اس قوم پر خدا رحم کرے ، کن لوگوں کے رحم و کرم پر اس نے خود کوچھوڑ دیا ہے ۔ یہ تو خود اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل بھی نہیں ۔ جو نہیں جانتے کہ زندگی صرف انصاف کے سائبان تلے مامون رہتی ہے ۔
وہ بہت نیک نام اور دانا آدمی نہ تھا مگر سفید بالوںوالے اس شخص نے ایک نکتہ آشکار کیا۔ کبھی اس کی یادآتی ہے تو دانائی کا وہ کلمہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے ۔ ایک زیادتی کا ارتکاب اس نے کیا تھا اور ایک کمزور ساعت میں اسے میں نے جالیا۔ تب اس نے یہ کہا: جس چیز کے تم مرتکب ہو ، وہ اذیت پہنچا کر تسکین حاصل کرنے کا عمل (Sadist Pleasure)ہے ۔یعنی ممکن ہے تم جیت ہی جائو اور مجھے چت ہی کر دو مگر اس پر بھی توغور کرو کہ کس اندازِ فکر پہ تم چل نکلے ہو۔
ملک بھر میں برپا ہنگامے کے بارے میں آدمی سوچتاہے تو حیران رہ جاتاہے کہ کیا ہمارے لیڈرانِ کرام قوم کی کشتی کو ساحل سے ہمکنار کرنے کے آرزومند ہیں یا ایک بھنور سے دوسرے بھنور کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک ظفر مند بھی ہو جائے ، مثلاً کپتان غازی بن کر ابھر آئے تو کیا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کیا ہم اس سیاسی استحکام کو پالیں گے ، جو آسودگی کی بنیاد بن سکے ؟
ہندوستان کی وسیع و عریض سرزمین میں ، جو آج کے بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان پر مشتمل ہے ، انگریزوں کی تعدا دکبھی پچاس ہزار سے زیادہ نہ رہی ہوگی ۔ اس کے باوجود طویل عرصے تک ، اس کامیابی کے ساتھ وہ برّصغیر پہ حکومت کیسے کر پائے ؟ ایسا امن کہ شیر شاہ سوری اور علائو الدین خلجی کے سوا شاید ہی کسی دور میں اس
خطۂ ارض کو نصیب ہو اہو۔ غیر ملکی تھے ، وہ غاصب تھے مگر اس کے باوجود ان کے اقتدار کو کیوں تسلیم کر لیا گیا ؟ راس کماری سے چٹا گانگ تک ان کا فرمان ایک زمانے تک مستند کیوں رہا؟
ملکوں اور معاشروں کو ایک نظامِ کار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ کسی ایک فرد، خاندان یا گروہ کی ترجیحات پر نہیں چل سکتا ۔ قرآنِ کریم کی ایک آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی اکثر آدمی سے شاکی رہے گا۔ باہم متصادم وہ جیے گا۔ یہ اس کی آزمائشوں میں سے ایک آزمائش ہے ۔ زمین کی زندگی کچھ دیر کا ٹھکانا ہے ۔ ابتلا سے کامل نجات اس میں آدمی کبھی نہ پائے گا۔
پھر سورہ رحمن کی وہ منوّر آیات ذہن کے افق پر طلوع ہوئیں۔ الشمس و القمر بحسبان۔ والنجم و الشجر یسجدان۔ والسما ء رفعھا ووضع المیزان۔ الا تطغوا فی المیزان۔ و اقیمو الوزن بالقسط ولا تخسرو المیزان... سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں ۔ اور ستارے اور درخت سجدہ کرتے ہیں ۔ اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی ۔ خبردار ترازو میں بے اعتدالی نہ کرو۔ اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹائو۔
عصرِ رواں اور تاریخ سے مثالیں بیان کرتے ہوئے ، لکھنے والے تھک گئے مگر ایک بات لیڈروں اور ان کے حواریوں کی سمجھ میں آتی ہی نہیں ۔ ایک قابلِ اعتماد نظامِ عدل کے بغیر ، چھوٹے بڑے سب جھگڑے چکانے کی جو ضمانت دے سکے ، معاشرہ قرار
نہیں پا سکتا۔ کتنی بار، کتنی بار رسولِ مقبولؐ کا وہ قول بیان کیا جا چکا: پچھلی قومیں اس لیے برباد ہوئیں کہ اپنے کمزوروں کو وہ سزادیتیں اور اپنے طاقتوروں کو معاف کر دیا کرتیں۔
پولیس، ایک ایسی پولیس، حکمرانوں کی جو باندی نہ ہو ۔ عدالت، ایک ایسی عدالت جو کسی دبائو کا شکار نہ ہو اور بر وقت انصاف مہیا کر سکے ۔ انٹیلی جنس جو درست معلومات ہمہ وقت مہیا کر سکے ۔ ایسی سول سروس ، قانون کے دائرے میں روزمرّہ امور جو ڈھنگ سے نمٹاتی رہے ۔ ٹیکس وصول کرنے والے ، جو زیادہ وصول کریں اور نہ کم کہ کاروبارِ حکومت اسی کے بل پر قائم رہتا ہے۔
ایک وفاقی وزیر سے کل شب ایک ٹی وی میزبان نے پوچھا کہ تحریکِ انصاف کے جو مطالبات آپ نے مان لیے تھے، آپ انہیں نافذ کیوں نہیں کر دیتے ؟ فرمایا : سیاست ایک آرٹ ہے ۔ ہم آمادہ تھے لیکن وہ وقت انہوں نے کھو دیا۔ اب یہ تماشا سمیٹ کر ہمارے دروازے پر آئیں ۔ سبحان اللہ ، گویا یہ دو لشکروں کی جنگ ہے کہ کون ان میں سے کامران ہو تا ہے ۔ رہا ملک تو وہ حالا ت کے حوالے ۔ رہے عوام تو وہ جائیں بھاڑ میں ۔
پرسوں اور کل عمران خان دھاڑتے رہے کہ حکومت کا وہ تیا پانچہ کر دیں گے ۔ وزیرِ اعظم ا ور ان کے نائبین ،مظاہرین اور ان کے لیڈر کا تمسخر اڑاتے رہے کہ حکومت کو لاحق خطرات ان کے خیال میں کم ہو چکے ۔ ایک وزیر صاحب تو کپتان کی چپّل میں جا گھسے اور اس کے کلپ کی قیمت کا تعین کرتے رہے ۔ لاحول ولاقوّۃ الا باللہ۔
نہیں ، ان میں سے کوئی بھی یہ جنگ جیت نہیں سکتا۔ وسط مدّتی الیکشن پر اتفاق ہو یا اس سے پہلے دھاندلی کے لیے ایک موزوں فورم تشکیل دینے پر ، مذاکرات اور مفاہمت کے سوا بالآخر ان کے لیے کوئی چارۂ کار نہ ہو گا۔ حکمران جماعت نے پورا ایک برس ضائع کر دیا‘ تحریکِ انصاف جب فقط چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ عمران خاں نے وہ سنہری لمحہ کھو دیا ، جب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے وزیرِ اعظم کی طرف سے سہولت کار کا کردار ادا کرنے پر انہیں مدعو کیا تھا اور علّامہ طاہر القادری کو ۔ جیسے کہ کپتان نے بتایا، سپہ سالار نے ان سے کہاتھا کہ اگر وزیرِ اعظم کو الگ کرنے کے مطالبے سے وہ دستبردار ہو جائیں تو شفاف تحقیقات کی وہ ضمانت دیتے ہیں۔ علّامہ صاحب کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے استعفے کا وعدہ بھی انہوں نے کیاتھا۔ اس کے سوا اور انہیں کیا چاہیے تھا؟ وہ آدمی ، جس کی شرافت پر بھروسہ کیا جا سکتاہے ،ذاتی طور پر نہیں، ظاہر ہے کہ اپنے ادارے کی طرف سے وعدہ کر رہا تھا۔ عمران خاں نے کنٹینر پہ کھڑے ہو کر کہا کہ آرمی چیف کو وہ صاف بتا آئے ہیں کہ استعفے کے مطالبے سے ہرگز دستبردار نہ ہوں گے۔ اپوزیشن لیڈر نے دانائی کا مظاہرہ کرنے سے انکار کر دیا اور شجاعت کاپرچم اٹھائے رکھا۔
آدمی کو خطا و نسیان سے بنایا گیا ہے مگر جب وہ ہیجان کا شکار ہو جائے۔ غلبے کی جبلّت جب اس کے قلب و دماغ پر مسلّط ہو جائے۔ پہلا انسان اور پہلی غلطی۔ سیّدنا آدم علیہ السلام کو شجر سے منع کیا گیاتھامگر انہوں نے تجاوز کیا۔ تب وہ عظیم ترین نعمت آدمی کو عطا کی گئی ۔ توبہ کا دائم چوپٹ کھلا ہوا دروازہ ۔ پھر وہ دعا انہیں تعلیم کی گئی۔ ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفر لنا و ترحمنا لنکو نن من الخٰسرین۔ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پہ رحم نہ کیا تو یقینا ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو ں گے ۔ وہ معاف کر دیے گئے۔ انہیں نبوت بخشی گئی اور وہ ابو الانبیاہیں۔
کس طرح زندگی سرخرو اور سرسبز ہوتی ہے ؟ دوسروں کی نہیں ، اپنی خطائوں کا ادراک کرنے سے ۔ دعوے اور دھمکیوں سے نہیں بلکہ پیہم تدبّر اور غور و فکر کے ساتھ ۔ زندگی کے گھنے جنگل میں توفیقِ الٰہی کے ساتھ راستہ تلاش کرنے کی لگن سے ۔ افسوس کہ ایسے لیڈر ہمیں عطا کیے گئے ، اپنے پیروکاروں سے اندھی تقلید کا جو مطالبہ کرتے ہیں ۔ حال اگرچہ ان کا یہ ہے کہ اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی معاملات بھی ڈھنگ سے وہ نمٹا نہیں سکتے ۔
اس قوم پر خدا رحم کرے ، کن لوگوں کے رحم و کرم پر اس نے خود کوچھوڑ دیا ہے ۔ یہ تو خود اپنے آپ کو سنبھالنے کے قابل بھی نہیں ۔ جو نہیں جانتے کہ زندگی صرف انصاف کے سائبان تلے مامون رہتی ہے۔