"HJC" (space) message & send to 7575

قرار دادِ پاکستان کے ساتھ کیا ہوا؟

23؍مارچ 1940ء کو پیش کی گئی قرار دادِ لاہور جو 24 مارچ کو منظور کی گئی اور بعد میں قرار دادِ پاکستان کہلائی، اس میں تین اہم باتیں کی گئی تھیں۔ -1 جغرافیائی طور پر متصلہ وحدتوں (یونٹوں) کے منطقے اس طرح وضع کیے جائیں کہ ضروری علاقائی ردّ و بدل کے ساتھ جن خطّوں میں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے؛ مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی زون، ان کا باہم گروپ بنا کر آزاد ریاستیں بنا دی جائیں جن کے ترکیبی یونٹ آزاد و خود مختار ہوں گے۔ -2 وحدتوں (یونٹوں) اور منطقوں میں رہنے والی اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی اور انتظامی حقوق اور دیگر مفادات کا ان کے مشورے کے مطابق بھرپور تحفظ کیا جائے گا۔ -3 متعلقہ منطقے دفاع، امور خارجہ، مواصلات اور کسٹمز کے محکمے اپنے پاس رکھیں گے۔ اپریل 1946ء کو مسلم لیگ کے منتخب ارکانِ اسمبلی کا کنونشن قائداعظم کی زیرِ صدارت دہلی میں منعقد ہوا۔ اس میں جو قرار داد منظور کی گئی اس میں 40 ء کی قرار داد کے مذکورہ بالا پہلے نقطہ میں ترمیم کر کے شمال مشرقی اور شمال مغربی زونوں، کہ جہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، کوآزاد ریاستوں کے بجائے، انہیں باہم ملا کر ایک آزاد ریاست پاکستان کی تشکیل کا مطالبہ کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ 40ء کی قرار داد کے کسی حصے میں ترمیم نہ کی گئی بلکہ اقلیتوں کے تحفظ کا مزید اعادہ کر دیا گیا۔ آج 66 برس بعد جب مُڑکر تاریخ کی جانب دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ 40ء کی قرار داد (46ء کی ترمیم سمیت) میں مطالبۂ پاکستان کی بنیاد جس وفاقیت پر رکھی گئی تھی اُس کی شروع میں ہی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی گئیں۔ سول اور فوجی اسٹیبلشمٹ نے مذکورہ قرار داد کے نقطہ 1 اور 3 کی نفی کرتے ہوئے ایک مضبوط مرکز کی بنیاد رکھی۔ اس اسٹیبلشمنٹ میں مہاجر اور پنجابی سول اور فوجی افسروں کا غلبہ تھا۔ سیاستدان بہت جلد ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن گئے تھے۔ 9 سال تک ملک کا آئین محض اس لیے نہ بن سکا کہ کس طرح بنگالیوں کی عددی اکثریت کا توڑ کیا جائے اور ان کو ان کے جمہوری حق سے محروم کیا جائے۔ مغربی بازو کی وحدتوں (یونٹوں) کو خودمختاری دینے کے بجائے ان کو ضم کر کے ون یونٹ بنا دیا گیا تاکہ پیریٹی کا غیرمنصفانہ اصول وضع کر کے مشرقی بازو کی 54 فیصد آبادی کو مغربی بازو کے 46 فیصد کے برابر کیا جاسکے اور ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کی جاسکے اور پھر اس مضبوط مرکز پر سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ نے براہ راست قبضہ جمائے رکھا۔ 71ء تک 24 سال کی تاریخ میں 15 سال ملک مارشل لاء کے تحت رہا۔بالآخر آزاد بنگلہ دیش قائم ہو گیا۔ یقیناً دشمن ہمسایہ نے بھی فائدہ اُٹھانا تھا جو اُس نے اُٹھایا اور بین الاقوامی طاقتوں نے بھی اس میں اپنا کردار ادا کیا، لیکن بنیادی خامی کہاں تھی؟1940ء کی قرار داد کی روح سے مسلسل روگردانی میں، جس کو بنیاد بنا کر عوامی لیگ نے اپنے چھ نکات وضع کیے تھے۔ اور افسوسناک صورت یہ بھی تھی کہ مغربی بازو میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی 40ء کی قرارداد کی یاد میں تعمیر کردہ مینارِ پاکستان کے سائے تلے جلسہ عام میں نومنتخب اسمبلی کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے اپنی حمایت مرکزی اسٹیبلشمنٹ کے پلڑے میں ڈال دی جس کے بعد یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی شروع کر دی۔ 73ء کے آئین میں دی گئی وفاقیت 40ء کی قرار داد کے مطابق تو نہ تھی لیکن جتنی بھی تھی اُسے بھی جلد ہی بلوچستان میں فوجی کارروائی کر کے تار تار کر دیا گیا۔ 73ء سے اب تک 40 سال کے عرصہ میں 20 سال مارشل لاء اور 20 سال کٹھ پتلی سویلین حکومتوں یا اپاہج جمہوریتوں کے ہیں جس میں وفاقیت اپنی اصل روح کے مطابق کبھی نافذ نہ ہوسکی۔ زرداری حکومت میں کی گئی 18 ویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ اور آغازِ حقوقِ بلوچستان ابھی حقیقی عملدر آمد کے مرحلے سے بہت دور ہیں اور جیسا کہ قرائن بتا رہے ہیں کہ آئندہ انتخابات کے نتیجہ میں وہ جماعتیں برسرِاقتدار آرہی ہیں جن کی طاقت کا سرچشمہ پنجاب ہے اور اس پر سایۂ عاطفت بھی اسٹیبلشمنٹ کا ہے تو پھر اندیشہ ہے کہ وفاقیت کا تاروپود بکھر سکتا ہے۔ دوسری اہم بات جس کا 40ء کی قرار داد اور پھر 46ء کے دہلی کنونشن کی قرار داد میں بھی اعادہ کیا گیا وہ اقلیتوں کو بھرپور تحفظ مہیا کرنے کا عہد تھا۔ خود بانیِ پاکستان نے پہلی کابینہ میں ایک اچھوت ہندو لیڈر جوگندر ناتھ منڈل کو مملکت خداداد پاکستان کا پہلا وزیر قانون مقرر کیا تھا اور اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کیا تھا کہ پاکستان میں غیر مسلموں کو ہر طرح کی آزادی اور برابری کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اسی قرار دادِ پاکستان کی منظوری کے مہینے میں اس سال مینار پاکستان سے بمشکل ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بادامی باغ میں جس بے دردی کے ساتھ مسیحیوں کے تین سو گھر جلا دیئے گئے اور جس طرح گذشتہ برسوں میں اسی قسم کے واقعات گوجرہ اور دوسری جگہوں پر وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔ اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف40ء اور 46ء کی قرار دادوں بلکہ بانیِ پاکستان کی 11؍اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریر کی بھی مکمل نفی کر دی گئی ہے۔ مارچ 40ء میں لاہور کے مسلم لیگ کے مذکورہ اجلاس میں خواتین کی بھاری تعداد نے بھی شرکت کی تھی۔ قائداعظم نے اپنی طویل تقریر میں جہاں اور باتوں کا ذکر کیا وہاں خواتین کو سیاسی، سماجی اور انتظامی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تلقین کی۔ لیکن ان کے پاکستان میں خواتین کو چادر اور چار دیواری کے اندر محبوس کر دیا گیا۔ 40ء کے عشرے کے مسلمان قائدین جو مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کر رہے تھے، ان کے خواب و خیال میں دور دور بھی یہ پاکستان نہیں تھا جو آج دنیا کے سامنے ہے۔ 