جو لیڈر موزوں مشیروں‘ساتھیوں اور حلیفوں کا انتخاب نہیں کر سکتا‘ کامرانی اس کے نصیب میں نہیں ہوتی خواہ وہ ٹیپو ایسا عظیم المرتبت ہی کیوں نہ ہو‘ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ تاریخ سے مگر کم ہی لوگ سبق سیکھتے ہیں۔
عمران خان سے ملاقات ہو تو ایک سوال‘ ان سے یہ ناچیز پوچھنا چاہتا ہے۔ عالی جناب کو یہ مشورہ کس نے دیا تھا کہ پانامہ لیکس پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کا تعاون حاصل کریں۔ یہ سامنے کی بات تھی کہ بیچ چوراہے میں وہ اسے چھوڑ جائے گی۔ پھر جب وہ چھوڑ گئی۔ ایک کے بعد دوسرے بہانے سے‘ تو اس قدر برہمی کی ضرورت کیا تھی؟۔
سبکدوشی کے بعد‘ صدر غلام اسحٰق خان سے‘ پشاور والے گھر میں ملاقات ہوئی ۔ ان کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے‘ طالب علم نے ان کی غلطیاں گنوائیں‘ جن کی وجہ سے‘ قبل ازوقت منصب صدارت سے انہیں الگ ہونا پڑا‘ طعنے اس کے سواملے۔ وہ ایک مختصر کلام آدمی تھے اور فقط موضوع پر بات کرنا پسند کرتے۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ عوامی جذبات کو انہوں نے ملحوظ نہ رکھا۔ میاں محمد نوازشریف سے ناراض ہوئے تو آصف علی زرداری ایسے شخص کو وزارت سونپ دی۔ کوثر نیازی مدظلہ العالی ان کے مشیر ہو گئے‘ حتیٰ کہ وزیراعظم کو برطرف کرنے کے لیے جو تقریر لکھی گئی‘ وہ ان کے قلم کا شاہکار تھی۔ خان صاحب کا مزاج خود ستائی کا نہ تھا‘ مگر اس میں فیض احمد فیضؔ کا وہ مشہور شعر انہوں نے پڑھا۔
اس عشق نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے‘ اس دل میں بجز داغِ ندامت
یہ کوثر نیازی کا کارنامہ تھا۔اپنی غلطیوں کا غلام اسحٰق خان کو اعتراف کرنا چاہیے تھا۔ دانا لوگوں سے مشورہ کر کے‘ مستقبل کا قابل عمل لائحہ عمل طے کرنا چاہیے تھا‘ قوم جس پر بھروسہ کرتی‘ جس سے امید باندھتی۔ نوازشریف پیپلز پارٹی سے بہرحال بہتر تھے۔ اجلال حیدر زیدی اور اپنے پرنسپل سیکرٹری فضل الرحمن ایسے لوگوں کے مشورے‘ انہوں نے مسترد کر دیئے اور اپنی سی کرنے پر تل گئے۔ دونوں تحریک پاکستان کے کارکن‘ دونوں پڑھے لکھے اور جہاندیدہ‘ دونوں ہی ان کے پرانے اور قابل اعتماد رفیق۔ خاموشی سے وہ سنتے رہے اور پھر یہ کہا : انہی غلطیوں کی سزا میں بھگت رہا ہوں۔ پھر اس پر اضافہ کیا : آدمی سے خطا سرزد ہو جائے تو اس کی قیمت چکانی چاہیے۔
غلطی عمران خان کی اپنی تھی۔ وہ اس قدر برہم کیوں ہوئے کہ پیپلز پارٹی سے اپنا لیڈر بدلنے کا مطالبہ کیا۔ ارشاد کیا کہ وہ زرداری سے جان چھڑا لے۔ بچی کھچی جو جماعت رہ گئی ہے،وہ جناب زرداری ہی کی ملک ہے۔ جن میں بوتا تھا اور جو بات کو پا گئے ‘ بروقت انہوں نے پنڈ چھڑالیا ۔اپنی راہ الگ کرلی۔ مزید یہ کہ کسی دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ مخالف پارٹی کے لیے لیڈر تجویز کرے۔
پیپلزپارٹی بری نہیں۔ وہ ایک وفاقی جماعت ہے۔ سندھ میں وہ قوم پرستوں کے مخالف کھڑی ہے اور بدترین حالات میں بھی، کوئی مثبت کام اس سے سرزد ہوسکتا ہے۔ باایں ہمہ، فیصلے اس کے داخلی نظام سے ہوں گے۔ اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ سمیت، اس کے کئی لیڈر پانامہ لیکس کی تحقیقات میں سنجیدہ تھے۔ اعتزاز احسن نے اپنی بساط سے بھی زیادہ کوشش کی۔ آخری فیصلہ مگر زرداری صاحب کے ہاتھ میں ہے۔ وہ کیا پاگل ہوئے ہیں کہ کرپشن کی واقعی تحقیقات ہونے دیں۔ سرے محل اور سوئٹزرلینڈ کے کھاتوں سے لیکر، دنیا بھر میں پھیلی اپنی جائیدادوںکا حساب وہ کیسے دے سکتے ہیں؟۔ بے شک عمران خان کو تنہا پرواز کا طعنہ یار لوگ دے رہے تھے‘دیتے رہتے۔ قائداعظم نے تنہا پرواز کی تھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے بھی۔ ایسے حلیفوں سے تنہائی بہتر ہے، جن پر اعتبار نہ کیا جا سکتا ہو۔
حیدرعلی اور سلطان ٹیپو، برصغیر کے غیرمتنازعہ ہیرو ہیں۔ اپنے زورِبازو سے، ایک ایسی سلطنت انہوں نے تعمیر کی کہ تاریخ میں اس کی چندہی مثالیں ہیں۔ بدترین حالات میں خیرہ کن کارنامہ۔ برصغیر، اخلاقی پستی کی انتہا کے علاوہ ،پرلے درجے کی بے یقینی اور خانہ جنگی کا شکار تھا۔ پھر بھی ایک مرحلے پر یہ محسوس ہونے لگا کہ حیدر علی انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دے گا۔ فرانسیسی تو ان کے ساتھ تھے ہی، ایک موقع ایسا بھی آیا کہ حیدر آباد کا نظام اور مرہٹے بھی غیر ملکیوںکے خلاف اس کی مدد کرنے پر آمادہ تھے۔ مگر میر جعفر اور غلام علی لنگڑا قسم کے لوگوں پر جب بھروسہ کیا تو نتیجہ اس کے سوا کیا ہوتا؟
حیدر علی کس مرتبے کا آدمی تھا؟۔ کینسر کا شکار ہوا، تب بھی ہوش و حواس قائم تھے۔کئی لشکر استوار کیے اور ہر ایک کو موزوں ہدایات دیں۔ قمری کیلنڈر کے یہی دن تھے۔ غالباً یہ 1882ء تھا۔ حیدر علی کو اچانک احساس ہوا کہ اس کا وقت آ پہنچا ہے۔ چند روز قبل ٹیپو کو اپنا جانشین وہ نامزد کر چکا تھا۔ اختیارات اسے سونپ دیئے تھے۔ بستر سے معاً اٹھا اور غسل کا ارادہ کیا۔ بوکھلایا ہوا طبیب روکتا رہا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اصرار بڑھا تو معالج کو اس نے کمرے سے نکل جانے کا حکم دیا۔ آخرِ وقت‘ وہ اپنے پروردگار سے راز و نیاز کا آرزومند تھا‘ جیسا کہ ایک سچے مسلمان کو ہونا چاہیے۔ نہادھو کر‘ اجلا لباس پہنا۔ قبلہ رو ہو کر دعائیں پڑھیں اور ہاتھوں پر پھونکتا رہا‘ پھر ہاتھ چہرے پر پھیر لیے۔بستر پر دراز ہو گیا۔ سحر طلوع ہونے میں کچھ دیر باقی تھی کہ پروردگار سے جا ملا‘ مطمئن اور آسودہ کہ اپنا فرض اس نے پورا کیا تھا۔ اپنی وراثت اس نے موزوں ترین آدمی کو سونپ دی تھی۔
حیدر علی چٹا ان پڑھ تھا؛ اگرچہ اپنے اجداد کی فصیح فارسی میں روانی سے گفتگو کرتا‘ اور کئی مقامی زبانوں میں۔ جنگ بندی کے معاہدے پر انگوٹھا ثبت کیا تو حیرت سے انگریز جنرل نے اسے دیکھا۔ اس پر حیدر علی نے وہ جملہ کہا‘ جس کی گونج آج تک سنائی دیتی ہے '' میرا انگوٹھا نہیں‘ میرا ماتھا دیکھو‘‘۔
بچپن ہی میں ٹیپو کو اس نے بہترین اساتذہ کے سپرد کیاتھا۔ اہتمام رکھا کہ آسودگی کا وہ عادی نہ ہو۔ کتاب سے ٹیپو کو شغف تھا۔ ایک روشن دماغ آدمی‘ برصغیر کی تاریخ میں پہلی بار جس نے سوشل سکیورٹی سسٹم نافذ کرنے کا ارادہ کیا اور کچھ نہ کچھ کر ہی ڈالا۔ پہلا آدمی‘ جس نے راکٹ بنانے کا خواب دیکھا ۔ امریکہ کی سب سے بڑی خلائی لیبارٹری ناسا میں آج بھی جس کی تصویر آویزاں ہے۔ آج بھی ہر مورخ جس کا نام احترام سے لیتا ہے۔ ایک شب ٹیپو مطالعے میں محو تھا کہ باپ کمرے میں داخل ہوا۔ بھنا کر بولا : کتابوں میں نہیں‘ تمہاری زندگی میدانِ جنگ میں گزرنے والی ہے۔ سلطان تو اسے بعد میں کہا گیا‘ زندگی میں اسے فقط ٹیپو صاحب کہا جاتا اور حیدر علی کو فقط نواب‘ حالانکہ وہ برصغیر کا سب سے بڑا سالار اور ایک عظیم حکمران تھا۔ ٹیپو مؤدب بہت تھا‘ خاموش رہا۔ کتاب سے اس کا رشتہ دائم برقرار رہا۔ پندرہ سال کا تھا‘ جب رزم گاہ میں اتارا گیا‘ پھر ساری زندگی وہیں گزار دی‘ حتیٰ کہ شہید کی موت پائی اور انسانی یادوں میں امر ہو گیا۔ جب تک گردش لیل و نہار قائم ہے‘ خراج تحسین اسے پیش کیا جاتا رہے گا۔ تمام زبانوں میں‘ تمام اقوام میں‘ سب مذاہب کے ماننے والوں میں۔ برصغیر ٹیپو کا قرض نہیں چکا سکتا۔ ایک سچے شہید کا قرض کوئی بھی نہیں چکا سکتا۔
سپہ سالار بھی ایسا کہ جس انگریز جنرل کو اس نے شکست دی‘ واٹرلو میں اس نے نپولین کو جا ہرایا۔ایک سے ایک بڑا لیڈر پیدا ہوا‘ ٹیپو کی سپاہیانہ عظمت اور بندگان خدا کے ساتھ‘ محبت و شفقت کی ایسی مثال اس کے بعد کبھی نہ دیکھی گئی۔ عمران خان تو کیا کسی بھی لیڈر کو اس سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔ جامع الصفّات شخصیات پیدا کرنے میں‘ قدرت کچھ ایسی فیاض واقع نہیں ہوئی۔
اس کے باوجود وہ شہید ہوئے۔ انگریزوں کے نہیں میرصادق اور میر غلام علی لنگڑا کے ہاتھوں۔
جو لیڈر موزوں مشیروں‘ساتھیوں اور حلیفوں کا انتخاب نہیں کر سکتا‘ کامرانی اس کے نصیب میں نہیں ہوتی خواہ وہ ٹیپو ایسا عظیم المرتبت ہی کیوں نہ ہو‘ یہ تاریخ کا سبق ہے۔ تاریخ سے مگر کم ہی لوگ سبق سیکھتے ہیں۔