پروفیسر حافظ محمد سعید (امیر جماعۃ الدعوۃ) بلوچستان رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ،آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا،معدنیات اور وسائل کے اعتبار سے امیر ترین اور جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اہم ترین صوبہ ہے۔ اس کا کل رقبہ 347190مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے 43.6 فیصد رقبے پر مشتمل ہے۔بلوچستا ن کے مغرب کی جانب سے 832کلومیٹر لمبی سرحد پاکستان کو ایران سے ملاتی ہے۔ شما ل کی طرف سے 1120کلومیٹر طویل سرحد پاکستان کو افغانستان سے ملاتی ہے جبکہ بلوچستان کا 760کلومیٹر طویل ساحلی علاقہ پاکستان کو مشرق وسطیٰ سے ملاتا ہے ۔ خلیج عمان کی شوریدہ سر لہریں ایک طرف بلوچستان کے ساحل سے ٹکراتی ہیں تو دوسری طرف مملکت عمان اور متحدہ عرب امارات کی دیواروں پر دستک دے رہی ہوتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ سے نکلنے والے آئل کے بھرے ٹینکر آبنائے ہرمز،خلیج عمان اور گوادر سے ہوتے ہوئے چین اور جاپان کو جاتے ہیںاور دوسری طرف یہی ٹینکر گوادر سے بحیرہ عرب اور نہر سویز سے ہوتے ہوئے یورپ کی طرف رواں دواں رہتے ہیں۔پاکستان کی سب سے بڑی بندر گاہ گوادر عین اس مقام پر واقع ہے جہاں خلیج عمان اپنا دامن سمیٹ لیتی اور اس سے آگے وسیع و عریض بحیرہ عرب اپنا دامن وا کر دیتا ہے۔ بحری جہاز اور آئل ٹینکر خلیج عمان سے ہوتے ہوئے گوادر بندر گاہ پہنچنے کے بعد ہی کھلے سمندر میں داخل ہوتے ہیں۔ اس اعتبار سے گوادر بندر گاہ مشرق و مغرب کو ملاتی اور بحیرہ عرب میں داخلے اور عالمی تجارت کے لئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے ،اس بندر گاہ کے بالمقابل عمان واقع ہے۔ بلوچستان کے ساحل کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ سندھ کے ساحل سے 40میل زیادہ لمبا‘ کراچی کے سمندر سے زیادہ گہرا ہے اور یہاں بڑے بڑے جہاز آسانی سے لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ پاکستان کی صنعتی و تجارتی شہ رگ اور عالمی تجارت کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ وسیع اور گہرے سمندروں کے علاوہ بلوچستان کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ یہاں سونے اور دیگر قیمتی معدنیات کے وسیع ترین ذخائر موجود ہیں، اس بنا پر یہ شروع ہی سے عالمی طاقتوں اور دشمنوںکی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ بلوچستان عالمی طاقتوں کیلئے کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر نے1962 ء میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران کہا تھا ’’چاہے کچھ بھی ہو میں بلوچستان کے مسئلہ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا‘‘ اندرا گاندھی نے نومبر1971ئمیں صدر نکسن کے ساتھ واشنگٹن میں ملاقات کرتے ہوئے کہا ’’بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیںاس لئے بلوچستان اور سرحد کو خصوصی طور پر زیادہ خود مختاری ملنی چاہیے، در حقیقت انہیں (بلوچستان سرحد)تقسیم ہند کا حصہ ہی نہیں ہونا چاہئے تھا‘‘۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ ہنری کیسنجر اور اندرا گاندھی کے یہ بیانات ماضی کی باتیں ہیں ،اب حالات بہت بدل چکے اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے لہٰذا ہمیں ماضی کا اسیر بننے کی بجائے حال میں زندہ رہنے کی بات کرنی چاہیے۔ حال کی اہمیت اپنی جگہ مگر ماضی سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہوتا اس لیے کہ افراد ہوں یا اقوام‘ انفرادی و اجتماعی سطح پر جب بھی باہم کوئی معاملہ طے کرتے ہیں تو ایسے وقت میں ماضی ضرور دیکھا جاتا ہے کیونکہ ماضی حال کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ حال کی بات یہ ہے کہ گزشتہ سال 17فروری2012ء کو امریکی کانگریس میںیہ قرارداد پیش کی گئی ’’ بلوچستان کو پاکستان کے تسلط سے آزاد کروایا جائے اور اس صوبہ کے لوگوں کو حق خود ارادیت دلوایا جائے‘‘یہ قرارداد امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے چیئرمین اور رکن امریکی کانگریس ڈینا روہرا بیکر(dana rohrabacher)نے پیش کی تھی۔ کچھ دن بعد اسی رکن کانگریس نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ’’امریکہ پاکستان میں علیحدگی پسندوں کی حمایت جاری رکھے گا‘‘۔ امریکی ایوان نمائندگان میں پاس کی جانے والی یہ قرارداد اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت تھی۔ نکسن سے اندرا گاندھی کی ملاقات، امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد اور رکن امریکی کانگریس کی پریس کانفرنس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان کے متعلق امریکہ اور بھارت دونوں کے عزائم اور ارادے ایک ہیں ،خاص کر بلوچستان دونوں کے نشانے پر ہے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اس کے ارادے کبھی ڈھکے چھپے نہیں رہے۔بھارتی حکمران خطے میں کیا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، اس کا اندازہ بھارت کی جدید خارجہ پالیسی کے معمار ڈاکٹرایس آر پٹیل کی کتاب foreign policy of india کے ایک اقتباس سے کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’بھارت کے دفاع کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ سنگا پور اور نہر سویز دونوں ہمارے کنٹرول میں ہوں کیونکہ یہ دونوں مقامات بھارت کے لئے مین گیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ان دونوں مقامات پر کسی اور کا کنٹرول ہوا تو بھارت کی آزادی معرضِ خطر میں پڑ جائے گی۔ پٹرول کی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے یہ بھی ناگزیر ہے کہ بھارت عرب ممالک پر بھی کنٹرول حاصل کرے،انگریز کے چلے جانے کے بعد خطے میں ایک عظیم سیاسی خلا واقع ہو چکا ہے جس کا پُر کیا جانا اشد ضروری ہے اور یہ سیاسی خلا بھارت کو پُر کرناہوگا۔ چونکہ بھارت کے پاس ایک عظیم بحری طاقت موجو د ہے اس لئے ضروری ہے کہ نہر سویز سے سنگا پور تک بحیرہ ہند ایک ایسی خلیج کی حیثیت اختیار کر لے جس پر بھارت کا کنٹرول ہو۔‘‘ متذکرہ بالا اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت سمندروں پر قبضے کے ذریعے ایک عظیم طاقت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ سمندری راستوں کی ہمیشہ سے دنیا میں اہمیت رہی ہے۔ ماضی قریب میں برطانیہ نے سمندروں پر تسلط کی وجہ سے آدھی دنیا پر حکمرانی کی تھی،سمندروں پر تسلط کی ہوس نے ہی روسی ریچھ کو اپنی کچھار سے نکلنے اور افغانستان پر حملے کے لئے مجبور کیا تھا۔ اب بھارت خلیج عمان ،گوادر، بلوچستان کے ساحلی علاقے اور بحیرہ عرب پر تسلط کے خواب دیکھ رہا ہے بھارت کی اس مہم جوئی کے دو مقاصد ہیں۔ اولاً:برطانیہ کے اس خطے سے نکلنے کے بعد جو سیاسی خلا واقع ہوا ہے اس خلا کو پُر کر کے عظیم طاقت بننے کے خواب کی تکمیل۔ ثانیاً:بلوچستان اور سندھ کے ساحلوں کو کاٹ کرپاکستان کو بے دست وپا کرنے کی آرزو۔ اس سارے معاملے کا ایک لطیف پہلو یہ ہے کہ اگر گوادر بندرگاہ کا فضائی جائزہ لیا جائے تو یہ ہتھوڑے کی طرح بحیرہ عرب کے پہلو میں سر اٹھائے نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ گوادر بندرگاہ کا ہتھوڑا بھارت کی مہم جوئی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور بھارت جانتا ہے کہ جب تک یہ ہتھوڑا پاکستان کے پاس موجود ہے اس کی کسی بھی قسم کی بحری مہم جوئی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت یہ بندرگاہ پاکستان سے ہتھیا کر اسے غیر مسلح ،کمزور اور بے دست و پا کرنا چاہتا ہے۔ بلوچستان میں جاری شورش ،ہنگامہ خیزی،بدامنی،دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کا یہی سبب اور پس منظر ہے۔ بھارت پہلے بھی کئی بار ہم پر مہم جوئی اور لشکر کشی کر چکا اورہمیں مشرقی پاکستان میں بھیانک صوتحال سے دو چار کر چکا ہے۔ اب وہ بلوچستان میں اسی صورتحال کا اعادہ کرنے کے درپے ہے ۔ بھارت اور دیگر پاکستان دشمن طاقتیں میڈیا کے بل بوتے پر بلوچستان کے حالات و معاملات کو گڈ مڈ کر رہی اورشرپسندوں کے خلاف کارروائی کو بلوچ عوام کے خلاف کارروائی کاتاثر دینے کی کوششیں کر رہی ہیںاس لیے ہمیںبڑی حکمت،دور اندیشی اور تدبر سے کام لیتے ہوئے حالات کو سمجھنا،سنبھالنا اور سلجھانا ہو گا۔ جہاں تک بلوچستان میں رہنے والی اقوام کا تعلق ہے وہ مسلمان، محب وطن، ہمارے بھائی، ہماری عزت، ہماری آبرو، ہمار ا مان، ہمارا فخر اور وقار ہیں، ان کے جذبہ حب الوطنی میں کوئی شک نہیں۔ ہمارے لئے مکران کے ساحل پر رہنے والا بھی اتنا ہی قابل عزت و قابل احترام ہے جتنا اسلام آباد ،لاہور یا کراچی کا باسی ہے۔ بلوچستان کے عوام کے پاکستان کے دفاع کے لئے وہی جذبات ہیں جو پنجاب یا کسی دوسرے صوبے کے مسلمانوں کے ہیں۔ بلوچستان کے حقیقی مسائل میں سے تعلیم اور ترقیاتی کاموں کا فقدان ہے۔ علاوہ ازیں گذشتہ چند سالوں میں آنے والے سیلابوں اور زلزلوں کی وجہ سے بھی یہاں کے حالات ابتر ہوئے ہیں۔ 2005ء، 2007ء، 2008ء اور 2010ء میں آنے والے سیلابوں اور چند ماہ پہلے ماشکیل میں آنے والے زلزلے کی وجہ سے ہزاروں گھر مسمار، لاکھوں لوگ بے گھر، مال واسباب، جانور، فصلیں، باغات پانی کی نذر ہو گئے۔ کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو گئیں۔ اربوں روپے کا نقصان ہوا اور کئی سو کلومیٹر سڑکوں کا نام ونشان مٹ گیا۔ ایک بلوچستان ہی کیا پورا پاکستان ہی اس وقت مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ اسلام سے روگردانی ہے۔ اللہ سے تعلق توڑ کر اور اسلام کو چھوڑ کر مسائل و مصائب سے نجات ممکن نہیں۔ سرخروئی، کامیابی اور مسائل و مصائب سے نجات کا راز اللہ سے تعلق میں مضمر ہے۔ اللہ سے تعلق طاقت ہے اور اللہ سے بغاوت کمزوری ہے۔ کمزوری ہمیشہ جارحیت کو دعوت دیتی ہے۔ سو اگر ہم اپنے مسائل سے نجات، سربلند و سرفراز اور باوقار قوم بن کر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو اللہ سے تعلق اور ایمان کو مضبوطی سے تھامنا ہو گا۔