40ء کے عشرے میں بھی برِصغیر کے مسلمان معاشرے میں دو دھارے پائے جاتے تھے۔ ایک تو وہ عوامی اور جمہوری دھارا تھا جس کی نمائندگی 23؍مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں یونائیڈ پریس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک لاکھ افراد کے اجتماع نے کی تھی۔ آج ایک کروڑ کی آبادی کے لاہور میں مینارِ پاکستان پر ایک لاکھ کا مجمع اکٹھا ہونے کو بہت بڑی بات سمجھا جاتا ہے لیکن 40ء میں جب لاہور دس پندرہ لاکھ سے زیادہ آبادی کا شہر نہیں تھا، اُس میں ایک لاکھ افراد کا جلسہ یقیناً بہت ہی بڑی بات ہوگا۔ اس عظیم عوامی جمہوری لہر کے مدمقابل مذہبی تنگ نظری کا ایک دھارا بھی تھا جو مقابلتاً محدود اقلیت میں اور کمزور تھا، لیکن موجود تھا۔ اس میں جمعیت العلماء ہند، مجلس احرار، خاکسار تحریک، جماعت احمدیہ، جماعت اسلامی اور آل انڈیا شیعہ کانفرنس وغیرہ شامل تھیں۔ بقیہ تنظیمیں تو غیر مسلح تھیں مگر ان کے قائدین شعلہ بیان خطابت کے بڑے ماہر تھے۔ خاکسار تحریک عسکریت پسند جماعت تھی۔ اس کی بنیاد عنایت اللہ مشرقی نے 1926ء میں ہٹلر کے ساتھ ملاقات کے بعد اس سے متاثر ہو کر رکھی تھی جس کا ڈھانچہ فسطائیت پر مبنی تھا۔ اس کے ارکان بیلچہ بردار جتھوں پر مشتمل تھے جن کا نصب العین نہ صرف پورے برصغیر پر بلکہ پوری دنیا میں بزورقوت اسلام کا بول بالا کرنا تھا۔ تحریک کا ایک حصہ جانبازوں پر مشتمل تھا جو ذہنی طور پر سرفروشی کے لیے ہر لمحہ آمادہ رہتے تھے۔ جب مارچ 40ء میں لاہور میں مسلم لیگ کے جلسہ کی تیاریاں جاری تھیں، پنجاب کے وزیراعظم سکندر حیات خان کی حکومت نے نیم فوجی تنظیموں پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ 19؍مارچ کو 313 بیلچہ بردار جانباز خاکساروں نے اس پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھاٹی دروازہ کے اندر پریڈ شروع کر دی۔ پولیس سے مڈ بھیڑ ہوئی جس میں خاکساروں نے اسلحہ بھی استعمال کیا اور ایک انگریز پولیس افسر مارا گیا۔ جواب میں پولیس کی فائرنگ سے 36 خاکسار جاں بحق ہوگئے۔ شہر میں دفعہ 144 نافذ ہوگئی اور کرفیو لگا دیا گیا۔ ان حالات میں دو روز بعد 22 سے 24 مارچ کو منٹو پارک میں مسلم لیگ کا مذکورہ تاریخ ساز اجتماع منعقد ہوا جس کے لیے سکندر حکومت نے پابندیاں نرم کر دی تھیں۔ گزشتہ 66 برس کے دوران ہمارے مسلمان معاشرے میں ان دونوں مخالف دھاروں میں بہت بڑی تبدیلی آئی۔ قائداعظم کا لبرل عوامی جمہوری دھارا مضبوط مرکزیت کی حامل سول و فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پائوں تلے بار بار روندا گیا ۔ اس کے برعکس مذہبی تنگ نظری کے دھارے میں عسکریت پسندی کا رجحان تیزی کے ساتھ بڑھا۔ اب پاکستان کا خونچکاں معاشرہ سوال کرتا ہے کہ آنے والے انتخابات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کے پاس معاشرہ میں وہ لبرل عوامی جمہوری دھارا رواں کرنے کا کیا منشور ہے جس کی علامت وہ ایک لاکھ عوام تھے جنہوں نے منٹو پارک میں علیحدہ وطن کی قرار داد منظور کی تھی؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں