میرے گزشتہ کالم ''دو کہانیاں- دو دُکھ‘‘ کے ردعمل میں جتنی ای میلز آئیں‘ ان سب میں کئی کہانیاں تھیں اور کئی دکھ۔ یہ کہانیاں لکھنے بیٹھو تو سر چکرا کر رہ جائے۔ دماغ پھٹنے کو آ جائے۔ زندگی گھومتی ہوئی محسوس ہو۔ لیکن کیا کیا جائے۔ اربابِ اختیار کو احساس ہی دلایا جا سکتا ہے۔ انہیں کچھ سوچنے‘ ملک کے لیے کچھ کرنے پر مجبور تو نہیں کیا جا سکتا۔ لکھنے والا صرف لکھ سکتا ہے۔ بولنے والا بول سکتا ہے‘ لیکن مصلح تو نہیں بن سکتا۔ سوچ اور سماج کو تنہا ٹھیک تو نہیں کر سکتا۔ جمود اور مافیاز کے ساتھ قلم اور زبان سے جنگ کر سکتا ہے لیکن لٹھ بردار نہیں بن سکتا۔ سب ایک جیسی کہانیاں ہیں اور ایک جیسے واقعات۔ ایک اور کہانی سن لیں۔ آج کل امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں دنیا کی سب سے بڑی صنعتی کانفرنس ہو رہی ہے۔ یہ کانفرنس اور نمائش آئل‘ گیس اور توانائی سے متعلق ہے۔ اسے ''آف شور ٹیکنالوجی کانفرنس‘‘(OTC.2014)کا نام دیا گیا ہے جس میں دنیا بھر کے تمام چھوٹے بڑے ممالک کے وفود شرکت کر رہے ہیں۔ وہاں کی کمپنیوں نے سٹالز لگائے ہوئے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ کار اور سرمایہ کار کمپنیاں اپنی اپنی پراڈکٹس اور پراجیکٹس کے ساتھ موجود ہیں۔ ایم او یو بنا رہی ہیں۔ ایگریمنٹ کر رہی ہیں۔ دوسرے ممالک اور ان کی کمپنیوں کو اپنے اپنے ممالک میں سرمایہ کاری کرنے اور آئل اینڈ گیس کے پراجیکٹس شروع کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ ہر ملک اپنے
لیے پبلک ریلیشنگ اور لابنگ کے لیے مختلف فرمز کو استعمال کر رہا ہے۔ امیج بلڈنگ اور ترغیبات کے لیے سٹالز پر مختلف پرکشش طریقے اختیار کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ کار اور کمپنیوں کے نمائندے ان کے سٹالز پر آئیں۔ ان کے ممالک کے بارے میں جانیں۔ سرمایہ کاری کے امکانات کو تلاش کریں۔ یہ وہ موقع ہے جب دنیا میں بڑے بڑے منصوبے شروع ہوتے ہیں یا شروع ہونے کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ لیکن اگر یہاں پر کسی چیز کی کمی ہے تو صرف پاکستان کے سٹالز کی۔ پاکستان اس بڑے ایونٹ میں شرکت نہیں کر رہا۔ یہاں پاکستانی نظر تو آ رہے ہیں لیکن دوسری کمپنیوں اور ممالک کے لیے کام کرتے ہوئے۔ او جی ڈی سی ایل ہے نہ پی پی ایل یا نیسپاک ہے نا کوئی اور وزارت تیل اور گیس کا کوئی ادارہ یا نمائندہ۔ اس شہر میں اس سے پہلے وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی بھی اپنے بھاری بھر کم وفد کے ساتھ کچھ وقت گزار کر چلے گئے ہیں۔ اس دورے کا کوئی بھی نتیجہ نہ نکل سکا اور حکومتِ پاکستان کے کروڑوں روپے کھوہ کھاتے چلے گئے۔ سنا ہے کہ آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے ہیڈ آف جوائنٹ وینچر ‘ امجد صاحب بھی کسی کمپنی کی تلاش میں یہاں سرگرداں پائے گئے ہیں
لیکن ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آ سکا۔ اس وقت دنیا بھر میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں سب سے زیادہ Shale Gas کے ذخائر پائے جاتے ہیں۔ لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی ایک منصوبہ بھی شروع نہیں ہو سکا۔ آئل اینڈ گیس کے امریکہ میں سب سے بڑے ماہر اور سرمایہ کار سجاد چودھری جو ٹیکساس میں مقیم ہیں‘ کے مطابق ساری دنیا اب اس نان کنوینشنل گیس کی طرف متوجہ ہے اور بڑی بڑی کمپنیاں اس پر کام کر رہی ہیں لیکن پاکستان میں ابھی تک اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ پاکستان میں آئل اینڈ گیس سیکٹر میں بھی ایک بہت بڑا مافیا ہے جو غیر ملکی کمپنیوں کو کام نہیں کرنے دیتا اور ایسی فضا پیدا کر دیتا ہے جس سے غیر ملکی کمپنیاں بھاگ جائیں۔ کئی بھاگ گئی ہیں اور کئی جانے کو پَر تول رہی ہیں۔ یہاں کے بعض لالچی بزنس مین قبضہ گروپ بنے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے مارجنل فیلڈز پر قبضہ کر رکھا ہے۔ خود کچھ کرتے ہیں نہ کسی کو کچھ کرنے دیتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے کسی ایک فیلڈ میں بھی کچھ Produce نہیں ہو سکا۔ یہ لوگ بیوروکریسی اور اربابِ اختیار کو بھی پیسے اور چند ترغیبات دیتے ہیں اور سرمایہ کار کمپنیوں کو بھی۔ حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں Rigs کی تعداد امریکہ میں سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں اس وقت 1800‘ Rigs کام کر رہے ہیں جبکہ باقی پوری دنیا میں 1800 ہیں۔ امریکہ میں موجود ان 1800‘ Rigs میں سے 900 صرف ٹیکساس میں ہیں۔ سعودی عرب میں 200 ہیں۔ بھارت میں 100 جبکہ پاکستان میں اس وقت صرف 36‘ Rigs کام کر رہے ہیں۔ ہمارا مقابلہ تو کسی کے ساتھ ہے ہی نہیں۔ دفتر خارجہ‘ وزارت پٹرولیم اور اس کے ادارے Rigs‘ Exploration‘ Manufacturing‘ Supply‘ Machinery Equipment‘ Shale Gas‘ Colaیا کسی اور نان کنوینشنل طریقے پر کام نہیں کر سکتے تو کم از کم افرادی قوت کو تو تربیت کے لیے باہر بھیج سکتے ہیں۔ ہماری توجہ اس طرف بھی نہیں۔
دنیا ہمارے بارے میں اب کہنا شروع ہو گئی ہے کہ ہم لوگ صرف ٹریڈر ہیں مینوفیکچرر نہیں ہیں۔ ہم صرف خریدتے ہیں‘ چیزیں بنا کر بیچنے کی اہلیت ہمارے اندر نہیں۔ دنیا بھر کے ممالک واشنگٹن میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے لابنگ فرمز کو ہائر کرتے ہیں جو مسلسل اپنے ملک کے بہترین مفاد کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کرتی ہیں جس میں سب سے زیادہ فوکس نئی نسل کے لیے ٹیکنالوجی اور سائنس کے مختلف شعبوں کے سکالرشپ کا حصول اور کانگریس کے قوانین کا اپنے حق میں استعمال‘ پراپیگنڈہ کا جواب اور پابندیوں کا خاتمہ شامل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہم نے جب بھی اپنے لیے لابنگ فرمز اور پی آر کا استعمال کیا اس کا مقصد صرف اور صرف امداد کا حصول یا قرضوں کا اجرا تھا۔ ہم اس سے آگے سوچ ہی نہیں سکتے۔ اس کام نے ہمیں مجموعی طور پر ایک بھکاری نما تاجر بنا دیا ہے جس کی تجارت بھی مانگنے سے شروع ہوتی ہے اور مانگنے پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جس ملک کا امیج یہ بن جائے‘ اسے دنیا میں کہیں بھی سیریس نہیں لیا جاتا۔ سجاد چودھری اس صورت حال سے اگرچہ بہت پریشان ہیں لیکن وہ اور ان کا ادارہ اپنے ملک کے لیے اس دھند میں بھی روشنی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ وہ حکومتِ پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستانی طالب علموں کو آئل اینڈ گیس سیکٹر میں ٹریننگ کے لیے امریکہ بلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ خدا کرے کہ حکومت پاکستان اس اچھے کام کو بھی خراب نہ کرے ا ور میرٹ پر طلباء کو اس تربیتی پروگرام کے لیے بھیجے۔