مذاکرات کی کامیابی میں اصل رکاوٹ

گزشتہ ایک ہفتے سے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں مطالعاتی اور ابلاغیاتی سفر کے دوران زیادہ تر وقت نیو یارک اور ٹیکساس میں گزرا۔ اس دوران جامعات‘ذرائع ابلاغ کے دفاتر‘تھنک ٹینک اور پالیسی ساز اداروں میں اہم لوگوں سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور سیمینارز اور مذاکروں میں شرکت کے مواقع بھی ملے۔ آج کل پاکستان کے حوالے سے امریکہ اور امریکی اداروں کے پاس صرف ایک ہی موضوع ہے اور وہ ہے حکومتِ پاکستان اور طالبان مذاکرات۔ اس دفعہ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ امریکہ واقعی مذاکرات کے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور امن کو ایک موقع اور دینے میں سنجیدہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کی درخواست پر امریکی حکومت نے ڈرون حملہ نہ کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ یہ مذاکرات واقعی کامیاب ہونگے۔کتنے ہی ایسے مفاداتی گروپ ہیں جو اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچتا نہیں دیکھنا چاہتے اور افواہ ساز فیکٹریاں دن رات اس کوشش میں ہیں کہ جلد یہ مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہو جائے یا بالکل ہی رُک جائے۔ یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ مذاکرات کی جگہ پر کوئی خودکش حملہ کر دیا جائے گا یا کوئی ایسا واقعہ رونما ہونے دیا جائے گاجس سے دونوں فریق ایک دوسرے پر الزامات عاید کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کو روک دیں گے۔سو سازشیں کرنے والے تانا بانا بننے میں مصروف ہو چکے ہیں۔لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ امریکی حکومت بہت محتاط انداز میں اس سارے عمل کو دیکھ رہی ہے اور غیر جانبداری کا تاثر دے رہی ہے جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔
یہاں کے ذرائع ابلاغ اور تجزیہ نگار البتہ یہ ثابت کرنے میں مصروف ہیں کہ طالبان مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں اور لکھنے والے لکھ رہے ہیں کہ طالبان نے مذاکرات کے لیے بنائی گئی کمیٹی میں اپنا کوئی نمائندہ شامل نہیں کیا۔ سب کے سب باہر سے لیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں جانب کی کمیٹیوں کے افراد کا تعلق ایک ہی مکتبہ فکر سے ہے اور یوں لگتا ہے کہ دونوں کمیٹیاں طالبان کے حامیوں میں سے بنائی گئی ہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کی بات کون کرے گا۔اس موقف کی حقانیت میں دوسری دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ طالبان نے جس قسم کی شرائط سامنے رکھ دی ہیں‘ ان سے لگتا ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی میں سنجیدہ نہیں ہیں۔طالبان نہ تو پاکستان کے آئین کو مان رہے ہیں اور نہ آئینی حکومت کو حالانکہ حکومت کے بنائے گئے وفد سے مذاکرات کرنا حکومت وقت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔
یہاں کے ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر کوئی وجہ مذاکرات کی کامیابی میں رکاوٹ بنے گی تو وہ مولانا عبدالعزیز ہوںگے جو مسلسل مذاکرات کی ناکامی کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔وہ میڈیا کے ہر فورم پر بیٹھ کر بات کر رہے ہیں کہ پہلے ملک میںشریعت نافذ کر دی جائے ‘اس کے بعد مذاکرات کا راستہ ہموار ہو گا۔اخبار کے مطابق طالبان کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام شرائط مولانا عبدالعزیز کے مشورے سے پیش کی گئی ہیں جن میں طالبان کے تمام ساتھیوں کی پاکستان کی مختلف جیلوں سے رہائی اور مذاکرات کے لیے
شروعات آئین پاکستان کے تحت نہ کرنا شامل ہے ۔وہ مسلسل قرآن اور سُنّت کو سپریم آئین ماننے کی بات کر رہے ہیں۔اخبار نے لکھا ہے کہ ایک طرف مولانا عبدالعزیز آئین پاکستان کو نہ ماننے کی بات کرتے ہیں تو دوسری طرف ایک طویل عرصہ تک اسی آئینی حکومت کے ملازم کی حیثیت سے بطور خطیب لال مسجد تنخواہ لیتے رہے اور اسی آئین کے تحت بنائی گئی عدالتوں میں اپنے مقدمات لڑتے رہے‘وہیں سے ضمانتیں کراتے رہے اور وہیں سے مقدمات میں بری ہونے کے لیے پیش ہوتے رہے۔وہ اس لیے اپنے موقف میں سختی اور ہٹ دھرمی دکھا رہے ہیں کہ انہیں لال مسجد آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے لوگوں کو رہا کرانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالنا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگر حکومت جیلوں میں بند طالبان کے ساتھیوں جن میں لال مسجد کے گرفتار شدگان بھی شامل ہیں‘ کو رہا نہیں کرتی اور ان پر مقدمات ختم نہیں کرتی تو مذاکرات نہ کیے جائیں۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں ایک تھنک ٹینک کے زیر اہتمام ہونے والے سیمینار میں مقررین کا خیال تھا 
کہ حکومت کو معصوم شہریوں کے قاتلوں سے مذاکرات نہیں کرنے چاہئیں اور آئین پاکستان کو نہ ماننے والوں کو سختی سے کچل دینا چاہیے۔ اور اگر مذاکرات ہی کرنے ہیں تو ان کی کوئی شرط نہیں ماننی چاہیے۔ انہیں اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ ہتھیار ڈالیں اور پُرامن زندگی کو یقینی بنائیں۔ان کے خیال میں طالبان نے مولانا عبدالعزیز کو کمیٹی میں شامل کر کے اپنے آپ مذاکرات کے عمل کو خراب کیا ہے۔ شاید یہی کچھ وہ چاہتے تھے۔
مولانا عبدالعزیز کے بارے میں ایک یادداشت میرے سینے میں بھی محفوظ ہے۔ جب لال مسجد آپریشن شروع ہونے کے قریب تھا تو میں اپنے ٹی وی چینل کی جانب سے ان سے بات کرنے کے لیے لال مسجد پہنچا۔ اپنے ایک دوست کے ذریعے ان سے مختصر گفتگو کو ممکن بنایا گیا۔ گفتگو میں انہوں نے اسی طرح کی سختی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ ہم اپنی جان دے دیں گے لیکن یہاں سے نہیں نکلیں گے اور ریاستی آپریشن کا مقابلہ کریں گے۔ لیکن پھر دنیا نے دیکھا کہ کس طرح وہ اپنے بھائی اور اہلِ خانہ کو چکر دے کر ایک برقعے میں وہاں سے فرار ہونے کی کوشش میں پکڑے گئے اور اپنے بھائی اور ساتھیوں کو مرنے کے لیے وہیں چھوڑ دیا۔ کیا ایسے شخص کو میڈیا پر لانا چاہیے اور ان کی اس طرح کی باتوں کو سنوانا چاہیے؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں