مگر آدمی نے تو صبح سے کنارہ کیا اور ژولیدہ فکری کے لیے راتوں کو جاگنے لگا۔ راتوں کو وہ کیوں جاگنے لگا؟ دامن کوہسار! جنرل حمید گل یاد آئے۔ انہوں نے کہا تھا: پہاڑ کی ترائی ہمیشہ خوبصورت ہوتی ہے۔ فاروق گیلانی یاد آئے، جنہوں نے ایک کالونی تعمیر کی تو نئی بستی کو نیا نام دیا۔ غالب یاد آئے: زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی کیوں ترا راہ گزر یاد آیا کیسی اجلی زندگی گزار کر، ایک دن چپ چاپ، وہ اپنے اللہ کے پاس چلے گئے۔ آخری دنوں میں گویا غیب سے اشارہ مل گیا ہو‘ وہ اکثر کہا کرتے، حیدر آباد کا ریلوے اسٹیشن گزر گیا، کراچی آیا چاہتا ہے، سامان سنبھالنا چاہیے۔ داغ دہلوی یاد آئے: ہوش و حواس و تاب و تواں کھو چکے ہیں داغؔ اب ہم بھی جانے والے ہیں، سامان تو گیا عصرِ رواں کے غزل گو، ظفر اقبال یاد آئے: ع بادلوں کی بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا صبح آنکھ کھلی تو پھر سے سونے کی بہتیری کوشش کی مگر جسم نے انکار کر دیا اور کہا کہ نیند پوری ہوچکی۔ یاخدا! صبح سات بجے ہی؟ فیض احمد فیض یاد آئے: رات باقی تھی ابھی جب سرِ بالیں آ کر چاند نے مجھ سے کہا جاگ سحر آئی ہے جاگ اس شب جو مئے خواب ترا حصہ تھی جام کے لب سے تہہِ جام اتر آئی ہے عکسِ جاناں کو وداع کرکے اٹھی میری نظر شب کے ٹھہرے ہوئے پانی کی سیہ چادر پر جابجا رقص میں آنے لگے چاندی کے بھنور رات کے ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر ڈوبتے‘ تیرتے‘ مرجھاتے رہے‘ کھلتے رہے رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے بستر سے اٹھا‘ پردہ ہٹایا تو دل و دماغ پر وہ بیتی جو بادشاہی مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مارشل ٹیٹو پر گزری تھی۔ مختار مسعود نے لکھا ہے کہ انہیں عالمگیری مسجد تک لے جایا گیا تو وہ لاتعلق نظر آئے۔ لیکن پھر نگاہ اٹھا کر عمارت کو دیکھا تو اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ گنگ اور مبہوت، دیر تک وہ اس عبادت گاہ کو دیکھتے رہے، پونے تین سو برس پہلے جو اورنگزیب عالمگیر نے تعمیر کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ سرخ پتھروں کے انبار، حضرت میاں میر رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بنانے کو لائے گئے تھے لیکن پھر مغل فاتح نے مسجد کی تعمیر کا حکم صادر کیا۔ صوفی کا مزار بھی بن کر رہا اور بننا ہی تھا کہ : نام فقیر تنہاں دا باہو قبر جنہاں دی جیوے ہو لاہور کو مگر ایک ایسی عمارت نصیب ہوئی جو اس کا امتیازی نشان اور شناخت ہے۔ اکیلا شاہی قلعہ، کس قدر اداس، تنہا اور ناتمام لگتا۔ حضوری باغ، بادشاہی مسجد اور دریائے راوی کے بغیر لاہور کیسا ہوتا؟ تیس برس ہوتے ہیں، ایک کباڑی سے عالمگیری عہد کے کسی نادر مصور کی بنائی ہوئی پینٹنگ کی نقل خریدی تھی۔ نقل بمطابق اصل۔ وہ کیا ہوئی؟ فیض احمد فیض کے ہاتھ کا لکھا ہوا وہ مسودہ کیا ہوا: ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد پھر بنیں گے آشنا، کتنی ملاقاتوں کے بعد خالد چودھری نے میرے ہاتھ میں تھمایا تھا۔ بہت دن سنبھال کر رکھا، پھر معلوم نہیں کہاں کھو گیا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودی کا وہ خط کہاں گیا جو سعید اظہر صاحب سے میں نے ہتھیا لیا تھا۔ ایک چھوٹا سا مضمون ان کے جریدے میں لکھا تھا:سید صاحب! ازرہ کرم اپنی خود نوشت لکھیے‘ اپنے دل و دماغ کی سرگزشت۔ عبداللہ ملک مرحوم سے گزارش کی کہ وہ بھی اسی عنوان پر چند سطور لکھ دیں۔ انہوں نے کرم فرمایا: اگرچہ تحریر کے اختصار پر طالب علم حیران رہ گیا۔ سید صاحب نے خط میں لکھا: اگر واقعی میں نے کوئی کام کیا ہے تو اللہ کا کوئی بندہ اس پر لکھے گا۔ غالباً 1976ء کی بات ہے‘ ہر چند ان کی زندگی ہی میں ایک سے زیادہ کتابیں ان کے بارے میں لکھی جا چکی تھیں، مگر وہ اس پر خوش نہ تھے۔ ایک بار کہا: ’’میری زندگی ہی میں وہ میرے ٹائٹل چھاپنے لگے‘‘۔ کس بلا کے آدمی تھے۔ کیسے عظیم نثرنگار کہ اقبال نے تحسین کی نظر سے دیکھا اور امید وابستہ کی۔ کیسے شاندار منتظم، کتنے بڑے عالم، کس پائے کے سیاستدان، کس قدر ریاضت کیش۔ اس ریاضت کا ثمر کیا ہوا؟ پہلے مولانا فضل الرحمن اوراب عمران خان کے ساتھ، ایک صوبے میں شرکت اقتدار؟ پروفیسر احمد رفیق اختر سے میں نے ایک ’’مجدّد‘‘ کے بارے میں سوال کیا، پھر دوسرے کے بارے میں۔ بولے: نہروں کے بارے میں کیا پوچھتے ہو‘ اس دریا کے بارے میں سوال کرو جس سے وہ نکلی ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی، ایک بہت شائستہ آدمی تھے اور خدمت خلق کے میدان میں ان لوگوں کی خدمات بہت ہیں۔ ’’باقی؟‘‘… کہا، ’’باقی کچھ نہیں‘‘: ع بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا پھر ایک اور شاعر یاد آیا اور اس کا نام یاد نہ آسکا: سودائے عشق اور ہے‘ وحشت کچھ اور شے مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا کھڑکی کھولی تومارشل ٹیٹو کی طرح مسافر گنگ ہوگیا۔ سوات کی اس وادی کا خیرہ کن جمال۔ ایک اجلی سویر کا سناٹا اور سکوت۔ دامن کوہ میں بہتی دلوں میں گداز بوتی نرم ہوا، کہانی کہتی، یادوں کی چنگاریاں جگاتی ہوئی۔ شب عدنان عادل نے کہا کہ وہ جلد سونے کے عادی ہیں اور فوراً اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ٹیلی ویژن سے بہت چھیڑ چھاڑ کی مگر وہ گونگے کا گونگا۔ اچھا ہوا‘ سفر کی تکان نے سلا دیا وگرنہ شاید ہمیشہ یاد رہ جانے والی اس سویر کا سامنا کیسے ہوتا؟ بائیس برس ہوتے ہیں۔ اپنے محترم دوست گلبدین حکمت یار سے میں نے پوچھا: کیا آپ کبھی روئے ہیں؟ بے ساختہ بولے: ہاں! ایک شہر سے دوسرے شہر کو میں جاتا تھا‘ ظاہر شاہ کی ساری پولیس اور فوج میری تلاش میں۔ نمازِ عصر کے وقت ایک وادی میں رُکا‘ ندی پر وضو کیا‘ پھر نظر اٹھا کر چاروں طرف پھیلی ہوئی وادی کو دیکھا اور یہ سوچ کر میں رو پڑا… خدا کی دنیا کس قدر خوبصورت تھی مگر آدمی نے اسے کس قدر بدصورت بنا دیا۔ سوات پر بھی یہی بیتی ہے اور پہلی بار نہیں‘ بارہا… کچھ دن سے یہ خیال جی کو لگا ہے کہ یہ کہانی لکھنے کی کوشش کی جائے۔ محدود نہیں‘ وسیع تر تناظر میں‘ سچائی کے ساتھ۔ تو اب سوات سامنے ہے اور وہ عجیب و غریب آدمی جوش ملیح آبادی یاد آ رہا ہے: ہم اہلِ نظر کو ثبوت حق کے لیے رسول اگر نہ ہوتے تو صبح کافی تھی مگر آدمی نے تو صبح سے کنارہ کیا اور ژولیدہ فکری کے لیے راتوں کو جاگنے لگا۔ راتوں کو وہ کیوں جاگنے لگا؟