''آپ پاکستان میں شمسی توانائی کے منصوبے شروع کیوں نہیں کرتے؟ وہاں اپنے ملک میں کیوں سرمایہ کاری نہیں کرتے؟ ہمارے ملک کو تو ایسے منصوبوں اور سرمایہ کاری کی زیادہ ضرورت ہے‘‘۔ میں نے مختار صاحب سے پوچھا جو آج کافی دنوں کے بعد مجھے اچانک مل گئے تھے اور اپنی غیر حاضری کا سبب شمسی توانائی کے منصوبوں میں مصروفیات بتا رہے تھے۔ ان کے جواب سے پہلے تھوڑا سا ان کے بارے میں جاننا بھی ضروری ہے۔ مختار صاحب بنیادی طور پر ہائیڈرو الیکٹرک انجینئر ہیں۔ انہوں نے دنیا کے بڑے بڑے منصوبوں میں کام کیا ہے۔ کوریا‘ چین‘ ملائیشیا‘ سعودی عرب‘ اٹلی‘ جرمنی‘ افغانستان اور پاکستان میں پانی‘ بجلی اور زراعت سے متعلق مختلف منصوبوں پر کام کر چکے ہیں۔ ان ممالک کی حکومتیں مختار صاحب کی خدمات سے استفادہ کر چکی ہیں۔ پاکستان میں منگلا ڈیم بنانے والی کمپنی کے اہم رکن کے طور پر ڈیم کی تکمیل میں پوری طرح شامل تھے۔ اس کے بعد انہوں نے تربیلا ڈیم بنانے میں بھی حصہ لیا۔ پھر وہ افغانستان چلے گئے اور ایک اٹلی کی کمپنی میں کام کیا۔ 80ء کی دہائی کے آخر میں چلے آئے اور آج کل شمسی توانائی کے منصوبوں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ امریکہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
''یہ ایک ایسی کہانی ہے جو میں نے نہ تو کسی کو سنائی ہے اور نہ ہی کسی کو سنانا چاہتا ہوں‘‘ مختار صاحب نے میرے سوال کے جواب میں کہنا شروع کیا ''سنانا کیوں نہیں چاہتے؟‘‘ میں نے کافی میں دودھ ڈالا اور انہیں کریدنے کی کوشش کی۔ ''وطن کے بارے میں منفی بات کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ ایسی باتیں کر کے دوسروں کی ملک میں سرمایہ کاری پر بُرا اثر پڑ سکتا ہے‘‘ انہوں نے کافی میں چینی کا ایک چمچ ڈالا اور اسے کپ میں ہلاتے ہوئے
بولے ''لیکن آپ کے اصل بات بتانے سے میرے ملک میں بہتری بھی تو آ سکتی ہے‘‘۔ میں نے کافی کا گھونٹ لیا اور انہیں بات بتانے کے لیے تیار کر لیا۔ ''اصل میں دو واقعات ہیں۔ پہلا سنو‘ یہ 90ء کی دہائی کا واقعہ ہے۔ میرا ایک بھائی واشنگٹن میں ورلڈ بینک کے ساتھ مختلف منصوبوں کے لیے کام کر رہا تھا۔ ایک دن اس نے مجھے کہا کہ تم پاکستان میں توانائی پیدا کرنے کے منصوبے پر کام کیوں نہیں کرتے۔ مجھے اپنی صلاحیتیں پاکستان کے لیے وقف کر دینی چاہئیں۔ میں نے کہا میں تو پہلے ہی تیار بیٹھا ہوں۔ میرے بھائی نے اپنے کنسورشیم کے لیے ورلڈ بینک سے 98 ملین ڈالر کے پروجیکٹ کی منظوری لے لی۔ اس پروجیکٹ کے لیے ورلڈ بینک نے عالمی ماہرین کی مدد سے پاکستان میں ایک ڈیم بنانا تھا۔ کنسورشیم نے مجھے اس پروجیکٹ کا ڈائریکٹر بنا دیا اور میں ضروری حکومتی سطح کی کاغذی کارروائیوں کے بعد پاکستان آ گیا۔ پاکستان میں مَیں نے اس ڈیم کی تعمیر کے لیے جگہ کا انتخاب سوات کے قریب کیا۔ وہاں پر موجود ایک ڈیم پہلے سے موجود ہے اور چین اس کے قریب سے پانی گزارنے یا لانے کے لیے نہر جیسے کسی منصوبے پر کام کر رہا تھا۔ حکومت کی خواہش تھی کہ اسی ڈیم کو تھوڑا بہت ٹھیک کر لیا جائے اور نیا ڈیم نہ بنایا جائے۔ دراصل افسر شاہی اور با اختیار لوگ سارا پیسہ لگانا نہیں چاہتے تھے لیکن میں نے ورلڈ بینک کی طرف سے اس کی مخالفت کی۔ بالآخر طے ہوا ایک اور ڈیم بنایا جائے۔ سو‘ بادل نخواستہ اس پر کام شروع ہو گیا۔ حکومت نے منظوری دے دی۔ میں نے دن رات ایک کر کے اس پروجیکٹ
کا پہلا فزیبلٹی فیز مکمل کروا دیا۔ اب کام دوسرے مرحلے میں داخل ہو گیا تھا۔ میری کوشش اور خواہش یہ تھی کہ اگر پیسے بچ جائیں اور یقینا بچنے تھے تو ان کو پہلے ڈیم کی درستگی کے لیے استعمال کر لیا جائے۔ یہ انڈر سٹینڈنگ ورلڈ بینک کے ساتھ ہو چکی تھی۔ سو دوسرا مرحلہ بھی کامیابی کے ساتھ تکمیل کی طرف گامزن تھا۔ اب حکومت پاکستان نے فزیبلٹی‘ مجموعی لاگت اور پروجیکٹ کی تکمیل کے دورانیے کی منظوری دینی تھی۔ ساتھ ساتھ Layout کی منظوری بھی شامل تھی۔ ڈیم سے متعلق فائل مختلف وزارتوں میں گھومتی رہی اور آخرکار وزارتِ پانی و بجلی میں آ گئی۔ میں سیکرٹری صاحب کے دفتر میں گیا۔ ان سے صورتِ حال جانی تو انہوں نے بہت خوشی سے بتایا کہ آپ کا کیس مکمل ہو چکا ہے اور آخری منظوری کے لیے سامنے والی عمارت میں وزیر ماحولیات کے دفتر میں پڑا ہے۔ آپ فوراً وہاں چلے جائیں۔ وزارت ماحولیات کا دفتر ان دنوں ایک قریبی بلڈنگ میں واقع تھا۔ میں حیران تھا کہ ماحولیات والوں کا اس پروجیکٹ سے کیا تعلق؟ سیکرٹری صاحب نے بتایا کہ عالمی اور حکومتی قانون کے تحت ماحولیات کی وزارت سے اجازت لینا ضروری ہے۔ میں وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وزیر ماحولیات ملک کے سب سے طاقتور عہدے دار کے سب سے قریبی عزیز ہیں۔ ان کے سیکرٹری سے ملاقات ہوئی تو اپنا مدعا بیان کیا۔ سیکرٹری صاحب اندر گئے اور آ کر کہا کہ صاحب تو مصروف ہیں لیکن آپ کے لیے ایک پیغام ہے۔ آپ کا کیس تیار ہے اور صاحب کے دستخطوں کے لیے ان کے سامنے پڑا ہے۔ دراصل ملک میں انتخابات کا زور شور ہے اور پارٹی دوبارہ انتخابات جیتنا چاہتی ہے لہٰذا پارٹی کو فنڈز کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ان پیسوں میں سے 10 ملین ڈالرز پارٹی فنڈ میں دے دیں تو ابھی فائل لے جائیں۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ میں نے واشنگٹن فون کیا اور اپنے بھائی کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ بھائی نے ایسا کرنے سے سختی سے منع کردیا کہ یہ ورلڈ بینک کا پیسہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ فائل داخل دفتر ہو گئی‘ کام رُک گیا اور میں انتظار کر کے واپس آ گیا۔ اس کے بعد مختلف سطحوں پر ورلڈ بینک اور حکومتِ پاکستان کے درمیان خط و کتابت ہوئی۔ اس عمل میں کوئی پانچ چھ مہینے لگ گئے۔ یوں لگا جیسے حکومت پاکستان کچھ کچھ راضی ہو گئی ہے۔ وہ یہ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ مجھے کہا گیا کہ فوراً پاکستان پہنچو۔ میں بھاگم بھاگ پاکستان پہنچا۔ اسی سیکرٹری سے ملا تو اس نے بتایا کہ آپ نے آنے میں دیر کردی۔ وہ پروجیکٹ تو حکومت کینیڈا کو دے دیا گیا ہے۔ میں حیرت سے دیکھتا رہ گیا۔ پتہ یہ چلا کہ ان دنوں کینیڈا حکومت کا ایک وفد آیا جس میں وہاں کی توانائی کمپنی کے لوگ بھی تھے۔ ان لوگوں نے متعلقہ صاحبان کو مطلوبہ پیسے دے کر وہ پراجیکٹ حاصل کر لیا۔ ورلڈ بینک کو جب پتہ چلا تو اس نے حکومتِ کینیڈا کے ساتھ یہ مسئلہ اٹھایا۔ حکومتِ کینیڈا نے تحقیقات کر کے اس کمپنی کے متعلقہ شخص کو قصوروار جانتے ہوئے اسے سزا سنا دی۔ پروجیکٹ پھر بھی شروع نہ ہو سکا اور مزید دیر ہوتی گئی۔ بالآخر ورلڈ بینک نے اس پروجیکٹ سے اپنا تعلق توڑ لیا اور خاموشی سے بیٹھ گیا۔ اس دوران حکومت تبدیل ہو گئی۔ ڈیم کی صورتِ حال اسی طرح رہی اور پیسے لینے والے پیسے لے کر چلتے بنے۔ میں خاموشی سے امریکہ واپس آ گیا‘‘۔ مختار صاحب یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ ان کی کافی ختم ہو چکی تھی۔ ''اور دوسرا واقعہ؟‘‘ میں نے ایک طرح سے ان کی یادداشت کے آتشدان میں پڑی راکھ کو دوبارہ کریدا ''یہ مشرف کا دور تھا۔ میں نے سوچا کہ اپنے ملک میں زراعت کے شعبے میں فصل کی پیداوار کو دو گنا کرنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی کو ملک میں متعارف کرانے کی کوشش کی جائے۔ میں نے اپنا دفتر بنایا۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں اس ٹیکنالوجی کو فراہم کرنے کی غرض سے یونٹ بنائے۔ لوگوں کو ملازمت دی۔ میں نے پلانٹ درآمد کیا۔ فصل اُگنے کے دن تھے۔ مشینری آ گئی لیکن کراچی پورٹ پر پڑی رہی۔ میں اسے اس لیے اٹھا نہیں سکتا تھا کہ اس کے لیے صوبائی دفتر کے ڈی جی کا این او سی چاہیے تھا۔ این او سی کی ہرگز ضرورت نہیں تھی لیکن یہ شرط اس لیے لگائی گئی کہ انہیں پیسے چاہئیں تھے۔ انہوں نے این او سی دینے کے لیے 50 لاکھ روپے مانگے۔ میں نے سفارشیں کروائیں‘ بڑے بڑے لوگوں سے کہلوایا لیکن سب نے ہار مان لی۔ بالآخر مجھے ان کا مطالبہ تسلیم کرنا پڑا لیکن جب تک مشینری ملی‘ فصل کا سیزن ختم ہو چکا تھا۔ میں نے کچھ دن کام کو دیکھا۔ مشینری بیچی‘ دفاتر بند کیے اور واپس آ گیا‘‘۔ Starbucks کے باہر رکھی کرسیوں پر بارش کی ہلکی پھوار پڑی تو مختار صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ ٹشو پیپر سے اپنی عینک کو صاف کیا‘ اگلے ہفتے ملنے کا وعدہ کیا اور اپنی گاڑی کی طرف چل دیئے۔ فرخ اقبال کی کافی ٹھنڈی ہو چکی تھی اور دونوں کہانیوں کا دکھ اس کی آنکھوں میں صاف پڑھا جا سکتا تھا۔