انتخابات سے پہلے ہی ملک کی فضا میں مایوسی اور نااُمیدی کے گہرے بادل چھانے لگے ہیں۔ جنہیں اپنی پارٹی سے ٹکٹ نہیں ملا وہ اور ان کے حامی مایوس اور بددل ہو کر اپنے ردعمل کا مختلف طریقوں سے اظہار کر رہے ہیں۔ اکثر بُغض معاویہ میں اس امیدوار کو ہر قیمت پر شکست دلانے کا جتن کر رہے ہیں جسے ان کے بجائے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ راتوں رات وفاداریاں تبدیل کی جا رہی ہیں اور دوست دشمن اور دشمن دوست بن رہے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں جمہوری کلچر کا فقدان ہے۔ ایک جاگیردارانہ یا نیم جاگیردارانہ قدروں کا حامل معاشرہ جہاں جمہوریت کو کنٹرول کیا جاتا ہے وہاں اقتدار نیچے سے اوپر کی طرف نہیں بلکہ اوپر سے مسلط کیا جاتا ہے‘ خواہ وہ سیاسی پارٹیاں ہوں یا حکومت اور ریاست کے ادارے۔ وہ لوگ بھی مایوس ہیں جو جماعت اسلامی کے حامی ہیں یا جماعت کی سوچ رکھتے ہیں۔ انہیں افسوس اس بات کا ہے کہ جماعت کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہ تو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اور نہ ہی تحریک انصاف کے ساتھ ہو سکی ہے۔ اس سوچ کے حامل افراد یا تو فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوان اقتدار تک پہنچتے رہے ہیں یا نام نہاد دائیں بازو کی کسی بڑی جماعت کے ساتھ مل کر سیٹیں حاصل کرتے رہے ہیں۔ منفرد حیثیت میں ان کو شاید ایک بھی سیٹ ملنے کی امید نہیں ہے؛ تاہم پس پردہ تگ و دو جاری ہے اور انتخابات سے چند روز پیشتر تک جاری رہے گی اور شاید کچھ ایڈجسٹمنٹ ہو بھی جائے۔ نون لیگ کے ساتھ انحصار اس بات پر ہو گا کہ اسے ورکروں کی کتنی ضرورت ہے جو الیکشن والے دن لوگوں کو گھروں سے جمع کرنے کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا انحصار تحریک کے اندر جماعتی بازو کے اثر و رسوخ پر منحصر ہو گا‘ جو یہ دلیل دے رہا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو تحریک کی حاصل کردہ نشستوں کی تعداد متاثر ہو سکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے حامی اس لیے مایوس ہیں کہ اس پارٹی کی حمایت پنجاب اور کے پی میں بالکل سکڑ کر رہ گئی ہے۔ پارٹی قیادت انتخابی منظر سے غائب ہے۔ بھٹو زرداری خاندان کے داخلی اختلافات نے صورت حال کو اور زیادہ متاثر کیا ہے۔ پارٹی کی انتخابی مہم نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب اور کے پی میں امیدوار زیادہ پیسہ خرچ نہیں کر رہے کہ کامیابی کے امکانات بے حد معدوم ہیں۔ طویل ترین دورانیے کی لوڈشیڈنگ کے بارے میں لوگوں کوبتا کر گمراہ کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں جیالے لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں اور خود کو طفل تسلی دینے کے لیے مختلف مفروضوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکن بھی ماضی کے برعکس اپنی اس مایوسی کا اظہار کرتے ہیں جو کراچی کی نئی حلقہ بندیوں نے پیدا کر دی ہے۔ نیز ان کے رہنمائوں کی ٹارگٹ کلنگ کی جا رہی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان کی سیٹیں چھینی جا رہی ہیں۔ ملک کے باقی کسی حصے میں ان کو پزیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔ اے این پی کی صورت حال سب سے زیادہ کشیدہ ہے۔ طالبان کی جانب سے تابڑ توڑ حملوں نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس کے رہنمائوں اور کارکنوں کی فقیدالمثال قربانیوں سے اس جماعت میں یک جہتی پیدا ہوئی ہے اور مزاحمت جاری ہے لیکن اگلے انتخابی کھیل میں اسے بالکل کارنر کر دیا گیا ہے۔ اے این پی کی مخالف سیاسی جماعتوں میں اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں کہ وہ طالبان کی جانب سے ان کے رہنمائوں اور کارکنوں کی ٹارگٹ ہلاکتوں کی بھرپور مذمت کریں۔ اس کے برعکس مولانا فضل الرحمٰن کا بیان ہے کہ اے این پی کا آئندہ سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں، ان پر حملے کرنا مرے ہوئے سانپ پر لاٹھیاں برسانے کے مترادف ہے۔ انہوں نے طالبان کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے جانب سے مذاکرات کی پیش کش کا سنجیدہ جواب نہیں دیا حالانکہ حکومتی جماعتوں میں اے این پی نے مذاکرات کے بارے میں سب سے زیادہ سنجیدگی دکھائی تھی۔ ان حالات میں کے پی میں انتخابات کے نتائج بہت حدتک فکس ہو چکے ہیں یعنی ان کے نتائج کا پہلے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ وہاں عمران خان، فضل الرحمٰن اور شاید جماعت کی بننے والی مخلوط حکومت کسی حد تک طالبان کے ہاتھوں میں یرغمال ہو گی تاہم آنے والا وقت بتائے گا کہ اصل صورتحال کیا ہوتی ہے۔ بلوچستان میں ا نتخابی عمل میں حصہ لینے کے حامیوں اور مخالفوں میں کشمکش جاری ہے۔ انتخاب کے بجائے مسلح جدوجہد کے راستے اپنی خود مختاری یا آزادی کے متوالے بلوچ نوجوان انتخابی پارٹیوں کے رہنمائوں کے خلاف مسلح کارروائیاں کر رہے ہیں۔ اس طرح سوائے پنجاب کے کہ یہاں بھی گوجرانوالہ میں ایک جماعت اسلامی اور ایک پیپلز پارٹی کا امید وار قتل کیے جا چکے ہیں، بالعموم اگلے انتخاب میں بیلٹ اور ُبلٹ کا مقابلہ محسوس ہوتا ہے۔ کے پی، سندھ اور بلوچستان میں ُبلٹ بیلٹ کو ڈکٹیٹ کر رہی ہے یا اس پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ یہ بات تو اب پاکستان میں بچے بچے کو معلوم ہے کہ اگلے انتخاب میں منقسم مینڈیٹ آئے گا۔ ہمارے ملک کی سیاست بہت حد تک علاقائی ہو چکی ہے۔ مقامی، قبائلی اور علاقائی عصبیت ہر چیز پر غالب آ چکی ہے۔ نفرتیں بہت گہری ہوتی جا رہی ہیں۔ اس پر مذہبی منافرتوں نے مزید خرابی پیدا کر دی ہے جبکہ مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا۔ ان حالات میں جو جماعتیں منقسم مینڈیٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچیں گی ان کے درمیان انتخابی عمل میں جاری خونریزی کے نتیجہ میں آگ اور خون کی خلیج حائل ہو چکی ہو گی۔ ان جماعتوں کی مخلوط حکومتیں کیا کسی مستحکم سیاسی نظام کو جنم دے سکیں گی یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ملک کو درپیش مسائل کا ایک پہاڑ سامنے کھڑا ہے، توانائی کے شدید بحران سے لے کر معاشی بدحالی تک، دہشت گردی سے لے کر لاقانونیت تک، کرپشن سے لے کر بدانتظامی تک مسائل کا ایک طوفاان اس ملک کو گھیرے ہوئے ہے۔ کیا بُلٹ سے ڈکٹیٹ کردہ انتخابات ان کا حل مہیا کر سکیں گے؟ یہ سوالیہ نشان انتخابات سے پہلے ہی بہت مایوس کن منظر کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ انتخابی عمل میں جن مقامی اور بیرونی عناصر نے شعوری یا لاشعوری طور پر خونریزی اور بُلٹ کے ذریعے ڈکٹیٹ کرنے کا جو اہتمام کیا ہے، انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ خونریزی اور بُلٹ کا استعمال بیلٹ کے بعد نہ صرف جاری رہے گا بلکہ اس میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ جن قوتوں نے انتخابات سے اپنی مرضی کے ’’مثبت نتائج‘‘ حاصل کرنے کا اہتمام کیا ہے، وہ بھی اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ثابت ہو سکتے ہیں۔ تاہم اگر ان کا مقصد ہی عدم استحکام سے حاصل ہونا ہے تو پھر ان کے مطابق حالات درست سمت جا رہے ہیں۔