قرآن کریم پوچھتا ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو‘ جو کرتے نہیں؟ اپنی پارٹی کے باب میں اس سوال کا جواب عمران خان کے ذمے ہے۔
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے وہی مال ندارد
رات کا ایک بجا تھا۔ سمن آباد سے محمد زبیر اپنی رہائش گاہ اچھرہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ تحریک انصاف کے ناراض کارکنوں کا مختصر سا اجتماع تھا‘ جو پارٹی میں احتساب کا مطالبہ لے کر اٹھے ہیں۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ انہوں نے نیلے رنگ کی ایک سوزوکی گاڑی کو تعاقب کرتے پایا۔ دو عدد موٹر سائیکل بھی۔ اچانک آپڑنے والی افتاد میں اس نے علامہ اقبال ٹائون کی مون مارکیٹ کا رُخ کیا۔ ٹریفک کے اشارے سے ادھر‘ ایک موٹر سائیکل محمد زبیر کی گاڑی کے برابر آیا اور پستول دکھا کر رکنے کا اشارہ کیا۔ وہ آگے بڑھتا رہا۔ 15 کے علاوہ وہ اپنے ذاتی دوستوں سے رابطے کی کوشش کرتا رہا۔ پولیس نے سن کر نہ دیا‘ مگر دوست بالآخر گھروں سے نکلے اور وحدت روڈ پر جمع ہوئے۔ زبیر کو بھی انہوں نے وہیں چلے آنے کا مشورہ دیا۔ ناک کی سیدھ میں وہ چلتا رہا تو پیچھا کرنے والے پریشان ہو کر غائب ہو گئے۔ کچھ دیر میں گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اسی گاڑی اور انہی موٹر سائیکل سواروں نے اس کے گھر پہ فائرنگ کی ہے۔ پستول سے چھ عدد گولیاں چلائی گئیں۔ بیرونی دیوار پر جن کے نشان ثبت ہیں۔ کیا یہ کارنامہ علیم خان نے انجام دیا؟ یا کسی دوسرے نے؟
محمد زبیر TAC (Tranparency and Accountabilty Cell) کا سربراہ ہے۔ جو ملک بھر میں پارٹی کے بے چین کارکنوں کی زنجیر بنانے پر تلی ہے۔ لاس اینجلس سے پرعزم محبوب اسلم پاکستان پہنچے ہیں۔ تیرہ شہروں کا وہ دورہ کر چکے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار سیاسی پارٹی کے
اندر سے احتساب کی تحریک اٹھی ہے۔ تیور اس کے کڑے ہیں۔ مطالبہ ان کا یہ ہے کہ پارٹی کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کا جائزہ لیا جائے۔ جماعت کے بعض عہدیداروں‘ اعجاز چودھری‘ عامر کیانی‘ سردار اظہر طارق اور سب سے زیادہ سیف اللہ نیازی پر کروڑوں روپے کی بدعنوانی کا الزام ہے۔ ان کے مطالبے پر لاہور کی ایک آڈٹ فرم احسن اینڈ احسن حسابات جانچ رہی ہے‘ جس کا تقرر خود عمران خان نے کیا تھا۔ کمپنی کو شکایت ہے کہ ان سے تعاون نہیں کیا جا رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں‘ انہی کو معاملات سونپ دیئے گئے ہیں۔ بار بار خطوط وہ پارٹی کے مرکزی دفتر کو لکھ چکے لیکن ابھی تک جواب موصول نہیں ہوا۔
دو چار لاکھ نہیں‘ یہ تیس چالیس کروڑ روپے کا مسئلہ ہے‘ شاید اس سے کہیں زیادہ۔ الیکشن کی مہم کے دوران شہباز شریف نے سوال کیا تھا کہ تحریک انصاف کے پاس کیا قارون کا خزانہ ہے؟ ٹیلی ویژن چینل پہ اشتہارات کی بھرمار تھی۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ روپیہ بیرون ملک سے آ رہا تھا۔ تیس لاکھ ڈالر تو صرف امریکہ سے پہنچے؟ برطانیہ‘ فرانس‘ جرمنی‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور مشرقِ وسطیٰ سے اس کے علاوہ۔ کیا یہ سب روپیہ اسی طرح شفاف انداز میں صرف ہوا‘ جس طرح کہ شوکت خانم ہسپتال یا نمل یونیورسٹی میں؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ عام الیکشن سے پہلے‘ پارٹی انتخابات کے دوران ہی اعتراضات اٹھے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جن لوگوں پر سب سے زیادہ اعتراض تھا‘ کپتان نے پارٹی انہی کے سپرد کیے رکھی۔ ان میں سے ایک
صداقت عباسی ہے‘ جسے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا تو ناچیز نے عرض کیا تھا کہ وہ کونسلر کا الیکشن لڑنے کا اہل بھی نہیں۔ پراسرار طریقے سے‘ سیف اللہ نیازی کی سرپرستی میں وہ تحریک انصاف پوٹھوہار کا صدر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ ایک دن گوجرخان میں کھڑا‘ وہ لوگوں سے پوچھ رہا تھا: یہ پروفیسر احمد رفیق اختر کون صاحب ہیں؟ لوگ ان کا نام کیوں لیتے ہیں؟ یہ ہارون الرشید کون ہے؟ عمران خان اور تحریک انصاف سے اس کا کیا تعلق ہے؟ صداقت عباسی تو الگ‘ بعض دوسرے عہدیداروں کے بارے میں‘ آڈٹ فرم کا کہنا ہے کہ ان کا طرزِ زندگی‘ آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عمران خان کو بتایا گیا مگر ڈاکٹر آپریشن پر آمادہ نہیں۔ ایک کے بعد دوسری‘ دوسری کے بعد تیسری‘ کارکن حیرت انگیز کہانیاں سناتے ہیں۔ الزامات میں کتنی سچائی ہے اور کس قدر مبالغہ‘ یہ کہنا مشکل ہے۔ پریشان کن سوال ہے کہ تحقیق کیوں نہیں ہوتی۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کیوں نہیں کر دیا جاتا۔
