ڈاکٹر خورشیدؔ رضوی کے تازہ مجموعہ کلام\"دیریاب\"سے ایک انتخاب ۔ حمد تجھ سے جی لگتا ہے مرا، جانِ تنہائی ہے تُو میرے اندر کا جہاں ہے ، دل کی گہرائی ہے تُو یہ زمیں یہ سبزہ و گل، یہ فلک یہ مہر و ماہ اے مصوّر سب کی روحِ نقش آرائی ہے تُو تُو پرندوں کو فضا میں تھامتا ہے دم بدم بال و پر کا زور، ہمت کی توانائی ہے تُو جھومتی شاخیں، مہکتے گُل، چہکتے خوش نوا ساری رونق تیرے دم سے ، سب کی زیبائی ہے تُو تُو بصارت اور سماعت بخشتا ہے خاک کو پیکروں کے درمیاں وجہِ شناسائی ہے تُو کون ہے فرماں روائے بحر و بر تیرے سوا خاک کی وسعت ہے تُو، پانی کی پہنائی ہے تُو حکم سے تیرے ڈھلا کرتے ہیں گوہر زیرِ آب تیرگی کی روشنی، ظلمت کی بینائی ہے تُو تیرے دم سے چار سُو نقش و نگارِ نو بہ نو اور ان کے درمیاں احساسِ یکتائی ہے تُو نعت پھر رہِ نعت میں قدم رکھا پھر دمِ تیغ پر قلم رکھا شافعِؐ عاصیاں کی بات چلی سرِ عصیاں ادب سے خم رکھا صانعِ کُن کی غایتِ مقصود جس کی خاطر یہ کیف و کم رکھا باعثِ آفرینشِ افلاک خاک کو جس نے محترم رکھا مدحتِ شانِ مصطفیؐ کے لیے دل میں سوز اور مژہ میں نم رکھا ہاں اسی آخریں نوا کے لیے سازِ ہستی میں زیر و بم رکھا تُو نے اے چارہ سازِ امتّیاں دھیان سب کا بچشمِ نم رکھا دکھ کسی کا ہو، اپنے دل پہ لیا تُو نے ہم سے وہ ربطِ غم رکھا تیری ہستی نے فرقِ امّت پر تاجِ سرتاجیِٔ اُمم رکھا ہر زمانہ ترازمانہ ہے سب زمانوں کو یوں بہم رکھا کوششِ نعت نے مجھے خورشیدؔ خود سے شرمندہ دم بدم رکھا ماں کے لیے ایک نظم ماں جہاں بستی ہے ہر چیز وہیں اچھی ہے آسماں! تیرے ستاروں سے زمیں اچھی ہے ماں کے ہونے سے مری عمرِ رواں ساکن ہے سر پہ اک ابرِ خنک، سایہ کناں، ساکن ہے ماں کا ہونا عملِ خیر کے ہونے کی دلیل ریگِ ہستی میں دمکتے ہوئے سونے کی دلیل ماں کا دل نقطہِ پرکارِ نظامِ ہستی ماں کے ہاتھوں کے سبب گردشِ جامِ ہستی ماں جو تڑپے تو رگِ سنگ سے شبنم پھوٹے آگ میں پھول کھلیں ، خاک سے زمزم پھوٹے راستہ بند جو ہو، ماں کی دعائوں سے کھلے ماں کے اشکوں سے مرا نامۂ اعمال دھلے ماں ہے وہ چھائوں ، جہاں لُو بھی خنک ہو جائے بارِ ہستی مرے کاندھوں پہ سبک ہو جائے مجھ پہ یہ چھائوں سدا بار خدایا رکھنا سر برہنہ ہوں، مرے سر پہ یہ سایا رکھنا فرد‘ فرد غمِ ایّام سے تھک کر ترا دھیان آیا ہے کیا کڑی دھوپ ہے اور کتنا گھنا سایا ہے خورشیدؔ تم نے نصفِ نہارِ شباب پر جھپکی پلک تو برجِ کہولت میں آگئے عقل آئی تو جنوں کی وہ بصیرت نہ رہی اب مجھے ابر میں چہرے نہ دکھائی دیں گے دریچہ دل کا جو گھر میں خد اکے کھلتا تھا اسے فقیہ کے زورِ بیاں نے بند کیا جسم مٹی کا ہے اور جان خدا کی خورشیدؔ کیا زیاں خانۂ ہستی میں مرا کچھ بھی نہیں اے شبِ عمر ذرا چاپ ملائے رکھنا دل اک دروازہ کھلے اور سحر ہو جائے اور کچھ دیر نگہ میری طرف سے نہ ہٹا مجھے اس شعلۂ نمناک میں جل جانے دے وقت نے آخر تری صورت بھلائی کس طرح کیسے جابر حافظے نے مات کھائی کس طرح کب ہے یکتائی مناسب آدمی کے واسطے جتنا یکتا ہو گیا، اُتنا ہی تنہا ہو گیا مشرق کی طرف پلٹ کے آئو مغرب تو غروب ہو رہا ہے تپشِ عشق میں اے دل، بسر و چشم ٹھہر جیسی یہ دھوپ ہے ایسا کہیں سایا بھی نہیں ٭٭٭