پاک بھارت تعلقات سلجھانے کے لیے بعض لوگ ہمیشہ اس قدر تعجیل میں کیوں ہوتے ہیں ؟ گویا ایک ادھڑا ہوا ملبوس ہے کہ فوراً سی دیا جائے؟ صدیوں کی نفرت ہے اور اس آگ کو بھڑکانے والے‘ جن کے اپنے تعصبات ہیں یا مفادات مگر یہ حیران کن عجلت؟ اس سوال کا جواب کبھی نہ مل سکا۔ شاید کوئی ارزاں کرے۔ جانے پہچانے عکسی مفتی کی تصنیف ’’ایک دن کی بات‘‘ میں یہ واقعہ پڑھا تو ششدر رہ گیا۔ کیا واقعہ اسی طرح رونما ہوا ہوگا؟ ناقابلِ یقین ، بظاہر ناقابلِ یقین! احتیاطاً بعض نام اور طوالت کم کرنے کے لیے چند جملے حذف کر دئیے ہیں ۔ ’’ایک دن کی بات‘ امریکی سفارت خانے کے پبلک افئیر افسر Larry Shuartzکا فون آیا۔ لیری کو میں پہلے سے جانتا تھا۔ اس نے کہا ’’مفتی! کافی اور بسکٹ کھانے کے لیے کل شام F-6/3میں میرے گھر آجائو‘‘۔ اگلے روز سہ پہر میں لیری کے گھر پہنچا ۔ مشہور اینکر اور پرڈیوسر صوفوں پر بیٹھے تھے ۔ فاطمہ جناح کالج کی وائس چانسلر، نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی معروف شخصیات پہلے سے موجود تھیں ۔ کچھ دیر میں سڑک پر وی آئی پی سائرن بجنے کی آوازگونجی۔ میں قدرے پریشان تھا کہ یہ کیسے امریکی بسکٹ ہیں، جن پر مجھے مدعو کیا گیا ہے۔ امریکی سفیر Nancy Powell، Jonathan Prattاور ایک خاتون ۔ یہ سب لیری کے پیچھے داخل ہوئے ۔ بتایا گیا کہ یہ ہندوستان میں امریکہ کے نئے سفیر ہیں ۔ حال ہی میں نئی دلی میں ان کا تقرر ہوا ہے ۔ہماری درخواست پر یہ تینوں نئی دلی میں اپنے عہدے سنبھالنے سے پہلے صرف ایک دن کے لیے اسلام آباد رکے ہیں ۔ امریکی سرکار کی خواہش ہے کہ ہندوستان اورپاکستان کے عوامی اور ثقافتی رابطے بحال کیے جائیں۔ ان دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے، لوگ ایک ہیں، تاریخ ایک ہے؛ لہٰذا People to people contactکو فروغ دینا اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہمارے مقاصد میں شامل ہے۔ ہندوستان میں نامزد نئے سفیر آپ کے پاس بیٹھے ہیں ۔ یہ آپ کی رائے لینا چاہتے ہیں ۔ سب سے پہلے ایک چینل کا نمائندہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا: ’’جنابِ عالی ، ہم تو اس نیک کام میں پیش پیش ہیں ۔ ہماری کامیابی کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ حال ہی میں ہندوستان کی مشہور اور معروف فلمی شخصیت امیتابھ بچن نے پاکستانیوں سے بیس منٹ تک ہمارے چینل سے خطاب کیا ہے لیکن جناب ہم ا س سے زیادہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ ہماری مالی امداد میں اضافہ کر دیا جائے‘‘۔ فوراً ہی دوسرے چینل والے بول اٹھے : جنابِ عالی بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی اور امریکہ کی کہی ہر بات پر پاکستانی عوام تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدگمانی پیداہوتی ہے ؛لہٰذا میری تجویز یہ ہے کہ آپ پاکستان اور ہندوستان کو قریب لانے کی پالیسی کا اعلان یورپی یونین سے کروائیں ۔ یورپی یونین کے دبائو میں آکر پاکستانی حکومت با آسانی اس پالیسی پر عمل کر سکے گی ۔ پاکستانی عوام بھی اسے شک کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے ۔ باقی رہا کام ترویج اور تشہیرکاتو وہ ہمارا ٹی وی با آسانی کر سکے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ہمیں اس کے لیے آپ سے مزید مالی امداد کی فوری ضرورت ہو گی ۔ اسلام آباد کی ایک جانی پہچانی آرٹ گیلری کی سربراہ خاتون کہنے لگیں : ہم تو اس پروگرام پر پچھلے سال سے بھرپور عمل کر رہے ہیں ۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کی اہم شخصیات کے ایک گروہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ۔ انہیں شہر شہر گھمایا۔ مختلف لوگوں کے ساتھ میل ملاقاتیں ہوئیں ۔ رکاوٹ صرف یہ ہے کہ آپ کے دئیے ہوئے فنڈز ہمیں حکومتِ پاکستان سے لینے میں دشواری ہوتی ہے ؛لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ ہماری مالی امداد براہِ راست ہمیں دی جائے ۔ میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک بہت ہی نامور ثقافتی شخصیت ، جو کئی ایک اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں اور حال ہی میں ڈائریکٹر جنرل کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے ، کہنے لگے : جناب سب بجا لیکن میرے خیال میں پاکستانی عوام اور ہندوستانی عوام کو قریب لانے کا واحد موثر ذریعہ میڈیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مخصوص کام کے لیے ایک علیحدہ سیٹلائٹ ٹی وی چینل کھولنا چاہیے۔ حضور یہ وہ کام ہے ، جو میں بذاتِ خود بخوبی انجام دے سکتا ہوں ۔آپ دیکھیں گے کہ کس قدر کم عرصہ میں دونوں ملکوں کے عوام کو جوڑ دوں گا لیکن اس کام کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہو گی۔ اس طرح ہر پاکستانی شخصیت نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن ہر ایک کی بات ایک ہی نکتے پر ختم ہوئی : امریکہ سے مالی امدادکی استدعا۔ میں چپ بیٹھا سب کی سنتا رہااور کچھ نہ بولا۔ اتنے میں ہندوستان میں نامزد امریکی سفیر کی نگاہ مجھ پر ٹھہر گئی۔ وہ مجھ سے کہنے لگے ’’سر آپ کی رائے سے ہم مستفید نہیں ہو سکے ، آپ بھی کچھ کہیں‘‘۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا ’’یور ایکسیلنسی !مجھے تو لیری نے غیر رسمی طور پر امریکی بسکٹ کی دعوت دی تھی، میں تو بسکٹ کھانے آیا تھا ‘‘۔ یہ سنتے ہی مسٹر پریٹ کو بجلی کا ایک جھٹکا لگا اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے ۔ درمیان میں پڑی میز پر سے ایک بڑی پلیٹ ان کے ہاتھ میں تھی ۔ اس پلیٹ کو لے کر وہ واپس پلٹے اور میرے سامنے پلیٹ کو آگے بڑھاتے ہوئے بولے ’’حضور یہ بسکٹ آپ ہی کے لیے ہیں، شوق فرمائیں‘‘ میں نے کہا ’’جناب ، یہاں عالم فاضل لوگ بیٹھے ہیں، میں تو ایک Folkloristہوں۔ آپ چاہیں تو ایک مختصر کہانی بیان کر سکتا ہوں‘‘ ۔ بولے ’’بے شک، بے شک۔ کہانی تو ہم بڑے شوق سے سنتے ہیں‘‘۔ میں نے کہا ’’سفیر صاحب! یہ میرے دیس کی قدیم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے سو میل دور کے فاصلے پر دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کے ہاتھی اور فوجیں حملہ آور سکندرِ اعظم کی منتظر تھیں ۔ انہیں ہر صور ت بیرونی حملہ آور سے اپنی سرزمین ، اپنے دیس کا تحفظ کرنا تھا۔ اسے بچانا تھا ۔ اس دریاکے کنارے گھمسان کی لڑائی ہوئی ۔راجہ پورس نے ہر ممکن اپنے ملک اور ریاست کو بچانے کی کوشش کی لیکن سکندرِ اعظم کی اعلیٰ قیادت اور مضبوط فوجوں کے آگے پورس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ شکست خوردہ بادشاہ کو جب سکندرِ اعظم کے آگے پیش کیا گیا تو فاتح بادشاہ نے پوچھا ’’اب تم سے کیا سلوک کیا جائے؟‘‘ پورس نے جواب دیا ’’جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے‘‘۔ سکندرِ اعظم ایک ذہین اور دور اندیش فاتح تھا، وہ پورس کی بات سمجھ گیا اور اسی وقت اس کی سرزمین اسے لوٹا دی ۔ اس دن سے پورس سکندر کا بہت بڑا خیر خواہ اور حامی بن گیا۔ کہانی جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا ’’سفیر صاحب ہر چند کہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور ہم بہت چھوٹے ہیں ۔ ا س خیر سگالی کو ہم یقینا خو ش آمدید کہیں گے، اگر ہندوستان ہمارے ساتھ برابری کا رشتہ قائم کرے ۔ ہم سے وہی سلوک کرے ، جو سکندر نے پورس کے ساتھ کیا لیکن جناب انہوںنے تو آج تک پاکستان کی جغرافیائی حقیقت اور اسے آزاد اور خود مختار ریاست تسلیم ہی نہیں کیابلکہ اس کے وجود کو ماننا ہی نہیں چاہتے اور کسی اکھنڈ بھار ت کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں ۔ کیاوہ ہمیں برابری دیں گے؟‘‘ میں نے کہا: حضور یہ مشاورت اور میٹنگ ، جو آپ اسلام آباد میں کر رہے ہیں ، شاید اس کی افادیت اور ضرورت دہلی میں زیادہ ہو۔ ایک چینل کو بڑا ناز ہے کہ امیتابھ جیسی شخصیت پاکستانیوں سے ہم کلام ہوئی ۔ میرے دماغ نے یہ سوال بار بار دہرایا کہ کیا کوئی پاکستانی شخصیت بھی اس طرح کسی ہندوستانی چینل پر ایسے ہی ہم کلا م ہوئی؟ \"If I as Pakistani cannot address Indian people through an Indian channel then Ameetabh Bachan be damned. What business has he to talk to my nation.\'\' وہ دن اورآج کا دن ، پھر کسی امریکی سفیر نے مجھے امریکی بسکٹ پر مدعو نہیں کیا‘‘۔ پاک بھارت تعلقات سلجھانے کے لیے بعض لوگ اس قدر تعجیل میں کیوں ہوتے ہیں ؟ گویا ایک ادھڑا ہوا ملبوس ہے کہ فوراً سی دیا جائے؟ صدیوں کی نفرت ہے اور اس آگ کو بھڑکانے والے‘ جن کے اپنے تعصبات ہیں یا مفادات‘ مگر یہ حیران کن عجلت؟ اس سوال کا جواب کبھی نہ مل سکا۔ شاید کوئی ارزاں کرے۔