہرہ بہت اداس کر رہا ہے۔ فضا اداس اور بوجھل ہے۔ موبائل کی گھنٹی بجتی ہے اور منظر نقوی مجھے بُرا بھلا کہہ رہا ہے کہ میں اسے مسلسل انتظار کرا رہا ہوں۔ میں معذرت کرتا ہوں اور اس کی طرف آنے کے لیے نکل پڑتا ہوں۔ دفتر والوں نے بتایا کہ پبلشر آپ کا انتظار کر کے چلا گیا تھا اور آپ کا فون بھی بند تھا۔ اچانک یاد آیا کہ باس نے مجھے کسی سے بات کرنے کو کہا تھا۔ سو بات نہ ہو سکنے کا عذر تراشنا پڑا۔ دفتر سے نکلا تو ڈی چوک کے قریب ٹریفک بلاک تھی۔ پتہ چلا کہ غائب ہو جانے والے افراد کے لواحقین مظاہرہ کررہے ہیں۔ اسی سوچ میں تھا کہ کینیڈا سے آئے ہوئے ہمارے دوست خوبصورت شاعر اور ادیب اشفاق حسین کا فون آ گیا کہ میں نے شام کو اس کے ہاں جانا ہے۔ اس نے چند دوستوں کو چائے پر بلایا ہوا تھا۔ میں نے اس سے فون پر وعدہ کیا اور منظر کو لے کر احمد فراز ٹرسٹ کی میٹنگ میں چلا گیا جو عہدساز شاعر احمد فراز کے جنم دن کے موقع پر منعقد ہونے والی تقریب کے سلسلے میں بلائی گئی تھی۔ یہاں جانا بھی بہت ضروری تھا۔ وہاں سے فارغ ہونے کے بعد میں محبوب ظفر‘ حلیم قریشی اور منظر کو ساتھ لے کر اشفاق حسین کی طرف چل پڑا۔ اشفاق کی تازہ کتاب ''تھوڑی سی فضا اور سہی‘‘ شائع ہوئی ہے۔ اشفاق کی یہ کتاب اُن تحقیقی مضامین پر مشتمل ہے جو اردو کے اہم ادیبوں پر لکھے گئے ہیں۔ اس کے ساتھ چائے پی‘ کتاب لی اور اشفاق کو لے کر ایک اخبار کے دفتر کی طرف چل پڑا جہاں اس کا انٹرویو تھا۔ وہیں سے بیگم کو فون کیا کہ وہ بچوں کو لے کر خود چلی جائے۔ مِیرُو سے پھر وعدہ کیا۔ ٹی وی چینل والوں سے معذرت کی۔ اخبار کے دفتر سے نکلے تو اسلام آباد کلب کھانے پر جانا تھا۔ کھانے پر صحافی اور سیاستدان دوستوں سے ملکی سیاسی صورتحال پر گفتگو رہی۔ وہاں سے فارغ ہوئے تو ساڑھے 11 بج چکے تھے۔ یاد آیا کہ گھر میں آٹا‘ چینی اور دیگر اشیاء ختم ہو چکی ہیں۔ منظر ایک مرتبہ پھر مجھ پر برس پڑا کہ میں نے اسے اتنا وقت نہیں دیا جتنا دینا چاہیے تھا۔ اسے گھر ڈراپ کیا‘ بچوں کو لیا۔ مِیرُو سے اس کا بیگ اور جیب خرچ سے مدد کرنے والا کام کل کرنے کا وعدہ کیا۔ رات ایک بجے بستر پر گرا تو یاد آیا کہ میں نے کراچی کے ایک دوست کی کتاب کا فلیپ لکھنا ہے۔ پی ٹی وی کے مشاعرے کے لیے نئی نعت لکھنی ہے۔ پھر خیال آیا کہ کل ہر حالت میں کالم دینا ہے۔ سو کاغذ قلم ہاتھ میں لیا اور لکھنے کی کوشش کرنے لگا لیکن شدید تھکاوٹ اور سردرد نے واپس رکھنے پر مجبور کردیا۔ 
دل نے پوچھا۔ ''آج کے دن کیا تمہارے دامن میں کوئی خیر‘ نیکی اور اچھائی موجود ہے؟‘‘ جواب آیا۔ ''بالکل بھی نہیں۔ ہاں۔ تمہیں مِیرُو نے اپنے جیب خرچ میں سے کسی ضرورت مند بچے کی مدد کرنے کا موقع فراہم کیا تھا لیکن تم اس سے بھی محروم رہے‘‘۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ذہن ایک ایسا اندھا کنواں ہے جہاں کہیں سے کوئی صدا نہیں ابھر رہی۔ میں نے میز پر رکھی فائلوں پر نگاہ ڈالی اور ٹیبل لیمپ آف کر کے آنکھیں بند کر لیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں