"HJC" (space) message & send to 7575

سوچ کے دو دھارے

پچھلے دنوں ریٹرننگ افسروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے امیدواروں کے عقائد کی تفتیش جس انداز سے کی اس پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دونوں میں آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے حوالے سے ایک بحث کا آغاز ہوا ہے جو پاکستان کے عوام الناس اور جمہوری قوتوں کے لیے بے حد اہم ہے۔ دو نکتہ ہائے نظر کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ ایک وہ جو مخصوص مذہبی کٹرپن کی سوچ کا حامل ہے اور 62اور 63میں ضیاء الحق کی طرف سے اضافہ کردہ شقوں کے علاوہ 1977ء سے 1985ء تک ضیا ء الحق کے صدارتی فرامین کے تحت ’’نفاذ اسلام‘‘ کے نام پر شامل کردہ تمام ترامیم کا پرجوش حامی ہے۔ ضیاء الحق کی طرف سے شامل ترامیم کے پرجوش حامی1973ء میں بھٹو دور میں منظور ہونے والے آئین میں قرآن و سنت کے حوالے سے قانون سازی اور قرآن مجید اور اسلامیات کی لازمی تعلیم سے متعلق شقوں کو بھی اپنے دعویٰ کے حق میں لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب تک یہ شقیں آئین کا حصہ ہیں خواہ وہ کسی بھی مقصد کے تحت شامل کی گئی تھیں، ان کی پابندی لازمی ہے۔ اس کے برعکس دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ ریاست کے معاملات میں مذہب کے بڑھتے ہوئے عمل دخل نے، خواہ اس کی ابتدا 1973ء کے اصل آئین میں شامل چند شقوں سے ہوئی اور پھر ضیاء نے اس قسم کی بہت سی مبہم شقوں کا اضافہ کیا ، ملک سے فکری اور جمہوری آزادیوں کا خاتمہ کیا، فرقہ واریت کو فروغ دیا، تنگ نظری اور مذہبی انتہا پسندی کا ایسا جن بوتل سے باہر نکالا کہ پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور ہزاروں معصوم لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ آئین میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے، بلکہ اصل معاملہ سوچ کے دو دھاروں کے مابین ٹکرائو کا ہے۔ برصغیر کے مسلم معاشرے میں سوچ کے یہ دونوں دھارے قیام پاکستان سے پہلے سے موجود تھے۔ ایک جانب سرسید کی جدت فکر اور علامہ اقبال اور قائداعظم کے جدید جمہوری افکار پر مبنی لہر تھی اور دوسری جانب ان کے مخالف علماء اور مذہبی جماعتوں کی دقیانوسی لہر تھی۔ مگر مسلم عوام الناس کی بھرپور اکثریت نے اول الذکر دھارے کا ساتھ دیا اور مذہبی جماعتوں کی تمام تر مخالفت کے باوجود پاکستان قائم ہو گیا۔ قائداعظم نے اس ملک کی آئینی بنیاد 11؍اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں اپنی تقریر کے ان الفاظ سے رکھی۔ ’’اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا خواہ کسی بھی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں…آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان رہے گا۔ مذہبی اعتبار سے نہیں کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے لیکن سیاسی اعتبار سے اور ملک کے شہری ہونے کے حوالے سے ایسا ہو گا۔‘‘ گویا آپ نے واشگاف الفاظ میں مذہب کو ریاست کے امور سے علیحدہ کرکے اسے فرد کا ذاتی معاملہ قرار دے دیا تھا۔ 13 جولائی 1947ء کو دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں جب قائداعظم سے کسی نامہ نگار نے یہ سوال کیا کہ کیا پاکستان ایک تھیوکریٹک ریاست ہو گا تو آپ کا جواب تھا کہ ایسا ہوا تو پھر گویا میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ سب رائگاں گیا۔ ان افکار کا اعادہ آپ نے بہت سے انٹرویوز اور بیانات میں کیا جن کو اس کالم کے تنگ دامن میں نقل نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ آپ اپنے بیانات اور تقاریر میں اسلامی اصولوں کے مطابق عدل و انصاف کے قیام کا بھی ذکر فرمایا کرتے تھے اور اپریل 1948ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں اپنے خطاب میں پاکستان کے لیے اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ کے الفاظ بھی استعمال کئے۔ لیکن قائد کے انتقال کے بعد بہت جلد سوچ کے دوسرے دھارے نے غلبہ حاصل کر لیا۔ حکمران طبقوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ان مذہبی قوتوں کی سوچ کو اپنا لیا جو قیام پاکستان کی مخالف رہی تھیں۔ پاکستان کا آئین 1956ء تک التواء کا شکار رہا۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کے مارشل لاء ادوار کے دوران سوچ کے ان دونوں دھاروں کے درمیان کشمکش میں اضافہ ہوتا رہا۔ 70ء کے انتخابات میں جو اس ملک کے واحد آزادانہ انتخابات تھے، یحییٰ خان کی اسٹیبلشمنٹ کے اندازے غلط نکلے اور اس عوامی لہر کو کامیابی حاصل ہوئی جس کی بنیاد قائداعظم کی 11؍اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی تقریر میں رکھی گئی تھی۔ شکست خوردہ مذہبی قوتوں اور دائیں بازو کی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ ’’نظریہ پاکستان‘‘ کی مخالف جماعتیں کامیاب ہو گئی ہیں۔ مشرقی پاکستان کی حد تک اس مطالبہ کو تسلیم کر لیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے فوجی قوت کے زور پر اپنا نظریہ ٹھونسنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ فوج نے بادل ناخواستہ بھٹو کو اقتدار منتقل کر دیا۔ لیکن بھٹو صاحب کے گرد اسٹیبلشمنٹ کا دائرہ اتنا تنگ تھا کہ بہت جلد بھٹو نے 70ء کے انتخاب میں شکست خوردہ دائیں بازو کی دل جوئی شروع کر دی۔ عبدالقیوم خان کو وزیر داخلہ اور ممتاز دولتانہ کو برطانیہ میں سفیر لگا دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کو اتفاق رائے سے منظور کرانے کی خاطر جمعیت العلمائے اسلام، جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے پاکستان جیسی اقلیتی جماعتوں کے دستخط حاصل کرنے کے لیے آرٹیکل 31(اسلامی طرز زندگی) اور آرٹیکل 227 (قرآن پاک اور سنت کے مطابق قانون سازی) شامل کئے گئے۔ 77ء کے انتخابات کے نتائج بھی تسلیم نہ کئے گئے ۔ دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں کی PNAکی تحریک کے قائدین کی دلجوئی کے لیے بھٹو صاحب نے جمعہ کی چھٹی، شراب اور سود پر پابندی سمیت تمام مذہبی مطالبات مان لیے۔ 70ء کی ترقی پسند پیپلز پارٹی ہر اعتبار سے رجعت پسند دھارے کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی تھی۔ لیکن اس کے باوجود مختلف داخلی اور عالمی تقاضوں کے تحت 5؍جولائی 1977ء کو بھٹو حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ ترقی پسند اور جمہوری قوتوں کو فوجی قوت کے ذریعہ کچل دیا گیا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ 70ء کی دہائی سے اب تک مذہبی سوچ کے دھارے کے ہر شعبہ زندگی میں جبری غلبہ پالینے کے باوجود ملک رواداری، بھائی چارہ، عدل و انصاف اور اخلاقیات میں ترقی کی جانب گیا ہے یا تنزلی کی طرف؟۔ عوام الناس کے مسائل کم ہوئے ہیں یا وہ مسائل کے جم غفیر میں غرق ہو کر رہ گئے ہیں؟۔ جدت پسندی اور قدامت پرستی ہر ملک میں ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں قدامت پرستی‘ اسلحہ اور ریاستی جبر کے ذریعہ مسلط کی جا رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بانی پاکستان کی ترقی پسندانہ لبرل سوچ کو اختیار کرتے ہوئے معاشرہ میں توازن پیدا کیا جائے۔ اگر نئی منتخب حکومت بھی ماضی کی طرح مذہبی سوچ کے دھارے کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی تو حالات بہتری کے بجائے ابتری کی طرف جائیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں