نانگا پربت بیس کیمپ میں 9 غیر ملکی سیاحوں کے اپنے گائیڈ سمیت طالبان کے ہاتھوں مارے جانے کے انتہائی افسوسناک واقعہ پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے۔ حسب معمول اس میں غیرملکی ہاتھ کا بھی ذکر ہو رہا ہے اور خطے کی ارضی سیاست (Geo Politics) سے بھی ڈانڈے ملائے جا رہے ہیں ۔یقینا ان باتوں کو محض سازشی نظریات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بیرونی طاقتوں یا بیرونی عناصر کا ملوث ہونا اپنی جگہ درست لیکن کیا مقامی عناصر کی شمولیت، تعاون اور رہنمائی کے بغیر اتنے دشوار گزار علاقے میں اس قسم کی کارروائی ممکن تھی؟ اور یہی وہ سوال ہے جو زیادہ پریشان کن ہے۔ دیامیر کا علاقہ تاریخ میں بدھ مت کا بہت بڑا مرکز تھا جس کا پتہ یہاں بدھ مت کے ہزاروں کتبوں کی موجودگی سے ملتا ہے۔ دیامیر کا مطلب ہے ’’پہاڑوں کا بادشاہ‘‘ جو دراصل نانگا پربت کا مقامی نام ہے۔ نانگا پربت ہندی کا لفظ ہے جو سنسکرت سے ماخوذ ہے۔ امن کے مذہب بدھ مت کے پیرو یہاں کے لوگ امن کے مذہب اسلام میں سلاطینِ دہلی کے دور میں صوفیاء کے زیر اثر داخل ہوئے‘ لیکن معاشی پس ماندگی اور ذرائع پیداوار میں ترقی نہ ہونے کی بدولت یہاں کے لوگ زیادہ تر اپنی قبائلی روایات کے شدت سے اسیر رہے، تاہم پُرامن رہے۔ لیکن گزشتہ دو تین عشروں میںیہ قبائل جو زیادہ تر بٹوگا قبائل پر مشتمل ہیں، بڑی شدت کے ساتھ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا شکار ہوچکے ہیں۔ مبلغین جس طرح فاٹا اور دیگر قبائلی علاقوں میں‘ وہاں کی تعلیمی و معاشی پس ماندگی سے دو چار قدیم قبائلی اخلاقیات میں جکڑے ہوئے لوگوں میں آسانی سے اپنی سوچ کو پھیلانے میں کامیاب ہوئے‘ ویسے ہی دیامیر کے بٹوگا قبائل میں انہیں پذیرائی حاصل ہوئی۔ وہ پہلے ہی اپنی خواتین کو غار نما پہاڑی گھروں میں مقید رکھنے کے قائل تھے، سکول، سڑک، ہسپتال کو وہ پہلے ہی کافروں کی علامت سمجھتے تھے، اس لئے یہاں سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی۔ مجھے دو سال قبل دیامیر کے علاقے میں چند دن گزارنے کا اتفاق ہوا، دراصل میں دریائے سندھ پر مجوزہ آبی و برقی پیداوار کے منصوبوں یعنی دیامیر بھاشا، بونجی، یولبو، تنگس، داسو، پٹن اور تھاکوٹ وغیرہ کی ٹرانسمشن لائن کی فزیبلٹی پر کام کر رہا تھا اور اپنے سرویئرمسعود صاحب کے ہمراہ مجھے یہ Sites بھی دیکھنا تھیں اور ٹرانسمشن لائنوں کے روٹ بھی دیکھنے تھے۔ چونکہ مجوزہ لائن روٹ دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ کاغان اور ناران کی وادیوں سے ہو کر گزرتا تھا اس لئے ہم اس جانب سے چلتے ہوئے بابوسر کی چار ہزار میٹر کی بلندی کو عبور کرتے ہوئے چلاس پہنچے۔ راستے میں جونہی ناران کی وادی ختم ہوئی اور ہم جل کھڈ سے آگے نکلے تو جگہ جگہ پہاڑوں پر سپاہ صحابہ کے کتبے کھلے عام نظر آنے لگے۔ آگے دیامیر کے علاقے میں داخل ہوئے اور جوں جوں آگے بڑھتے گئے ان کتبوں اور دیواری نعروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ بابوسر‘ چلاس روڈ جو کہ زیر تعمیر تھی، سے گزرتے ہوئے ارد گرد کی آبادیوں گٹی داس وغیرہ میں بٹوگا قبائلیوں کے گھر نظر آئے جو پہاڑوں میں غاروں کی مانند تھے۔مسعود صاحب نے بتایا کہ یہ لوگ اپنے علاقے میں کسی بھی نئی چیز کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے جب وہ بابوسر چلاس روڈ کے لئے سروے کر رہے تھے، بٹوگا نے انہیں اغوا کر کے یرغمال بنالیا اور تین روز ان کے قبضے میں رہنے کے بعد ان کی کمپنی نے تاوان دے کر انہیں بازیاب کرایا۔ ہم دیامیر کے صدر مقام چلاس میں پہنچے تو چہار جانب ان دیواری نعروں کی بھرمار تھی اور ہر ایک پر کالعدم تنظیموں کے نام کھلے عام درج تھے۔ یہاں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ تنظیمیں پاکستان میں کالعدم ہیں۔ چلاس شہر کے مرکزی چوک کا نام جھنگوی چوک ہے۔ انہی دنوں واپڈا نے چلاس میں دیامیر بھاشا ڈیم پروجیکٹ کا دفتر کھولا تھا۔ ہم تلاش کر کے جب وہاں پہنچے تو صرف گارڈ وہاں موجود تھا، اس سے پتہ چلا کہ صرف وہ اور ایک آدھ کلریکل سٹاف وہاں ہوتا ہے۔ چیف انجینئر صاحب شہر سے دور شنگریلا ہوٹل میں قیام پذیر ہیں اور دفتر نہیں آتے کیونکہ مقامی آبادی کئی بار دفتر پر حملہ کرچکی تھی اور ڈیم بنانے کے سخت خلاف تھی۔ شہر کا ایک چکر لگایا تو دیکھا کہ پورے شہر میں سوائے لمبی داڑھی والے مردوں کے کوئی نظر نہ آیا۔ ہمارا قیام بھی دریائے سندھ کے کنارے واقع خوبصورت ہوٹل شنگریلا میں تھا۔ جولائی کا مہینہ تھا اور ہوٹل میں نہ صرف غیرملکی سیاح بلکہ پنجاب اور سندھ کے علاقوں سے بہت سی فیملیاں پہنچی ہوئی تھیں۔ وہاں کوئی ٹی وی سکرین نہ پاکر ہوٹل کے کائونٹر سے دریافت کیا تو پتہ چلا کہ کچھ عرصہ ہوا چلاس کے مقامی لوگوں نے آکر ہوٹل کے باہر لان میں لگی بڑی ٹی وی ڈش توڑ ڈالی تھی اور وارننگ دی تھی کہ ہوٹل میں کوئی سکرین نظر نہ آئے۔ یہاں موبائل کی سہولت بھی محدود تھی، موبائل پر انٹرنیٹ اور ای میل کی رسائی بند تھی۔ ہوٹل میں وائی فائی کی سہولت بھی موجود نہ تھی۔ ہوٹل انتظامیہ نے بتایا کہ وہ چلاس کی مقامی آبادی کے دبائو اور دھمکی کی وجہ سے ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔ ہم نے اس پورے سفر میں گلگت سے سکردو تک جتنے ہوٹلوں میں قیام کیا، ہر جگہ ٹی وی، وائی فائی، انٹرنیٹ اور ای میل کی رسائی موجود تھی‘ مگر چلاس میں یہ سب کچھ ممنوع تھا۔ گزشتہ برسوں میں شاہراہ قراقرم اور بلتستان روڈ پر بے شمار واقعات رونما ہوئے جن میں بسوں کو روک کر مسافروں کے شناختی کارڈ دیکھ کر ایک مخصوص عقیدے کے لوگوں کی نسل کشی کی گئی۔ وادی شانگلہ اور بشام سے لے کر دیامیر کے سارے علاقے میں ان لوگوں کی دہشت کا راج کئی سال سے جاری ہے۔ ہمارے ہاں سالہا سال تک ہماری انتظامیہ کی ناک کے نیچے کھلے عام مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے فروغ کے لیے ادارے کام کرتے رہتے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں پوچھتا۔ سالہا سال مولوی فضل اللہ مولوی ریڈیو کے نام سے اپنا ایف۔ایم ریڈیو چلاتا رہا۔ آج وہ افغانی سرحد کے پار سے پاکستان کی دفاعی چوکیوں پر حملے کرتا ہے۔ ریاست کے اداروں کی ناک کے نیچے یہ سب کچھ جاری رہتا ہے ۔چنانچہ جو کچھ دیامیر کے بیس کیمپ میں ہوا اس کے لیے اگر وہاں بیرونی طاقتوں نے مقامی عناصر کو استعمال کیا اور نام نہاد ’’بیرونی ہاتھ‘‘ ذمہ دار ہے تو پھر مقامی ریاستی ادارے بھی ذمہ دار ہیں۔ ان حالات میں سانحۂ نانگا پربت پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ دیامیر کو فاٹا بننے میں کئی سال لگے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ملک میں جگہ جگہ فاٹا بن جائیں، خنجراب سے گوادر تک تجارتی شاہراہ کا خواب دیکھنے والوں کو معاشرے سے مذہبی انتہا پسندی کو جڑ سے اُکھاڑ پھنکنے کے لیے ٹھوس اقدام کرنا ہوں گے۔