ابھی توقف کیجئے، ابھی ذرا سا انتظار فرمائیے۔ رائے دینے کا وقت بھی آئے گا۔ ابھی سے تلواریں کیوں سونت رکھی ہیں؟
فرطِ جذبات میں، ایک محترم دوست نے، ملالہ یوسف زئی کا موازنہ، قائداعظم سے کیا۔ کیا ایک اداکار کا تقابل، کسی سائنس دان سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک سکالر کا کسی گلوکار سے؟ کہا کہ بے شک قائداعظم، سب سے بڑے رہنما تھے مگر ملالہ سب سے زیادہ پہچانی گئی‘ پاکستانی ہیں۔ شہرت گویا بجائے خود ایک قدر ہے ۔
قائداعظم تاریخ کی ان لافانی شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی اخلاقی عظمت، تدبر اور عزم کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ ہمیشہ جن سے اکتسابِ فیض کیا جاتا رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، تاریخ کی شہادت ان کے حق میں بڑھتی جا رہی ہے اور بڑھتی جائے گی۔ ملالہ ایک بچی ہے۔ تعلیم اس کا حق تھا اور اظہار خیال بھی۔ مذہبی جنونیوں نے یہ حق اس سے چھیننے کی کوشش کی۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہوا کہ قتل کرنے کی بہیمانہ کوشش ہوئی تو کچھ لوگ خم ٹھوک کر میدان میں آگئے۔ ذہنی غسل (برین واشنگ) سے گزرنے والے، طالبان کے ہمدرد‘ اس اندوہناک واقعے کو انہوں نے ڈرامہ قرار دیا۔ بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ ڈرامہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کے لئے رچایا گیا۔ وقت نے اس کہانی کو یکسر غلط ثابت کر دیا۔ اب اور داستان شروع ہوئی۔ جس کا انجام ابھی نہیں آیا۔ ابھی معلوم نہیں کہ یہ کشتی کس کنارے لگے گی۔ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
مغرب ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتا ہے، ظاہر ہے کہ ہمارے تضادات سے۔ پاکستانی قوم کو تو کبھی اس بات پر غور کرنے کی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ بھارت میں بہت سی فلمیں ایک ایجنڈے کے تحت بنتی ہیں۔ پاکستانی فوج اور آخری تجزیے میں پاکستان کا وجود ان کا ہدف ہوتا ہے۔ اس عنوان پر وہ کیا سوچتے کہ برطانوی نشریاتی ادارے، بی بی سی کے اپنے اہداف ہیں۔ سوچ سمجھ کر انہوں نے اس بچی کو چنا کہ اپنی فکر، اس کے نام پر آگے بڑھا سکیں۔ اس کی سرپرستی کا انہوں نے فیصلہ کیا... اور اس کے لئے ساز گار فضا خود ہم نے مہیا کی تھی۔ وہ زمانہ ابھی ابھی گزرا تھا جب ایک سروے کے مطابق مشرق وسطیٰ میں اسامہ بن لادن کی حمایت 90 سے 95 فیصد تک تھی۔ خود پاکستان میں اس کے تائید کنندگان کی کمی نہ تھی۔
ملالہ کے والد لبرل یا سیکولر خیالات کے حامل تھے۔ معاشرے سے جو متصادم ہیں اور جن کی قبولیت کا آج کوئی سوال ہے اور نہ آنے والے کل میں۔ علاج کے لئے اس بچی کو برطانیہ لے جایا گیا تو برطانوی اداروں نے اسے اپنے مقاصد کے لئے بھر پور انداز میں استعمال کرنے کا تہیہ کر لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے، اس کی گمنام این جی او کے لئے ایک ملین ڈالر کے عطیات جمع ہو گئے۔ ہائی سکول کی طالبہ کے لئے یہ کس قدر سہانا خواب تھا کہ ایک قائد کے طور پر اسے پیش کیا جائے۔ ایک مثالی کردار، دوسرے جس سے رہنمائی حاصل کریں۔ ہر آدمی کی سرشت میں یہ آرزو ہوتی ہے اور ہوا لگتے ہی بھڑک اٹھتی ہے۔
اب بڑے پیمانے پر اس کی پذیرائی کا آغاز ہوا۔ انعامات کی بارش ہونے لگی۔ حتیٰ کہ 2016 ء میں اسے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
ہمارے عصر ہی نہیں، ایک ایسا تجربہ پاکستان میں ہوا ہے کہ مالیاتی اداروں کی پوری تاریخ میں، اس کی مثال نہیں ملتی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی ''اخوت‘‘ اب تک بیس لاکھ پاکستانیوں کو غیر سودی قرضے جاری کر چکی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پہ ہر سال 70 ارب روپے سے زیادہ خرچ ہوتے ہیں۔ ''اخوت ‘‘پر اٹھنے والے اخراجات اس کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ پنجاب، گلگت، بلتستان، وفاقی اور فاٹا کے بعد اب آزاد کشمیر کی حکومت نے اس ادارے سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ افتادگانِ خاک کی اس سے ڈھارس بندھتی ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پہ خرچ ہونے والا سرمایہ تقریباً مکمل طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔ غربت تحلیل کرنے میں ہرگز کوئی مدد اس سے نہیں ملتی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کو اگر نوبیل پرائز مل سکتا ہے، تو ڈاکٹر امجد ثاقب کو کیوں نہیں؟ ڈاکٹر یونس کا ادارہ 34 فیصد شرح سود تک قرض جاری کرتا رہا۔ بدعنوانی کے الزامات بھی ان پر لگے مگر وہ اعزاز کے مستحق سمجھے گئے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کیوں نہیں؟ اس لئے کہ اسوۂ رسول سے، مواخات کے تصور سے وہ اکتسابِ نور کے مدعی ہیں۔ جس کی شمع 1400 سال پہلے محمد عربیؐ نے روشن کی تھی۔ اس مثال کو مغرب کیوں قبول کرے؟
نیم خواندہ عبد الستار ایدھی کیوں نہیں؟ جنہیں کسی ادارے کی تائید حاصل تھی اور نہ حکومت کی۔ جو نظم و نسق کا کوئی تجربہ رکھتے تھے اور نہ مالیاتی نظام کا۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کیوں نہیں، جو لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کر چکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دائرہ کار جن کا بڑھتا جارہا ہے۔ ملالہ یوسف زئی ہی کیوں؟ اس لئے کہ وہ ایک ایسی بچی ہے‘ جسے اپنی پسند کے دائرے میں حرکت دی جا سکتی ہے۔ کسی نہ کسی سطح پر اس کے والد مغرب کے ایجنڈے سے متفق ہیں۔ نورِ نظر کی کتاب ''I am Malala‘‘ اس پر شہادت دیتی ہے۔ تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کے ساتھ شائع ہونے والی اس کی تصاویر بھی۔
اب ایک دوسری انتہا ہے۔ نفرت‘ ردّعمل کی شدّت میں کچھ لوگ، اس بچی کو مغرب کا ایجنٹ ثابت کرنے پر تلے ہیں۔ ارے بھائی تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کے ساتھ اس کی تصاویر، تقریبات میں اتاری گئیں۔ ان تقریبات کا اہتمام، ملالہ یوسف زئی یا ان کے والد نے نہیں کیا تھا بلکہ ان اداروں نے، جن کی اپنی ترجیحات اور اپنے اہداف ہیں۔ مفلس بچیوں کی تعلیم کے سوا ابھی تک ملالہ کا کوئی ایجنڈا سامنے نہیں آیا۔ عطیات دینے والوں کی مدد سے پاکستان ، شام ، نائیجیریا میں ایسے ادارے اس نے قائم کئے ہیں‘ غریب گھرانوں کی بچیاں جن میں تعلیم پاتی ہیں۔ ان سکولوں کے نصاب میںکیا کوئی قابل اعتراض چیز شامل ہے؟ کیا وہ سب کی سب مسلمان نہیں... کیا ہزاروں خاندانوں کو اس سے فیض نہیں پہنچ رہا؟
ابھی وہ کمسن ہے۔ ابھی عمر کا وہ حصہ تمام نہیں ہوا‘ انگریزی میں جسے Impressionable years (اثرات قبول کرنے کی عمر) کہا جاتا ہے۔ زندگی کو اپنی آنکھ سے اس نے نہیں دیکھا۔ انسانوں کی عظیم اکثریت کی طرح، ابھی دوسروں کی نگاہ سے دنیا کو وہ دیکھتی ہے۔ ابھی اس پر حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ حکم تب لگایا جاتا ہے، اپنے فیصلے صادر کرنے کے لئے جب کوئی مکمل طور پر آزاد ہو۔ اس کے نظریات اور اس کی ترجیحات واضح ہوں۔ اپنا راستہ وہ چن لے۔
خوش فہمیوں اور بدگمانیوں میں گھری، ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ ہمیشہ جو محاذ آرائی کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔ ابھی توقف کیجئے، ابھی ذرا سا انتظار فرمائیے۔ رائے دینے کا وقت بھی آئے گا۔ ابھی سے تلواریں کیوں سونت رکھی ہیں؟
قائداعظم تاریخ کی ان لافانی شخصیات میں سے ایک ہیں، جن کی اخلاقی عظمت، تدبر اور عزم کی گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے گی۔ ہمیشہ جن سے اکتسابِ فیض کیا جاتا رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، تاریخ کی شہادت ان کے حق میں بڑھتی جا رہی ہے اور بڑھتی جائے گی۔ ملالہ ایک بچی ہے۔ تعلیم اس کا حق تھا اور اظہار خیال بھی۔ مذہبی جنونیوں نے یہ حق اس سے چھیننے کی کوشش کی۔