"HJC" (space) message & send to 7575

تبدیلی اتنی آسان نہیں

تحریک انصاف کے ووٹروں کو ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ پولنگ سٹیشنوں پر بالخصوص وسطی اور شمالی پنجاب کے شہری حلقوں میں، لائنوں میں لگے ہوئے ووٹروں کی بھاری اکثریت تو تحریک انصاف کے حامیوں کی تھی؛ گلی محلے، ریسٹورانوں، بسوں، ویگنوں، دفتروں، نجی محفلوں، جلسے جلوسوں میں لوگوں کی اکثریت بھی تحریک انصاف کی حامی نظر آرہی تھی، 11؍مئی رات بارہ بجے تک ٹی وی چینلوں پر انفرادی پولنگ سٹیشنوں کے جو نتائج سنائے جا رہے تھے ان میں بھی تحریک انصاف بیشتر شہری حلقوں میں آگے جا رہی تھی‘ مگر آدھی رات کے بعد تحریک انصاف کے ووٹوں کی تعداد جوں کی رفتار سے رینگنے لگی جبکہ نون لیگ کے ووٹوں کی تعداد چوکڑیاں بھرتی نظر آئی اور صبح تک تقریباً قومی اسمبلی کے 125حلقوں میں نون لیگ اتنی زیادہ اکثریت سے برتری حاصل کر گئی کہ تحریک انصاف کے حامیوں کے چہرے اترنے لگے‘ بالکل اسی طرح جیسے ون ڈے کرکٹ یا ٹی 20کے میچوں کے آخری اوروں میں مخالف ٹیم واضح برتری لے جائے اور تھوڑے اوور رہ جائیں تو پیچھے رہ جانے والی ٹیم کے حامیوں کے چہرے مایوسی سے لٹک جاتے ہیں۔ یہاں میچ تو دن میں کھیلا جاچکا تھا‘ اب تو صرف سکورنگ کی جا رہی تھی۔ ان کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آ رہی کہ لاہور جیسے شہر میں رات 9یا 10بجے تک تمام پولنگ سٹیشنوں کے نتائج ریٹرننگ افسروں کے دفاتر میں پہنچ جانے کے باوجود ان حلقوں میں جہاں پی ٹی آئی کی جیت کے واضح امکانات تھے، ان کے نتیجہ کا اعلان اگلے روز شام تک کیوں نہیں کیا جا سکا۔ چنانچہ یہ لوگ لاہور میں ڈیفنس اور دوسرے پوش علاقوں کے چوراہوں میں دھرنے دے رہے ہیں اور احتجاج کر رہے ہیں جبکہ ان کا لیڈر شوکت خانم ہسپتال میں صاحب فراش ہے۔ بارہ مئی کی شام کو لاہور کے شہریوں نے دیکھا کہ مال روڈ، کینال روڈ، واپڈا ٹائون، جوہر ٹائون، گارڈن ٹائون سے لے کر ڈیفنس تک نون لیگ کے حامی موٹرسائیکلوں پر 40یا 50کی ٹولیوں میں پھرتے رہے اور لوگوں پر رعب قائم کرتے رہے۔ بعض جگہ ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔ بلاشبہ تحریک انصاف کے حامیوں پر 12مئی کی صبح سے شدید ڈیپریشن طاری ہے۔ وہ ایک بھرپور انتخابی مہم چلا کر اور بظاہر انتخابات میں بھاری اکثریت میں اپنے حق میں ووٹنگ ہوتے ہوئے دیکھ کر تبدیلی کا خواب پورا ہونے کے لیے پُرامید تھے‘ وہ سچ مچ سمجھ رہے تھے کہ بارہ مئی کو نیا سورج طلوع ہو گا۔ ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ: اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں درمیانے طبقے اور اونچے طبقے کے خوشحال پڑھے لکھے پروفیشنل نوجوانوں نے فیس بک، ٹوئیٹر، بلاگ اور SMSکے ذریعہ بڑی بھرپور مہم چلائی اور سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔جلسے جلوسوں میں جھنڈے اور بینر لے کر پہنچے، جگہ جگہ جھنڈے لہرائے، جلسے جلوسوں میں گیت گائے، مینار پاکستان پر طوفانی بارش میں کھڑے رہ کر اپنے لیڈر کی تقریر سنی۔ یہ نوجوان سیاسی اعتبار سے بے حد چارج ہو کر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، مگر انتخابات ’’لڑ‘‘ نہیں رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس مرتبہ چونکہ عدلیہ آزاد ہے، الیکشن کمیشن بااختیار ہے اس لیے اس بار ماضی کی طرح انجینئرڈ انتخابات نہیں ہو سکیں گے، مگر انہیں اپنا یہ خیال خام ثابت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان میں 1970ء کے سوا جتنے انتخابات ہوئے انجینئرڈ تھے۔ ’’مثبت نتائج‘‘ برآمد کرنے کا ایک میکانزم 80ء کے عشرے میں وضع کر لیا گیا تھا۔ البتہ ان کی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں۔ کبھی دوتہائی اکثریت، کبھی منقسم مینڈیٹ اور کبھی سادہ اکثریت۔ 2011ء کے اواخر تک عمران خان پر داخلی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کا الزام لگ رہا تھا۔ 30؍اکتوبر 2011ء کے مینار پاکستان کے جلسہ کے بعد جیتنے کے اہل (Electables) رہنمائوں کی تحریک انصاف میں جوق در جوق شمولیت کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔ یہ واضح اشارے تھے جو روائتی طورپر اقتدار کے لیے قرعہ فال نکلنے والی پارٹی کے لیے ہوا کرتے تھے۔ لیکن 2012ء میں میاں صاحب نے امریکہ‘ برطانیہ اور دیگر ملکوں کے دورے کئے اور اخباری اطلاعات کے مطابق اپنے خطے میں ان ممالک کی نئی تزویراتی حکمت عملی کے حق میں اپنا کردار ادا کرنے کی ہامی بھر کر اُن کی حمایت حاصل کرلی۔ اس کے بعد امریکہ کی سروے کمپنیوں کی رپورٹیں دھڑا دھڑ آنے لگیں کہ نون لیگ ملک کی سب سے مقبول جماعت ہے۔ اس کے بعد دوسری جماعتوں سے جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے سیاستدانوں کی بھاری تعداد نون لیگ میں شامل ہونا شروع ہوئی اور میڈیا میں نون لیگ کی برتری کی باتیں شروع ہو گئیں۔ ایک معتدل اصلاحاتی ایجنڈا کی حامل عمران خان کی پارٹی کا قصور محض یہ تھا کہ امریکہ کے خلاف ایک واضح اور سخت گیر مؤقف تھا۔ اس کے کارکنوں کی جانب سے روائتی Electables کے پارٹی میں شامل کئے جانے کے خلاف سخت مزاحمت تھی۔ پارٹی میں روائتی جاگیرداروں اور شہروں کے درمیانہ طبقہ کے درمیان کشمکش تھی جس میں درمیانہ طبقہ کا پلہ بھاری نظر آتا تھا اور لگتا تھا کہ وہ اصلاحاتی نعرے شاید حقیت کا روپ دھار لیں جنہیں ’’نیا پاکستان‘‘ کہا جا رہا تھا۔ ادھر نون لیگ کی ساری سیاسی حکمت عملی روائتی جوڑ توڑ اور تھانے کچہری کی بنیاد پر رکھی گئی تھی جس میں ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پولیس اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پنجاب میں تحریک انصاف کا کیڈر جسے عام طور پر ممی ڈیڈی کلچر یا انٹرنیٹ کی نسل کہا جاتا ہے، اس طرز سیاست میں اپنی جگہ نہ بنا سکا۔ کے پی کے میں ان کی جگہ اس لئے بن گئی کہ وہاں اے این پی سے لوگ بالکل مایوس ہو چکے تھے اور نون لیگ کی پنجابی سیاست اور امریکہ کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے وہاں کے لوگ اس کی جانب راغب نہ ہوسکے۔ تحریک انصاف کے کارکن جو سیاسی طور پر بہت چارج ہیں ان کے لیے حالیہ انتخابات میں بہت سے اسباق پوشیدہ ہیں۔ ان کی ناکامی کی وجہ یہ نہیں کہ انہوں نے جغادری امیدواروں کو ٹکٹ نہیں دئیے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے چنگل میں پھنسے ہوئے کسانوں اور غریب ہاریوں کو اپنی جانب مائل نہیں کیا ورنہ وہ 70ء کی طرح ان کو ووٹ دیتے۔ یہ شہری آبادی میں بھی ان کے ساتھ مربوط نہیں ہوئے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی یہی خامی رہی۔ پی ٹی آئی کے نوجوان کارکنوں کو حالیہ شکست سے پژمردہ ہونے کے بجائے کچھ سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے فیض کے کلام سے ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ کو انتخابی ترانہ تو بنا لیا مگر تخت گرائے جانے اور تاج اچھالے جانے کے لیے اس خلق خدا کے ساتھ رشتہ نہ جوڑا گیا پھر جان لیجئے کہ نظام کی تبدیلی اتنی آسان نہیں ہوگی۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں