سالِ گزشتہ ایک اخبار نویس نے وہ شعر یاد دلایا تھا‘ جو نواب زادہ نصراللہ خان پڑھا کرتے۔ وقت ہے کہ بدلتا ہی نہیں۔ ہر چند ماہ کے بعد اب وہ ورد زباں ہوتاہے ؎
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی
کئی دن سے کوئی اچھی خبر نہ سنی تھی۔ دعوے اور وعدے‘ اعلانات اور اس سے بھی بدتر مذمتی بیانات‘ جن میں سے بعض وہ لوگ خود نہیں لکھتے جن سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ لودھراں میں عمران خان کے جلسۂ عام کے بعد دیاگیا‘ حمزہ شہبازشریف کا بیان شاید انہی میں سے ایک تھا۔ ''شیر کی گگلی سے چھکے مارنے والوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔‘‘ حضور! شیر گگلی نہیں مارتے۔
اترسوں خان صاحب کچھ زیادہ مضطرب تھے۔ ایک ضروری بات پوچھنے کو فون کیا۔ ایک آدھ جملے میں جواب دیا۔ پھر کہا‘ پشاور کے شوکت خانم ہسپتال کے بارے میں تمہیں لکھنا چاہیے۔ ایسے کچھ کام واقعی اس نے کیے ہیں‘ سیاستدان عام طور پر جو نہیں کیا کرتے۔ پشاور کا ہسپتال لاہور سے بڑا ہے۔ خود لاہور کے ہسپتال میں ساڑھے تین ارب سالانہ کا خسارہ ہے‘ جو عطیات سے پورا کیا جاتا ہے ۔ پشاور کے لیے ابھی اسّی کروڑ درکار ہیں۔ وہ پرامید تھا۔
کچھ اور موضوعات مثلاً مشرقی پاکستان کی طرح ‘ شوکت خانم پشاور کا کالم ایک قرض ہے‘ لیکن پھر نمل یونیورسٹی کا واقعہ پیش آیا۔ اس بے چینی میں‘ جس کا مسلسل وہ شکار ہے‘ نمل یونیورسٹی سے متصل آبادی کے مکینوں کو اس نے دھمکی دی کہ اگر وہ مزید زمین عطیہ نہیں کرتے یا بازار کے نرخ پر پیش نہیں کرتے تو تحریک انصاف کی حکومت بننے پر‘ حکماًلے لی جائے گی۔ متعلقہ سلّو برادری کے ترجمان نے معقولیت کا مظاہرہ کیا اور یہ کہا: اتنی ہی زمین خرید کر دے دی جائے تو وہ مطالبہ مان لیں گے۔ فوراً ہی اسے جواب دینا چاہیے تھا۔ الیکٹرانک میڈیا نے وہ سہولت ارزاں کی ہے‘ چند برس پہلے تک جس کا تصور تک محال تھا۔ عوام کے لیڈر کو زیبا نہیں کہ انہیں دھمکی دے۔ غلطی ہو جائے تو معذرت کرنی چاہیے‘ جس طرح پشاور کے اخبار نویس سے کی تھی۔
تحریک انصاف اور نون لیگ کے تعلقات میں اس قدر تلخی نہ ہوتی تو شاید نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ آغازِ کار ہی سے یہ ناچیز ذہنی طور پہ نمل کالج کے منصوبے سے وابستہ رہا۔ دھوپ میں جلتے پہاڑ۔ سامنے بچھی جھیل کو دیکھ کر خیال آتا کہ شاید قدرت نے زمین کا یہ قطعہ لاکھوں برس سے ایک شاہکار کے لیے بچا رکھا تھا۔ ہر آئیڈیا کا ایک وقت ہوتا ہے۔ آ پہنچے تو دنیا کی ساری افواج مل کر بھی اسے روک نہیں سکتیں۔ عالم وگرنہ یہ تھا کہ جھیل کنارے کے سوا‘ دور دور تک پینے کا پانی میسر نہ تھا‘ جہاں صدیوں سے ایک گائوں آباد ہے۔ میانوالی کے نیازی ناراض تھے کہ کالج کے لیے اعوانوں کے اس علاقے کا انتخاب کیوں کیا؟
