تعصبات کے مارے ہوئے ۔ پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ کے کاسہ لیس ۔کیاخاک وہ بحث کریں گے ؟ کشکول بردار ، این جی اوز کے فرزند ۔
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے ، وہ نظر کیا
خیال تھا کہ یہ موضوع سمٹ جائے گا ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی مگر اب بھی موضوعِ بحث ہیں ۔ دلائل دیے جا چکے اور اکثریت نے اتفاق کر لیا کہ کارروائی کے لیے وہ موزوں وقت نہ تھا۔ اس کے باوجود کہ جنرل کے موقف کو مسترد کرنے والوں کے پاس شواہد برائے نام ہیں ، وہ مصر کیوں ہیں؟
تین برس ہوتے ہیں ، ایک سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والی شعلہ بیان دانش ور نے فتویٰ دیا کہ جنرل امریکی ایجنٹ ہے ۔ ایک ایک کر کے سب دلائل کا جواب دیا جا چکا تو ارشاد فرمایا: وہ مجھے بریفنگ میں کیوں نہیں بلاتے ؟ ہاں، یہ واقعی ایک زبردست ثبوت تھا ۔
جنرل کی بریفنگ کے لیے جب بھی مدعوئین کو دیکھا ، احساس ہوا کہ یہ تقریب ناتمام ہے ۔ بعض موزوں لوگ مدعو نہیں ۔ پھر یہ خیال آیا کہ کتنی ہی احتیاط کی جائے، اعتراض باقی رہے گا۔ ایک بار کچھ زیادہ لوگ بلائے گئے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزر چکا تو ایک کالم نگار اور ایک ٹی وی میزبان بے چین ہونے لگے ۔
جنرل کی یادداشت غیر معمولی ہے ۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ دو گھنٹے کا لیکچر دینے کے لیے وہ دس منٹ کے اندر ذہن میں نوٹس بنالیتے ہیں ۔ آخری مہینوں میں پیہم میں ان سے کہتا رہا کہ وہ اپنی خودنوشت لکھیں ۔مغربی ممالک کا دورہ کریں اور لیکچر دیں ۔ پاکستان کا مقدمہ انہیں لڑنا چاہیے ۔ ایسا لگتاہے کہ اپنی عزتِ نفس اور ذمہ داریوں کے باب میں آخری درجے کی احتیاط کرنے والا آدمی تھک چکا ہے ۔ وہ ایک تنہا آدمی ہیں ۔ ان کی ساری معرکہ آرائی ان کے باطن میں ہوتی ہے ۔ یہ جنگ اپنے ہی دل میں تمام ہوتی رہی ؎
اے جذبۂ دل تیری جزا ہے ،نہ سزا ہے
احساسِ غمِ دل ہی غمِ دل کا صلہ ہے
ایک بے حد صابر اور مرتّب آدمی ۔ ہوش کی آنکھ کھولی تو زمانہ ایک بھیڑیے کی طرح اس پہ پل پڑا۔ اس نے مگر طرح دے دی اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں جت گیا۔ اس میں آدمی کو پناہ مل جاتی ہے اور بھدّی کشمکش سے رہائی ۔ قائد اعظمؒ کی اہلیہ محترمہ رتّی جناح کو ان سے شکایت تھی کہ ہمہ وقت وہ خود کو مصروف رکھتے ہیں ۔ کبھی وہ میز کے مقابل آکر بیٹھ جاتیں اور انہیں متوجہ کرنے کی کوشش کرتیں ۔ اس وقت اگر وہ مقدمات کی فائلیں پڑھ رہے ہوتے تو نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھتے ۔ سوانح نگار نے لکھا ہے : وہ ان سے محبت کرتے تھے اور ان کے باب میں ہمیشہ صبر وتحمل سے کام لیتے ۔
اشفاق پرویز کیانی ایک جوان آدمی تھے کہ والد کی موت کا صدمہ سہناپڑا۔ سرما کی ایک سرد اور سیاہ رات میں ان دنوں کا ذکر کرتے ہوئے، ایک بار شدّتِ جذبات سے ان کی آواز کانپ اٹھی۔ اپنے بھائیوں کا ذکر کیا، کاروبار کو جنہوں نے شعار کیاکہ آسودگی کے آرزومند تھے۔ جنرل نے اپنی زندگی کمال سادگی میں بسر کی۔ ان کے گھر ایک سالن پکا کرتا۔اپنے سب سے چھوٹے بھائی کامران کو بالخصوص یاد کیا۔ کہا: اسے میں نے اولاد کی طرح پالا ہے ۔ پھر دہرایا: ہاں اولاد کی طرح ۔بتایا کہ جب وہ فوج کے سربراہ بنے، تو بھائیوں کو مدعو کیا اور یہ کہا "Now I belong to Pakistan army"
کالم نگار اور ٹی وی میزبان اس لیے بے چین ہوئے کہ گپ شپ کی امید میں وہ آئے تھے ۔ یہاں ٹھوس گفتگو تھی ،یہاں وہ آدمی تھا، جو وقت رائیگاں کرنے کا قائل ہی نہیں ۔ ان لوگوں کو زیادہ پسند نہیں کرتا جو تادیر توجہ مرکوز نہ رکھ سکتے ہوں ۔ تب ان سے درخواست کی گئی کہ وہ بریفنگ میں ذرا سا وقفہ کر دیں ۔ بعد میں ان دونوں کو بریفنگ میں شرکت کی آرزو کرتے نہ دیکھا گیا۔
