نہیں جناب ہرگز یہ سلطانیِ ٔ جمہور نہیں ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری؟
بلدیاتی الیکشن کرانے پر حکومت کیوں آمادہ نہیں؟ چیف الیکشن کمشنر مقرر کرنے پر کیوں آمادہ نہیں؟ سپریم کورٹ کی ہدایات اور احکامات برحق مگر جب سرکارِ والا تبار کا جی آمادہ ہی نہ ہو؟
ایک سابق وزیر اعلیٰ یاد آئے۔ اتفاقاً ان سے ملاقات ہوئی تو وہ مضطرب سے دکھائی دیے۔ شادی کے تیسرے دن ہی دولہا اگر آزردہ ہو تو آدمی کیوں نہ چونک اٹھے۔ گزارش کی‘ نصیبِ دشمناں طبیعت ناساز تو نہیں۔ فرمایا: سخت پریشانی لاحق ہے کہ بلدیاتی اداروں کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا۔ پریشانی کیوں؟ اختیار بانٹنے کو جی نہیں چاہتا۔ برادرم نصرت جاوید کو ایک زمانے میں حجاج بن یوسف پر کسی کتاب کی تلاش تھی۔ عرض کیا: میں بھی ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔ یہ بھی عرض کیا کہ ہر گلی میں ایک حجاج رہتا ہے‘ فقط یہ کہ زندگی اسے مواقع ارزاں نہیں کرتی۔ یہ امیرالمومنین سیدنا عثمان غنیؓ کا قول ہے یا سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کا کہ منصب یا حصول زر سے آدمی بدلتا نہیں‘ بے نقاب ہوتا ہے۔ عسکری قیادت نے میاں صاحب کا انتخاب اس مفروضے پر کیا تھا کہ پنجابی محاورے کے مطابق ''کہن کار‘‘ ہیں۔ پھر وہ آزردہ پائے گئے‘ ایسے آزردہ کہ دکھی اور شکست خوردہ۔
اقتدار کی اپنی نفسیات ہوتی ہے‘ وہ کم از کم ہاتھوں میں مرتکز ہونا چاہتا ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ حکمرانوں سے اختیار نیچے منتقل کرنا سہل نہیں۔ تاریخ کا سبق یہ بھی ہے کہ اس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ آج بھی ہم شخصیات کی پوجا کرتے اور بھول جاتے ہیں کہ طاقت بدعنوان بناتی ہے اور مکمل طاقت مکمل طور پر بدعنوان۔ قائد اعظم ایسے لوگ استثنیٰ ہیں‘ رضاکارانہ طور پر جو خود کو آئین اور اقدار کی حدود میں رکھتے ہیں۔ اکثر گل کھلاتے ہیں اور غالبؔ کے محبوب کی مانند کہ
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی
سیاست کا کوئی بھی طالب علم جانتا ہے کہ معاشرے کی بہبود اور ترقی کے لیے نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی لازم ہے۔ آئین کی پاسداری اور وہ آزادی جو ڈسپلن کے سانچے میں ڈھلی ہو۔ ملوکیت کے مارے معاشرے کو یہ بات مگر کون بتائے۔ حکمرانوں کو کون سکھائے؟ ترقی یافتہ اور منضبط معاشروں میں بلدیات شہری حکومتیں کہلاتی ہیں۔ مقدونیہ اور یونان ہی نہیں‘ بعض اعتبار سے مدینہ منورہ بھی ایک شہری حکومت تھی؛ اگرچہ پھیل گئی اور اس قدر پھیلی کہ تاریخ میں کوئی دوسری نظیر نہ ہو گی۔ گورنر مگر بااختیار تھے اور ان سے زیادہ عدالتیں۔ حکمران کی مجال کیا تھی کہ عدالتی امور میں مداخلت کرے۔ گورنر اپنے حقوق و اختیار پہ اصرار کیا کرتے اور کبھی کبھی تو اس قدر کہ پڑھو تو حیرت ہوتی ہے‘ سوچو تو حیرت۔ ادھر ہمارے گورنر پنجاب ہیں‘ سرور چودھری کہ بے اختیاری کا رونا رویا کرتے ہیں۔ فقط نام کے چودھری‘ مگر یہ ایک دوسری کہانی ہے۔
الیکشن کمشنر کے تقرر میں وزیر اعظم تو تامل کا شکار ہیں ہی‘ قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف خورشید شاہ کیوں ہیں؟ اس لیے کہ وہ قائد حزبِ اختلاف ہی نہیں۔ عمران خان تو انہیں وزیر اعظم کا پرسنل سیکرٹری کہتے ہیں۔ پرسنل سیکرٹری نہ سہی مگر حلیف ضرور ہیں۔ من ترا ملا بگوئم تو مرا حاجی بگو۔ جمہوریت کے دونوں خدمت گزار ہیں۔ رہے عوام وہ تو جائیں جہنم میں۔ بھوک سے مریں یا مہنگائی سے‘ سیلاب یا زلزلے سے‘ بجلی یا گیس کے قحط سے۔ ہسپتال اور تعلیمی ادارے اگر اجڑے پڑے ہیں تو اجڑے رہیں‘ ان کی بلا سے‘ جمہوریت پھلتی پھولتی رہے۔ عوام کا کیا ہے‘ ہمیشہ سے وہ روتے آئے ہیں۔ دلاسا انہیں دیا جا سکتا ہے‘ تقاریر میں دلجوئی ان کی ہو سکتی ہے مگر اقتدار میں شرکت؟ یہ کیسے ممکن ہے۔ لاہور والوں کا محاورہ یہ ہے: بندے‘ بندے میں فرق ہوتا ہے۔ ایک عامی بلاول بھٹو یا حمزہ شہباز کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ محترمہ نصرت بھٹو نے ایک بار کہا تھا: "Bhuttos are born to rule" بھٹو خاندان کے بچے حکمرانی کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ بھٹو ہی نہیں‘ باچاخان‘ مفتی محمود‘ عبدالصمد اچکزئی‘ میاں محمد شریف مرحوم‘ بزنجو خاندان کے فرزندانِ گرامی بھی۔
موازنہ اور مقابلہ اگر فوج سے ہو تو گیت جمہوریت کا گایا جائے گا۔ گایا ہی جانا چاہیے‘ واقعی جنرلوں کو کیا حق ہے کہ اقتدار پہ قبضہ کریں لیکن جب بلدیاتی ادارے تشکیل دینے کا سوال ہو تو؟ کونسلر اکثر ''بدتمیز‘‘ سے ہوتے ہیں۔ وہ عامیوں میں رہتے اور کچھ نہ کچھ ان کے رنگ میں رنگے جاتے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ بلدیاتی ادارے اگر واقعی بااختیار ہوں تو ان میں نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال ایسے لیڈر جنم لیتے ہیں۔ جماعت اسلامی تو کسی نہ کسی طرح نعمت اللہ خان کو گوارا کر گزری مگر مصطفی کمال؟ 90 پر جناب الطاف حسین کا قول رقم ہے: طاقت کا حصول مشکل نہیں مگر سنبھالنا مشکل۔ کیا ان سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ مصطفی کمال کہاں ہیں؟
فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنایا گیا‘ تو اس ناچیز نے استفسار کی جسارت کی کہ اس سے پہلے کب کوئی کارنامہ انہوں نے انجام دیا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا استعفی داغنے کے سوا ان کی فرد عمل میں ہے کیا؟ یہ بھی کہ ایک جج ہی کو انتظامی نوعیت کا یہ منصب سونپنا لازم کیوں ہے۔ جج کی کائنات تو گھر کے علاوہ دو کمروں تک محدود ہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میں حسنِ انتظام کا سلیقہ پروان چڑھنے کا امکان کتنا اور کس قدر ہوتا ہے؟ تب یہ معلوم نہ تھا کہ وہ اختیار ہی نہیں رکھتے۔ یہ بھی اندازہ نہ تھا کہ نگران وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کی طرح‘ شعوری طور پر ایسے لوگ جمع کیے گئے‘ جو اختیار استعمال کرنے کی ہمت نہ رکھتے ہوں یا شاہی خاندانوں کی خوشنودی کا خیال رکھتے ہوئے بروئے کار آئیں۔
مردانِ کار کمیاب سہی۔ مسئلہ مگر یہ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ موجود لوگوں میں سے بہترین کا انتخاب کر لیا جاتا ہے۔ آدمی فرشتے تو ہوتے نہیں مگر دیانت دار ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔ پیچیدگی پیدا کرنے والا عنصر یہ ہے کہ اس عہدے کی نوعیت دستوری ہے۔ چیف جسٹس کی طرح وزیر اعظم اس کا تقرر تو کر سکتا ہے مگر اس کی بقا کا انحصار ان کی خواہش و خوشنودی کا محتاج نہیں ہوتا۔ جسٹس افتخار چودھری بگڑے تو چیف آف آرمی سٹاف نے ان کا کیا بگاڑ لیا تھا۔ بگاڑا تو عالی جناب نے خود ہی۔ ''مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نہیں مردا‘‘۔
آج تو خیر صورت حال بہت مختلف ہے۔ بجا طور پر ایک زمانے میں یہ کہا جاتا تھا کہ صحافت کی آزادی‘ بنیادی طور پر مالکان کی آزادی ہے‘ کارکنوں کی نہیں۔ پاکستانی جمہوریت بھی یہی ہے۔ اختیار لیڈر کے پاس ہے‘ حکمران کے ہاتھ میں۔ عمران خان اپنی کور کمیٹی سے پوچھے بغیر‘ علامہ طاہرالقادری سے ملاقات اور معاہدہ کر سکتے ہیں۔ نواز شریف جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں۔
نہیں جناب ہرگز یہ سلطانیِ ٔ جمہور نہیں ؎
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری؟