زمین وہیں میسر تھی۔ محل وقوع بھی موزوں ترین تھا۔ حال یہ کہ تعمیراتی کمپنی چند ماہ بعد بھاگ گئی۔ موسم کی شدت ہی نہیں‘ شبوں کی خاموشی میں کوہساروں کی ہیبت بھی حریف تھی۔ مزدوروں نے انکار کردیا تھا۔
کچھ دن وہ بھی پریشان نظر آیا۔پوچھا: عطیات کی مہم کیوں نہیں چلاتے۔ اس کا جواب یہ تھا: ہر عمارت کی تعمیر تک امتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ذاتی دوستوں اور خاندان کے سوا کوئی مدد نہیں کرتا۔ حفیظ اللہ خان نے کسی نہ کسی طرح ایک ٹھیکیدار ڈھونڈ نکالا۔ نہ صرف اس نے معرکہ سر کیا بلکہ نرخ بھی کم کر دیئے۔ نقشہ بنانے والے ماہر تعمیرات کی طرح اس نے یہ کام کاروبار نہیں ایثار کے طورپر کیا۔
افتتاحی تقریب برپا ہوئی تو عطیات کی بھرمار ہوگئی۔ ماجد خان نے تیس برس کی اپنی ناراضی بالائے طاق رکھی۔ کئی لاکھ روپے چندہ دیا اورسارا وقت موجود رہے۔ تقریباً تمام رشتہ دار اور ان میں سے ہر ایک آمادۂ ایثار۔ظاہر ہے کہ دوست بھی۔ کراچی سے پشاور تک کے اہلِ دل۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تشریف لائے اور ہوسٹل کے لیے دو کروڑ روپے کا اعلان کیا۔ یہ الگ بات کہ سارا وقت اپنے اجداد کی مدح کرتے رہے ‘ جنہوں نے ایک کالج کبھی ملتان میں تعمیر کیا تھا۔ بعد میں کئی بار وہاں سے گزر ہوا‘ آخری بار دو برس پہلے۔ ہوسٹل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ممکن ہے کہ گیلانی صاحب اپنا وعدہ بخوشی بھول گئے ہوں‘ اس کے بعد تین برس تک وہ وزیراعظم تو رہے تھے۔ ممکن ہے کہ زرداری صاحب نے اجازت مرحمت نہ کی ہو۔ چوہدری پرویزالٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے۔ کسی طرح وہ تعاون پر آمادہ نہ ہوئے بلکہ ایک کالج پڑوس میں جاری کیا کہ عنایتِ شاہانہ کے جلال کی نمائش کریں۔
ایک صاحب سے میں نے کہا: معلوم کرو‘ زمین کا نرخ کیا ہے۔ شاید کچھ تھوڑی سی خرید سکیں۔ چند ایکڑ کے سوا ساری کی ساری شور زمین‘ جس پر گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا۔ اس نے فون کیا: ایک لاکھ روپے فی کنال۔ دوسروں سے پوچھا تو ان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ تین ہزار روپے۔ خان اس خیال پر خوش نہ تھا۔ اس کا احساس غالباً یہ تھا کہ اخبار نویس نے اپنے نام پر خریدی تو مسئلہ پیدا ہوگا۔ خیر‘ میں نے‘ اسی روز اس تصور کو دفنا دیا‘ کمزور ارادہ!
