اللہ نہ کرے، مدینہ منوّرہ اور مکّہ مکّرمہ اگر خطرے میں ہوں تو ہر چیز، دنیا کی ہر چیز ہم دائو پہ لگا سکتے ہیں۔ تمام زنجیریں توڑ کر، پاکستانی فوج‘ مقدّس سر زمین کا رخ کرے گی۔ دل و جان سے پوری قوم اس کی پشت پہ کھڑی ہوگی۔ عرب یہ بات جانتے ہیں۔
اندازے مختلف اور متضاد ہیں۔ ناکافی معلومات کے ساتھ مختلف ہی ہوں گے۔ ایک خیال یہ ہے کہ سعودی عرب شریف خاندان کی مدد کو آیا ہے۔ اس میں بھی دو طرح کی آرا ہیں۔ ایک یہ کہ ان کا اقتدار باقی رکھنے میں اعانت کرے گا۔ دوسرا یہ کہ معافی دلانے میں۔
شاہی خاندان شریفوں کی دست گیری کیسے کرسکتا ہے؟ 1999 ء نہیں یہ 2017 ء ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا۔ تب آزاد عدالتیں تھیں اور نہ یہ آزاد میڈیا۔ امریکی صدر میاں محمد نوازشریف کی پشت پر کھڑے ہوئے اور ریاض نے، جس کا رسوخ گہرا تھا، قطر کے علاوہ لبنان کے الحریری کے ساتھ مل کر التجا کی۔ بے نظیر بھٹو جلا وطن تھیں۔ جنرل پرویز مشرف نے ان کی طرف سے ‘تعاون کے اشاروں کو سناان سناکر دیا۔ ملک میں مارشل لاء نافذ تھا اور جنرل کو اپنی حکومت مستحکم کرنا تھی۔ معیشت بحال کرکے، وہ ایک نجات دہندہ بننے کے آرزو مند تھے۔
شریف خاندان کی مظلومیت کا تاثر اجاگر تھا۔ ملک عبد اللہ کو شریف خاندان سے ہمدردی تھی۔ سعودیہ میں انہیں جنرل محمد ضیاء الحق کا جانشین سمجھا جاتا‘ ہر سال 17 اگست کو نوازشریف جن کے مزار پر جایا کرتے اور ان کا مشن جاری رکھنے کا اعادہ کرتے۔ گیارہ سالہ اقتدار میں عرب حکمرانوں سے، جنرل نے گہرے تعلقات استوار کر لیے تھے۔ دو ڈویژن پاکستانی فوج وہاں متعین کی گئی تھی۔
شاہی خاندان پہلے بھی شریفوں سے کچھ ایسا شادنہ تھا۔یمن والے بحران کے ہنگام، پاکستانی پارلیمنٹ میں، جس طرح شاہی خاندان کی تحقیر کی گئی‘ اونٹ کی پیٹھ پر وہ آخری تنکا تھا۔ زبان بندی کے وعدے پر ان لوگوں کو پناہ دی گئی۔ محل میں رکھا گیااور شاہانہ فیاضی کے ساتھ‘ ان کی تمام ضروریات پوری کی جاتی رہیں۔ مگر معاہدے کی خلاف ورزی کرکے، میڈیا سے وہ بات کرتے رہے۔ سمجھوتے کی غلط تعبیر کرتے رہے۔اول اس کے وجود ہی سے انکار کیا، پھر یہ کہا کہ دس نہیں، یہ پانچ برس کا تھا۔ بادشاہ اس طرح کی جسارت گوارا نہیں کیا کرتے۔ وہ مہربانی کرتے اور مہلت دیتے رہے۔
مگر اپنی پوزیشن کے معاملے میں وہ حساس تھے۔ لندن سے میاں نوازشریف نے اسلام آباد کی راہ لی تو اسی لئے جنرل مشرف کی استدعا پر، اسلام آباد کے ہوائی اڈے سے وہ انہیں اٹھا لے گئے۔ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ شہزادہ مقرن کو انہوں نے پاکستان بھیجا۔ اخبار نویسوں نے سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دیا تو مقرن نے دستاویز لہرا کر سوال کیا :معاہدہ پہلے تھا یا عدالت کا حکم ؟۔
امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے بے نظیر لوٹ آئی تھیں۔ میثاق جمہوریت کو نظر انداز کرکے، نون لیگ کو انہوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ پاکستان ہی نہیں، سعودی عرب میں بھی شدید ردِّعمل تھا۔ پاکستانی عوام نے ا حتجاج کیا کہ ان کے لیڈر کو اغوا کیا گیا ہے۔ سعودی عرب میں قبائلی لیڈر اپنے گھروں سے نکلے اور انہوں نے شاہی محل کا رخ کیا۔ بھٹو خاندان کو وہ لوگ ناپسند کرتے تھے۔ شاہ عبد اللہ کو مداخلت کرنا پڑی۔ ٹی وی پہ شور مچا تو نون لیگ کی قیادت کو سعودی سفارت خانے کی تقریب کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔ اسلام آباد میں سعودی سفیر نے ریاض کو لکھا : ہماری پانچ عشروں کی سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔ خدانخواستہ مجھے اغوا کر لیا جائے تو ہمدردی کا اظہار کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔
جنرل پرویز مشرف سے بات کرتے ہوئے ‘شاہ عبد اللہ نے یہ کہا کہ اگر بے نظیر بھٹو کی واپسی انہوں نے گوارا کی ہے تو نوازشریف کو بھی لوٹ آنے کی اجازت دیں۔ امریکہ اور برطانیہ کی فرمائشیں، اس کے سوا تھیں، جو ہمیشہ ایک سے زیادہ گھوڑوں پر دائو لگاتے ہیں۔
جن لوگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ پاک فوج اور سعودی عرب کے ایما پر، ایک عد داین آر او ہونے والا ہے، انہیں غور کرنا چاہئے کہ عسکری قیادت اور شاہی خاندان ان لوگوں کی سرپرستی کیوں کرے گا؟۔ ان سے شاد تو وہ بہر حال نہیں۔ کیا وہ ان سے خوف زدہ ہیں؟ ظاہر ہے کہ ولی عہد محمد بن سلیمان پر تو شریف دبائو نہیں ڈال سکتے۔ اس خاندان کی خاطر پاکستانی عوام کے ایک بڑے حصے کی ناراضی کیوں وہ مول لیںگے‘ جو احسان فراموشی کا مرتکب ہے۔ کیا وہ ملک کی عسکری قیادت کو بلیک میل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ کیا اس قدر ہنگامہ نون لیگ اٹھا سکتی ہے کہ پاک فوج اور عدلیہ کو جھکا دے ؟
شریف خاندان کی کمزوریا ں ہیں۔ ان کے سینکڑوں ارب روپے ملک سے باہر پڑے ہیں اور دولت‘ انہیں جان سے زیادہ عزیز ہے‘ چمڑی نہیںدمڑی!برطانیہ میں ایک نیا قانون منظور ہوا ہے، جنوری میں جو نافذ ہو جائے گا۔ ناجائز دولت جس کے تحت ضبط کی جاسکے گی۔ نون لیگ کے لیڈر برطانیہ کا دورہ کرنے والے نیب کے افسروں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اہم ثبوت انہوں نے حاصل کر لیے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ایک ٹیم وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔ وہ ایشیا کے ماہر ترین تحقیقاتی افسروں میں سے ایک کی نگرانی میں کام کررہی ہے۔
شعبدہ بازی میں شریف خاندان کا ثانی کوئی نہیں۔ جدّہ روانگی کے ہنگام‘ کرایے کے چھوٹے سے طیارے پر سوار ہوتے ہوئے، یہ تاثر شہباز شریف نے پھیلایا کہ یہ شاہی خاندان نے خود سے بھیجا۔ درخواست کرکے یہ جہاز منگوایا گیا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ اس کا کرایہ کون ادا کرے گا۔ کروڑوں کا نہیں یہ چند لاکھ روپے کا بل ہے۔ یاد ہے کہ میری تجویز پر عمران خان نے مہاتیر محمد کو پاکستان مدعو کیا۔ تین دن تک ان کا طیارہ اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر کھڑا رہا تو تب بھی فقط تیس لاکھ روپے میزبان کو ادا کرنا پڑے تھے۔
ابھی کچھ دیر پہلے بعض اہم عرب شخصیات سے رابطہ رکھنے والے ا یک ممتاز پاکستانی سے میں نے سوال کیا کہ شاہی خاندان ''شرفا‘‘کے بارے میں کیا سوچتا ہے؟'' انہیں وہ پسند نہیں کرتے ‘‘۔ باخبر آدمی نے کہا : ان کا خیال یہ ہے کہ میاں محمد نوازشریف اور شہباز شریف کی کچھ زیادہ پذیرائی نہیں ہوگی۔ انہیں مشورہ دیا جائے گا کہ وہ فساد برپا نہ کریں۔ سعودیوں کے لئے، پاکستانی کی سلامتی اہم ہے۔ فوجی تربیت اور رہنمائی کے لئے وہ راولپنڈی پہ انحصار کرتے ہیں۔ ایک ہز ار پاکستانی افسر سعودی عرب میں ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ ریاض کی خواہش ہے کہ دو ڈویژن پاکستانی فوج ان کے ہاں تعینات کی جائے‘ جس طرح کے جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں تھی۔
سامنے کی بات یہ ہے کہ سعودی حکومت کے نزدیک عسکری قیادت کی اہمیت، شریف خاندان سے کہیں زیادہ ہے۔ شریف خاندان کیا چیز ان رابطوں سے حاصل کرسکتا ہے ؟۔ زیادہ سے زیادہ، ایک آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کا پیمان۔ اگر ایسا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ایک مبارک فیصلہ ہوگا۔ بے داغ الیکشن ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ گمان ہے کہ اس کے عوض میاں محمد نوازشریف کو شائستگی اختیار کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا۔ اندازے درست ہوتے ہیں اور نا درست بھی۔ ناچیز کا خیال یہ ہے کہ بیل منڈھے نہ چڑھے گی۔
پاکستان پہ سعودی عرب کے انحصار کی نوعیت عارضی نہیں۔ خدانخواستہ، خدانخواستہ اسرائیل نے کبھی حجاز کا قصد کیا تو اس کا دفاع کرنے والا کون ہوگا ؟
پاکستان کی حفاظت کے لئے ہم اپنی زندگیاں ہتھیلی پہ رکھ سکتے ہیں۔اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے، مدینہ منوّرہ اور مکّہ مکّرمہ اگر خطرے میں ہوں تو ہر چیز، دنیا کی ہر چیز ہم دائو پہ لگا سکتے ہیں۔ تمام زنجیریں توڑ کر، پاکستانی فوج‘ مقدّس سر زمین کا رخ کرے گی۔ دل و جان سے پوری قوم اس کی پشت پہ کھڑی ہوگی۔ عرب یہ بات جانتے ہیں۔