ایک دوست نے سختی اور بے رحمی سے جنرل پر تنقید کی ہے ۔ اسے صدمہ پہنچا ہے کہ سبکدوشی کے ہنگام ان کی ستائش کیوں ہوئی۔ کیا اس شخص کی تعریف نہ کرنی چاہئے ، جو ایک طے شدہ منصوبے کے تحت فوج کو سیاست سے دور لے جاتا گیا۔ اپنے رفقا کو بار بار جس نے بتایا کہ مارشل لا کے نفا ذ سے اتنے مسائل حل نہیں ہوتے ، جتنے کہ پیدا ہو جاتے ہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے لیے دلائل کی بھرمار تھی ۔ جنرل مگر مائل نہ ہوا، ذرا بھی نہیں ۔ ایک بار فقط رنج سے اتنا کہا ''اس صبر کا فائدہ کیا؟‘‘یعنی اصولوں کو سختی سے تھام رکھنے کی کوشش ہے ۔ ا س کے باوجود عیب جوئی کا سلسلہ ہے۔ عرض کیا : تنقید کا تعلق آدمی کے کردار سے نہیں ، اس کی اہمیت سے ہوتاہے وگرنہ پیغمبران ِ عظامؑ پر یلغار نہ ہوا کرتی ۔صبر کرنا چاہیے کہ قرآنِ کریم صابروں کے حق میں ایک فریق بن جاتا ہے۔جب یہ جملہ کہا تو اطمینان کا ایک خوشگوار رنگ ان کے چہرے پہ اتر آیا۔
جنرل کیانی فرشتہ نہیں ۔ آدمی کو مگر اس کے مجموعی کردار میں دیکھا جا تاہے ۔ احساسِ فرض سے مغلوب ،مزدور کی طرح مشقّت کرنے والے ، ماتحتوں پر شفیق ، ساتھیوں پہ مہربان ، وہ ایک استاد کی شخصیت رکھتے ہیں ۔ امریکی انہیں پسند نہ کرتے تھے ۔ دو بار نیٹو کی سپلائی انہوں نے روک دی اور دوسری بار سات ماہ کے لیے ۔ کیسے وہ ان سے خوش ہو سکتے کہ اقتصادی اور اسلحی انحصار کے باوجود جنرل نے ان کی مزاحمت کی ۔ مائیکل ملن اسی لیے بگڑے تھے ۔ ہالبروک کے ساتھ ایک بارانہوں نے ملاقات سے انکار کر دیا تھا۔ ہلیری کلنٹن کو کمال حکمتِ سے نمٹایا ۔دیر تک وہ بولتی رہتیں ۔تو وہ بات کا آغاز کرتے۔ جنرل پیٹر سن کا مزاج جارحانہ تھا۔ وہ گویا پل پڑتے مگر ان کا علاج بھی آخر کار جنرل نے دریافت کر لیا۔ ''خطبہ ‘‘دے کر پیٹرسن فارغ ہوتے تو کیانی یہ کہتے "Sir, I don't agree with you"
مذہبی پارٹیاں ہی نہیں ، نون لیگ اور تحریکِ انصاف بھی آپریشن کی مخالف تھیں ۔ عوام کے ایک بڑے حصے کو انہوں نے قائل کرلیا تھا کہ یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی ۔ پیپلز پارٹی کی لاتعلق حکومت ذمہ داری اٹھانے سے گریزاں تھی۔ ایسے میں میڈیا سے تعاون کی کس کتنی امید کی جا سکتی ؟ باخبرجانتے تھے کہ شمالی وزیرستان فساد کی جڑ ہے مگر ایک بڑی تصویر دیکھتے ہوئے، جنرل نے آپریشن کو ملتوی رکھا۔ یہی تجزیہ درست ہے ۔ فرض کیجیے ، ان کی رائے غلط تھی تو بھی اس میں بدنیتی کہاں سے آگئی ؟ جنرل اطہر عباس کا غصہ ذاتی ہے اور اسباب معلوم ۔ بعض سے میں نے بات کی، اس زمانے کے فارمیشن کمانڈر بالآخر جنرل کیانی سے متفق تھے ۔ بحث بے وقت ہے اور لاحاصل۔ جنرل کی مخالفت کرنے والوں پہ نظر ڈالو ۔ وہی پاکستانی فوج کے روایتی مخالفین ، خارجی پراپیگنڈے کا اثر قبول کرنے والے ۔
عسکری قیادت سے پہاڑ سی غلطیاں ہوئی ہیں ۔ پاکستانی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ یکے بعد دیگرے نافذ رہنے والے مارشل لائوں کی بدولت پر اعتماد اور کارگر سیاسی قیادت نصیب نہ ہو سکی ۔ ہمیشہ کے لیے اب یہ باب بند ہو جانا چاہیے تاکہ جمہوریت جڑ پکڑے اور ثمر بار ہو ۔ دنیا کے کسی ملک میں دفاعی پالیسیوں پر ایسی بے رحمانہ بحث نہیں ہوتی ۔عسکری قیادت پر گاہے تنقید ہو سکتی ہے مگر بھارت اورامریکہ نہیں ، پاکستانی عوام کے نقطۂ نظر سے ۔
تعصبات کے مارے ہوئے ۔ پہلے سوویت یونین اور اب امریکہ کے کاسہ لیس ۔کیاخاک وہ بحث کریں گے ؟ کشکول بردار ، این جی اوز کے فرزند ؎
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے ، وہ نظر کیا