معترض ارکان کہتے ہیں کہ خرابی کا آغاز پارٹی الیکشن سے ہوا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ووٹروں کی فہرست سیف اللہ نیازی کی جیب میں ہے۔ وہ اسے ذاتی ملکیت کی طرح استعمال کرتا ہے۔ پارٹی کے ایک معتبر لیڈر نے کہا: ووٹروں کے ناموں پر مشتمل ہزاروں پرچیاں اس نے خاموشی سے نذر آتش کردیں۔ خود عمران خان کے سیکرٹری نعیم الحق نے مجھے بتایا کہ جن فہرستوں پر اسلام آباد اور پوٹھوہار کے عہدیداروں کا انتخاب ہوا‘ وہ جعلی تھیں۔
11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے‘ دبائو بڑھا تو عمران خان نے تفتیشی آڈٹ (Forensic audit) کرانے کا فیصلہ کیا۔ کسی طرح مگر یہ تمام ہونے میں نہیں آتا۔ مبینہ طور پر سیکرٹری خزانہ سردار اظہر طارق کہتے ہیں کہ وہ آمدن کا حساب دینے کے لیے تیار ہیں مگر اخراجات کا نہیں۔ یہ پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے۔ سیف اللہ نیازی کے بارے میں کارکن یہ کہتے ہیں کہ کسی معلوم ذریعہ آمدن کے بغیر وہ شاہانہ زندگی کیونکر بسر کرتا ہے۔ اعجاز چودھری اور سیف اللہ نیازی کے بارے میں یہ سوالات صرف ناراض کارکن ہی نہیں‘ پارٹی کے ذمہ دار لیڈر بھی اٹھاتے ہیں۔ پختون خوا کے صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی کے بارے میں بھی شکوک و شبہات ہیں۔ ابھی ابھی پشاور میں ایک کہانی کسی نے مجھے سنائی ہے مگر لکھی نہیں جا سکتی۔ تحقیق درکار ہے اور فرصت میسر نہیں۔
پختون خوا کے ناراض کارکنوں کا اجلاس‘ ابھی کچھ دیر میں ناخوش لیڈر صمد مرسلین کے گھر پہ منعقد ہونے والا ہے‘ جنہیں ضمنی الیکشن میں ٹکٹ دینے سے انکار کردیا گیا‘ حالانکہ وہ اس شہر میں پارٹی کا معمار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کی بجائے ایک افغان مہاجر گل بادشاہ کو نوازا گیا۔ عمران خان بعد میں اس پر پچھتاتے رہے اور وزیراعلیٰ کو ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ گل بادشاہ کے بارے میں پشاور کے عام لوگ کوئی قابل رشک رائے نہیں رکھتے۔ خدا جانے حقیقت کیا ہے۔ طرح طرح کی باتیں زباں زدعام ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ قومی اسمبلی میں داخل ہو جاتا تو اپنے رسوخ سے ہزاروں افغانوں کو‘ پاکستان کا شہری بنا دیتا۔
داستان کے بعض حصے بہت سنسنی خیز ہیں اور فی الحال بیان نہیں کیے جا سکتے۔ ایک آدھ کہانی تو اس قدر خوفناک تھی کہ سماعت پر یقین نہ آیا۔ 9 فروری کو انہی ناراض کارکنوں کا ایک بڑا کنونشن ایوانِ اقبال لاہور میں منعقد ہونے والا ہے۔ بلوچستان‘ صوبہ سرحد کے دور دراز مقامات‘ حتیٰ کہ کراچی تک کے وفود اس میں شریک ہوں گے۔ رفتہ رفتہ‘ بتدریج‘ قطرہ قطرہ یہ ایک تحریک‘ ایک طوفان بنتا جا رہا ہے۔ چیخ چیخ کر نظامِ احتساب کا مطالبہ کرنے والا عمران خان‘ خود اپنی جماعت میں اس کا اہتمام کیوں نہیں کرتا؟ تحریک انصاف کا مستقبل معلق ہے اور انحصار کارکنوں پر ہے۔ کیا وہ اپنے لیڈر کا ساتھ دیں گے یا شکوک و شبہات کا شکار ہو کر لاتعلق ہو جائیں گے؟ فیصلے کا ایک وقت ہوتا ہے‘ بیت جائے تو وہ لوٹ کر نہیں آ سکتا۔ زمانہ کسی وارفتہ عاشق کی طرح نہیں ہوتا کہ پچھلے پائوں پلٹنے پر آمادہ رہے ؎
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس دم
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
کیا عمران خان کو ادراک نہیں کہ یہ دن بیت گئے تو روٹھے ہوئے کارکن دور نکل جائیں گے۔ نئی منزلوں اور نئی مسافتوں کی طرف۔ قرآن کریم پوچھتا ہے: تم وہ بات کیوں کہتے ہو‘ جو کرتے نہیں؟ اپنی پارٹی کے باب میں اس سوال کا جواب عمران خان کے ذمے ہے۔