ڈاکٹر صاحب کی یاد میں آنکھ آج اشکبار ہے اور ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے جینئس کیا ہوتا ہے؟ ریاضت اور فقط ریاضت۔ اپنی قسمت کو رونے اور حالات کا ماتم کرنے کی بجائے پیہم امید اورپیہم جدوجہد۔
یہ ایک مسکراتے ہوئے آدمی کا چہرہ ہے۔ انسانی یادوں میں ابدالآباد تک ایسا ہی رہے گا۔اور انشاء اللہ روزِ حشر بھی۔ ایک ایسا شخص جس نے زندگی کا سفر خالی ہاتھ شروع کیا تھا۔ دنیا سے اٹھا تو غنی تھا اور ان گنت گردنوں پر اس کے احسانات کا بوجھ تھا!
ڈاکٹر محمد رفیق کل شام اس دنیا سے چلے گئے۔ مگر کہاں چلے گئے۔ ماضی کبھی ختم نہیں ہوتا، درحققت وہ ماضی ہوتا ہی نہیں ۔ تمام وقت اس کائنات میں ایک ساتھ برپا رہتے ہیں۔ہزاروں برس سے سائنس دان اصرار کرتے آئے تھے کہ وقت ، ابدی اور لامتناہی ہے، Infinite۔ اب وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وقت بھی ایک تخلیق ہے۔
وقت کا خالق کون ہے؟ ظاہر ہے کہ وہی جو آسمانوں پر کہکشائیں اور زمینوں پر آلوچے کے شگوفے کھلاتاہے۔ جو مائوں کو ممتا اور بچوں کو دل موہ لینے والی مسکان عطا کرتا ہے۔ آدم زاد کی بدبختی یہ ہے کہ اپنے مالک کو وہ نہیں پہچانتا۔ زندگی کے سب سے اہم سوال پر وہ غور نہیں کرتا ۔خیرہ کن تنوع کی اس کائنات میں، لا محدود امکانات کے ساتھ وہ بسر کرتا ہے۔ حقیر ترجیحات اس کے لیے ادنیٰ اور بالا رہتی ہیں؛ آخر کار وہ چلا جاتا ہے، خالی ہاتھ!
اپنے مالک کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک
اور اگر پہچانے تو اس کے گدا داراوجم
اہل فکر کو، صوفیا اور علماء کو ہجوم سے گریز ہوتا ہے۔ ہجوم سے بیزارودہ نہیں ہوتے۔ سبھی کی طرح وہ بھی خلق ہی سے آزمائے جاتے ہیں۔ ہاں مگر، اس میں اپنی تنہائی کی حفاظت وہ کر سکتے ہیں۔ ؎
انجمن میں بھی میسّر رہی خلوت اس کو
شمعِ محفل کی طرح سب سے جدا‘ سب کا رفیق
ڈاکٹر محمد رفیق درویش نہیں تھے، مگران چند لوگوں میں سے ایک تھے جو خلوت میں خود پر نگران رہتے اور جلوت میں اپنی تنہائی کی حفاظت کر سکتے ہیں۔ سیدھے سادے، صاف ستھرے اور اجلے آدمی۔ ان کاکارنامہ مگر اور ہے۔ ایسا کہ اس پر تعجب کیا جائے گا؛ حالانکہ ہم میں سے ہر ایک اسے انجام دینے کا اہل ہے مگر جیسا کہ
لیونارڈوڈونچی نے کہا تھا:''In every block of marble I see a Statue, as plain as though it stood before me, shaped and perfect in attitiude and action. I have only to hew away the rough walls that impresion the Lovely apparitition to reveal it to the other eyes mine see it.