شہرہ آفاق ناول ''ماں‘‘ میں میکسم گورکی نے دہقانوں کی روداد رقم کی ہے‘ مدد کرنے کی کوشش کی جائے تو ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں بگڑ کرجو زچ کر دیتے ہیں۔ خوشاب میں ایسے ایک تماشے کا میں شاہد تھا۔ ان کے لیے تازہ پانی کا کنواں کھودنے والوں کو بار باراذیت کا سامنا ہوا۔ بعدازاں ہارون خواجہ کو اسی مشکل میں پایا‘ انہوںنے سیلاب زدگان کے لیے ایک گائوں تعمیر کیا۔ میرپور کے ہندو ان سے بہتر ثابت ہوئے‘ جب ایسا ہی ایک دوسرا تجربہ کیا گیا۔ سب سے اچھے شاید تھر کے مکین ہیں۔ موسموں کے رحم و کرم پر دو ہزار برس سے الگ تھلگ زندگیاں وہ جی رہے ہیں۔ ہارون خواجہ نے کچھ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ ان میں سے اکثر معمول کی صحت مند غذا کے قابل ہی نہیں۔ ایک چھوٹا سا علاقہ خواجہ نے منتخب کیا کہ پہلے مکینوں کا علاج کیا جائے۔ پھر سب ایثار کرنے والوں سے اس نے یہ کہا: صرف تین فصلیں ہیں جو ملک میں اگانی چاہئیں۔ آلو اور انگور کے علاوہ زیتون کے باغات۔ متوقع آمدن کا اندازہ ایک سے تین لاکھ روپے ماہوار ہوتا ہے۔
لودھراں کے جلسۂ عام میں عمران نے یہ کہا: بھارت میں کپاس کی فصل تین گنا ہونے لگی۔ بجلی برائے نام قیمت پر دستیاب ہے اور بھارتی حکومت نے بہت بہتر بیج کسانوں کو فراہم کیا۔ ٹھیک کہا: 1947ء سے قبل‘ مغربی پنجاب میں کسی بھی فصل کی پیداوار مشرقی پنجاب سے زیادہ تھی۔ ربع صدی میں صورت حال بدل گئی۔ معاملہ یکسر الٹ ہوگیا۔ پاکستان کا کسان اور زمیندار ذہنی طور پر پسماندہ ہے ہی۔ حکومت کا حال اور بھی زیادہ پتلا ہے۔ گزشتہ دو تین عشروں میں زرداری خاندان اور شریف خاندان نے ہزاروں ایکڑ زمین خرید لی ہے۔ ان کے کھیتوں میں سبزہ عجب شان سے لہلہاتا ہے‘ ہوا ان کے لیے سہانے گیت گاتی ہے۔ کسان کا عالم مگر وہی ہے ؎
دہقاں ہے کسی قبر کا اگلا ہوا مردہ
بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے
علائوالدین خلجی نے سرکاری طور پر گندم خریدنے کا فیصلہ کیا تو برصغیر کی زراعت نے ایک بڑی زقند لگائی تھی۔ شیر شاہ سوری کو فرصت نہ مل سکی۔ بندوبست اراضی کا آغاز ہی کرسکا۔ مکمل نہ ہوا کہ اجل نے آلیا۔ اسی ٹوڈرمل کی قیادت میں سوری نے جسے ذمہ داری سونپی تھی‘ شہنشاہ اکبر نے اپنے عہد میں اس عظیم منصوبے کو مکمل کیا۔ انگریزوں نے اسی نظام کو قائم رکھا۔ اصل کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بند بنائے اور اس خطے میں‘ جس کا بڑا حصہ اب پاکستان ہے‘ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام تشکیل دیا۔ پٹواری سے نجات کا وقت برسوں پہلے آ پہنچاتھا مگر سرکار ہے کہ وعدوں کے سوا اس کے دامن میں کچھ نہیں۔ ہر چند ماہ بعد شہبازشریف اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ اسے ڈیجیٹل کر رہے ہیں۔ پٹواری اب پہلے سے بھی زیادہ خوں آشام ہے۔ 500 روپے کی بجائے اب وہ5000 مانگتا ہے۔
کسان کے لہو پر بننے والے خود کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں‘ شوگر مافیا! سندھ کی 17 شوگر ملوں میں سے غالباً سات زرداری صاحب کی مِلک ہیں۔ ڈاکٹر عاصم انہی کا کارندہ ہے‘ ضمانت کی پختہ امید پر‘ جس نے اخبار نویسوں کے سامنے وہ گیت گایا ؎
ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ
جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے
سالِ گزشتہ ایک اخبار نویس نے وہ شعر یاد دلایا تھا‘ جو نواب زادہ نصراللہ خان پڑھا کرتے۔ وقت ہے کہ بدلتا ہی نہیں۔ ہر چند ماہ کے بعد اب وہ ورد زباں ہوتاہے ؎
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغِ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی