عمر بھر منٹو اپنے معاشرے سے برسرِ جنگ رہے مگر اپنے آپ سے ہار گئے۔ وہ فحش نگار کہلائے مگر موت کے بعد ایک بہادر جنگجو۔ منٹو ایک عظیم افسانہ نگار تھے‘ مگر کوئی مردِ مجاہد نہیں۔ وہ بلھے شاہ نہیں تھے۔ ہمیشہ سے ان کی روح محبت مگر عدل کے ساتھ کیے جانے والے ایک تجزیے کی راہ تک رہی ہے۔ یہ ان کے بھانجے حامد جلال کی تحریر ہے۔ تفصیل پھر کبھی۔
''وہ کافی شام گزرنے کے بعد گھر واپس آئے۔ تھوڑی دیر بعد انہیں خون کی قے ہوئی۔ میرے چھ سالہ بچّے نے، جو ان کے قریب ہی کھڑا تھا، خون کی دھاریوں کی طرف انہیں متوجہ کیا‘ تو ماموں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ کچھ نہیں۔ یہ تو پان کی پیک ہے۔ انہوں نے یہ تاکید بھی کر دی کہ وہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرے۔ اس کے بعد انہوں نے حسبِ معمول کھانا کھایا اور سو گئے۔ گھر بھر میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ کوئی بات خلافِ معمول ہوئی ہے کیونکہ میرے لڑکے نے منٹو ماموں کا راز کسی پر ظاہر نہیں کیا۔ ممکن ہے خود منٹو ماموں کو بھی اس کے متعلق کوئی تشویش نہ ہوئی ہو۔ یوں بھی وہ گھر والوں کو ایسے معاملات سے بے خبر رکھنا ہی پسند کرتے تھے کیونکہ ہر طرف سے شراب ترک کر نے کا مطالبہ شروع ہو جاتا تھا۔
رات کا پچھلا پہر تھاکہ انہوں نے اپنی بیوی کو اٹھا کر بتایا کہ وہ شدید درد محسوس کر رہے ہیں اور اب تک بہت سا خون ضائع ہو چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا جگر پھٹ گیا ہے۔ ان کی بیوی نے جب یہ دیکھا کہ وہ اس صورتِ حال کا تنِ تنہا مقابلہ نہیں کر سکتیں تو انہوں نے گھر کے دوسرے لوگوں کو جگایا اور انہیں موت کے منہ سے نکالنے کی جدوجہد شروع ہو گئی۔ اس سے پہلے کئی شدید علالتوں کے بعد وہ شفایاب ہو چکے تھے۔ اس لیے کسی کو یہ خیال تک نہیں ہو سکتا تھا کہ اب وہ صرف چند گھنٹوں کے مہمان ہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ انہیں آئوٹ دینے کے لیے امپائر کی انگلی اسی وقت سے فضا میں بلند ہونا شروع ہو گئی تھی، جب منٹو ماموں کو خون کی پہلی قے آئی تھی۔
منٹو ماموں کے آخری لمحات کے متعلق میں نے جو سنا ہے، اس سے میں یہی اندازہ لگا سکا ہوں کہ کافی دیر تک انہیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ ان کا وقت اب آ گیا ہے۔ ڈاکٹر کے انجیکشن وغیرہ لگانے کے گھنٹہ ڈیڑھ بعد تک وہ مایوس نہیں ہوئے تھے لیکن اس علاج کے بعد بھی ان کی حالت خلافِ معمول نہیں سنبھلی۔ ان کی نبض برابر ڈوبتی گئی اور درد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ خون کی قے بھی بند نہیں ہوئی۔ صبح کو ڈاکٹر نے تجویز پیش کی کہ منٹو ماموں کو ہسپتال پہنچا دیا جائے۔
اس وقت منٹو ماموں کے ہوش و حواس بالکل بجا تھے اور ہسپتال کا نام سنتے ہی وہ بول اٹھے ''اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ مجھے ہسپتال نہ لے جائو اور یہیں سکون سے پڑا رہنے دو‘‘۔
گھر کی عورتوں کے لیے یہ منظر ناقابلِ برداشت تھا۔ انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر منٹو ماموں فوراً مشتعل ہو گئے اور انہوں نے غضبناک آواز میں کہا ''خبردار جو کوئی رویا‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا منہ رضائی سے بند کر لیا۔
منٹو کا یہ اصلی روپ تھا۔ جس شخص کی زندگی کا کوئی گوشہ آج تک دنیاکی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہا تھا، وہ کس طرح برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اسے مرتا ہوا دیکھیں۔ منٹو ماموں مجسم غیظ و غضب بنے ہوئے تھے۔ معلوم نہیں، وہ اپنے آپ سے ناراض تھے یا شراب سے... جو ان کی قبل از وقت موت کی ذمہ دار تھی۔
ایمبولینس آنے سے پہلے صرف ایک یا دو بار انہوں نے اپنے منہ سے رضائی ہٹائی۔ انہوں نے کہا ''مجھے بڑی سردی لگ رہی ہے۔ اتنی سردی شاید قبر میں بھی نہیں لگے گی۔ میرے اوپر رضائیاں ڈال دو‘‘ کچھ دیر توقف کے بعد ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمودار ہوئی۔ انہوں نے آہستہ سے کہا ''میرے کوٹ کی جیب میں ساڑھے تین روپے پڑے ہیں۔ ان میں کچھ اور پیسے ملا کر تھوڑی سی وہسکی منگا دو...‘‘