''سنگ مرمر کے ہر ٹکڑے میں، ایک مجسمہ مجھے دکھائی دیتا ہے، اس طرح کہ گویا میرے سامنے کھڑا ہے۔ ترشا ہوا اور مکمل۔مجھے تو فقط ان دیواروں کو ہٹانا ہوتا ہے، جن کی قید میں وہ ہوتا ہے تا کہ سب دوسروں کی آنکھیں وہ دیکھ سکیں، جو میں نے دیکھ لیا تھا‘‘۔
لیونارڈوڈونچی کون تھا۔ تیرہ چودہ سو الفاظ کے ایک کالم میں نہیں، ایک پوری کتاب میں بھی مکمل تعارف اس کا ممکن نہیں۔ عہد ساز مصوّر‘ بت تراش، ماہر تعمیرات، موسیقار، ریاضی دان، انجینئر، موجد، اور نثرنگار۔اس کے سوا بھی بہت کچھ۔
سرزمین روم ہی میں پیدا ہونے والے مائیکلواینجلو، ایک طرح سے لیونارڈوڈونچی کے ہم عصرتھے۔ ڈونچی کے تیرہ برس بعد وہ پیدا ہوئے اور اس کے مقابلے میںقدرے طویل زندگی پائی۔ مائیکل اینجلونے یہ کہا تھا: ہم میں سے اکثر کا المیہ یہ نہیں کہ ہمارا مقصد بہت بلند تھا اور ہم اسے حاصل نہ کر پائے بلکہ یہ کہ ہماری منزل پست ہی بہت تھی اور ہم نے اسے پا لیا‘‘۔
لیونارڈوڈونچی نے، جسے انسانی تاریخ کا سب سے زیادہ میدانوں میں ہنر آزمانے والا جینئس قرار دیا جاتا ہے، یہ بھی کہا تھا‘ ''آدمی سب سے زیادہ خود اپنے ہی غلط تصورات کا شکار ہوتا ہے‘‘۔
انسانی ذہن کے امکانات کی کوئی حد نہیں۔ گزشتہ ایک عشرے کے دوران دنیا کی بعض ممتاز یونیورسٹیوں نے ایک نئے تجربے کا آغاز کیا۔ ایم بی بی ایس کرنے والے کسی طالب علم نے انجینئرنگ پڑھنے کا ارادہ کیا تو اس کے لیے ایک کورس ڈیزائن کیا گیا۔ سڈنی میں انشورنس میں خصوصی مہارت رکھنے والے ایک ممتاز وکیل نے انجینئرنگ میں داخلے کی درخواست کی تو اس سے پوچھا گیا کہ اس پر یہ آرزو کیوں سوار ہے۔؟ اس کا جواب یہ تھا: تیل ‘پٹرول اور ڈیزل لینے والے بعض بحری جہازوں کے ساتھ مقدمات درپیش ہوتے ہیں۔ عدالتوں کو اس کے لیے انجینئرز کی شہادت درکار ہوتی ہے۔ مگر وہ اپنا مقدمہ ڈھنگ سے پیش نہیں کر سکتے۔ یونیورسٹی نے اس ادھیڑ عمر قانون دان کے لیے ایک کورس تشکیل دیا۔ کامیابی کے ساتھ یہ معرکہ سر کرنے کے بعد اب وہ ایک سے تین ملین ڈالر وصول کرتا ہے۔ اہمیت اس بات کی نہیں کہ اس کی آمدنی بہت بڑھ گئی بلکہ ایک اور نکتے کی۔ آشکار یہ ہوا کہ نئے علوم میں جو لوگ طبع آزمائی کرتے ہیں، ان میں دماغ کے نیے خلیے بروئے کار آتے ہیں۔
ساٹھ برس پہلے چک نمبر 13 جنوبی سرگودھا کے محمد رفیق نے عملی زندگی کا آغاز کیا تو ان کے ہاتھ میں صرف میٹرک کی ایک ڈگری تھی۔ سرگودھا سے ریل میں سوار ہو کر وہ رحیم یار خان پہنچے اور ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کے شاگرد ہو گئے۔ وہ ان کے دور کے رشتہ دار تھے ڈاکٹر نذیر مسلم، ہمیشہ ہر آدمی کی سرپرستی پر آمادہ رہتے جو تگ و تازپر آمادہ ہو اور ڈسپلن کی پابندی کر سکتا ہو۔ اپنی 84 سالہ زندگی میں ڈاکٹر صاحب نے سینکڑوں شاگردوں کی تربیت کی۔ ان میں سے اکثر نے اپنے نام کے ساتھ ''مسلم‘‘ کے لاحقے کا اضافہ کر لیا۔ ایک بار ان کے صاحبزادے محمد طاہر مسلم نے کہا: ''ایک وقت آئے گا کہ رحیم یار خان میں کوئی ایک ڈاکٹر بھی غیر مسلم نہ رہے گا‘‘ ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کو جو لوگ جانتے ہیں، وہی اس جملے کی داد دے سکتے ہیں۔ ایک بہت ہی لائق معالج ہونے کے باوجود اپنا بیشتر وقت انہوں نے قرآن مجید کی تعلیم پہ صرف کیا۔ جہاں کہیں کسی فطین اور فصیح آدمی کو دیکھا، اسے ترغیب دی کہ صبح سویرے یا سہ پہر کے وقت ان سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا کرے۔ان کی دیانت اور صداقت شعاری ضرب المثل تھی۔ چند سال قبل وہ اپنے پروردگار کے پاس چلے گئے اور اب ان کا سب سے لائق شاگرد بھی۔
ایک ہومیوپیتھک معالج کی محدودات ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیق نے نگران محدودات کو زیرو زبر کر ڈالا۔پیہم وہ مطالعہ کرتے رہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ غوروفکر کرتے۔ وہ قدیم دور کے ان اطبّاکی طرح تھے‘ اپنے مریضوں کے ساتھ جو پدرانہ شفقت سے پیش آتے اور انہیں انپی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔رفتہ رفتہ ان کی شہرت چاردانگ عالم میں پھیل گئی۔
نو برس ہوتے ہیں، جدّہ میں جناب محمد عاشق سے میں ملنے گیا۔ متوکل آدمی فرش خاک پہ پڑا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا کرے۔ جہاز میں سوار کر کے انہیں پاکستان بھیجا گیا ۔ آج وہ بھلے چنگے ہیں۔ انہی دنوں جدہ میں میاں شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ بھی اسی عارضے میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹر رفیق کا نمبر انہیں دیا۔ معلوم نہیں انہوں نے زحمت کی یا نہیں۔ ایک کالم میں ان کا ذکر کیا تو ملک بھر سے ٹیلی فون موصول ہونے لگے۔ کراچی، سے پشاور تک ہر مریض کا فون وہ سنتے۔ بعض اوقات ایکسرے اور دوسری رپورٹس منگواتے اور دوا تجویز کرتے۔ بلا معاوضہ! پھر مسکراتے ہوئے وہ کہتے ہارون الرشید کے توسّط سے بہت لوگ فون کرتے ہیں، خود اپنی اسے کم ہی فکر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر محمد نذیر مسلم کی وراثت یہ تھی کہ مریضوں سے کم از کم معاوضہ لیا جائے۔ ساٹھ کے عشرے میں دوا سمیت یہ 75 پیسے تھا، افراطِ زر کے ساتھ بڑھتا گیا۔ تقریباً افراط زر ہی کی شرح سے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا معالجہ فیس کے بغیر اور ہمیشہ ہمیشہ مسلسل مطالعے اور غور و فکر سے ایسی مہارت ڈاکٹر رفیق نے پیدا کر لی تھی کہ اکثر ان کا تیر نشانے پر بیٹھا۔1983ء میں میرا معدہ اس طرح بگڑا کہ ڈاکٹروں نے تقریباً جواب دے دیا۔ ایک دوا انہوں نے تجویز کی۔ اللہ کا شکر ہے کہ آج تک بھلا چنگا ہوں۔ سنگین امراض میں مبتلا مریضوں نے‘ہزاروں نہیں، شاید لاکھوں نے ان سے فیض پایا۔ مسکراتے ہوئے، غور و فکر میں مگن معالج سے ۔
ڈاکٹر صاحب کی یاد میں آنکھ آج اشکبار ہے اور ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے جینئس کیا ہوتا ہے؟ ریاضت اور فقط ریاضت۔ اپنی قسمت کو رونے اور حالات کا ماتم کرنے کی بجائے پیہم امید اورپیہم جدوجہد۔