شراب کے لیے ان کا اصرار جاری رہا اور ان کی تسلی کے لیے ایک پوا منگا لیاگیا۔ انہوں نے بوتل کو بڑی عجیب اور آسودہ نگاہوں سے دیکھا اور کہنے لگے ''میرے لیے دو پیگ بنا دو‘‘ اور یہ کہتے ہوئے درد اور شدید تشنجی دورے کے باعث وہ کانپ سے اٹھے۔
منٹو ماموں کی آنکھوں میں اس وقت بھی اپنے لیے رحم کا کوئی شائبہ موجود نہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کا وقت آپہنچا ہے لیکن ایک بار بھی اور ایک لمحے کے لیے بھی انہوں نے اپنے اوپر جذباتیت نہیں طاری ہونے دی۔ انہوں نے اپنے بچّوں یا کسی اور کو اپنے پاس نہیں بلایا۔ وہ نگاہِ واپسیں یا وصیت کے کبھی قائل نہیں تھے۔ ان جیسی شخصیتوں کے لیے زندگی اور موت کے درمیان حد فاصل بہت ہی مبہم اور غیر واضح ہوتی ہے اور یہی ہونا چاہیے کیونکہ ان کی زندگی اور روح تو پہلے ہی ان کے جسم سے ان کی کتابوں میں منتقل کی جا چکی ہوتی ہے... وہاں پہنچ کر انہیں غیر فانی ہونے کا یقین ہو جاتا ہے۔ وہاں وہ ابد تک زندہ رہتے ہیں۔ ہنستے بولتے رہتے ہیں۔ محبت کرتے رہتے ہیں۔
بسترِ مرگ پر منٹو نے شراب کے سوا کوئی اور چیز نہیں مانگی۔ انہیں پہلے معلوم ہو چکا تھا کہ شراب ان کی جانی دشمن ہے اور وہ اسے موت کا ہم معنی سمجھنے لگے تھے، جس پر جسمانی فتح کسی صورت بھی ممکن نہیں ہے۔ جس طرح مو ت کے آگے کوئی انسان کچھ نہیں کر سکتا، اسی طرح منٹو ماموں شراب کے سامنے بالکل بے بس ہوتے تھے لیکن ان کی فطرت چونکہ ہمیشہ سے باغیانہ تھی، اس لیے انہوں نے موت سے بھی بغاوت کی تھی۔ انہیں شکست سے بھی سخت نفرت تھی۔ خواہ وہ موت کے ہاتھوں ہی کیوں نہ ہو اور یہی وجہ تھی کہ موت سے تنہائی میں آنکھیں چار کرنا چاہتے تھے‘ جہاں کوئی انہیں مرتا نہ دیکھ سکے‘ جہاں کوئی ان کی شکست کا نظارہ نہ کر سکے۔
ان سے کم درجے کا آدمی شاید ایک ڈرامائی موت کا اہتمام کرتا تاکہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کا چرچا کریں۔ اس پر مضامین لکھے جائیں اور اس کے اعزّا و احباب کہہ سکیں کہ اس کی زندگی ضرور ایسی تھی، جسے ہم ناپسند کرتے تھے لیکن مرنے سے پہلے وہ منفعل ہو گیا تھا اور اچھا آدمی بن گیا تھا لیکن منٹو ماموں ریاکار نہیں تھے۔ انہوں نے اس خواہش کا سختی سے مقابلہ کیا۔ ان کی موت کے وقت صرف ایک پہلو ڈرامائی تھا یعنی شراب طلب کرنے کا منظر لیکن اس کا فائدہ بھی مرکزی کردار کو پہنچ سکتا تھا کیونکہ اس کا صحیح مفہوم صرف وہی سمجھ سکتا تھا۔
میں اس وقت موجود ہوتا تو مجھے یقین ہے کہ اپنے ذہن کو ایک حد تک میرے سامنے بے نقاب کر دیتے اور یہ کچھ مشکل بھی نہیں تھا کیونکہ انہیں صرف اتنا کہنے کی ضرورت تھی: سانپ اور انسان کی کہانی نہ بھولنا۔ میں اپنے سر کو اثبات میں جنبش دیتا اور شراب کا آخری جام انہیں پینے کو دے دیتا۔ صرف یہی ایک جملہ ہر بات واضح کر دینے کے لیے کافی ہوتا۔ سانپ اور انسان کی کہانی صرف اتنی تھی کہ ایک آدمی نے اپنے دوستوں کے منع کرنے کے باوجود ایک زہریلا سانپ پال رکھا تھا اور ایک دن سانپ نے اپنا سارا زہر اس کے جسم میں اتار دیا تو اس نے بھی سانپ کو پکڑ کر اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا۔
ایمبولینس جیسے ہی دروازے پر آکر کھڑی ہوئی، انہوں نے شراب کا پھر مطالبہ کیا۔ ایک چمچہ وہسکی ان کے منہ میں ڈال دی گئی لیکن شاید ایک قطرہ مشکل سے ان کے حلق سے نیچے اتر سکا ہوگا۔ باقی شراب ان کے منہ سے گر گئی اور ان پر غشی طاری ہو گئی۔ زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اپنے ہوش و حواس کھوئے تھے۔ انہیں اسی حالت میں ایمبولینس میں لٹا دیا گیا۔
ایمبولینس ہسپتال پہنچی اور ڈاکٹر انہیں دیکھنے کے لیے اندر گئے تو منٹو ماموں مر چکے تھے۔ دوبارہ ہوش میں آئے بغیر راستے میں ان کا انتقال ہو چکا تھا۔‘‘
عمر بھر منٹو اپنے معاشرے سے برسرِ جنگ رہے مگر اپنے آپ سے ہار گئے۔