"HNC" (space) message & send to 7575

بات سے بات

نہ ظرف نہ ذہنیت… اسے شرمناک کہیں یا درد ناک سمجھیں؟ ن لیگ کہتی ہے کہ اقتدار میں آکر پاکستان ایران گیس منصوبہ کا جائزہ لیں گے۔ پیپلز پارٹی کے ایک شاندار کام پر کنفیوژن پھیلانے کی مکروہ ترین کوشش کے علاوہ اسے اور کیا کہا جاسکتا ہے؟ یہ سیاست نہیں شرارت، خباثت اور لعنت ہے کہ ہوس اقتدار کی بھی کوئی تو حد ہونی چاہیے۔ میرے قارئین اور ناظرین بہت ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں پیپلز پارٹی کا مداح نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے زمانہ سے ہی پارٹی کا ناقد ہوں۔ مدتوں پہلے بھی میں لکھتا رہا کہ ’’بی بی‘‘ اور ’’بابو‘‘ دونوں ہی پاکستان کیلئے کسی ’’بری خبر‘‘ سے کم نہیں اور دونوں میں صرف ’’جینڈر‘‘ کا فرق ہے۔ اس حوالے سے درجنوں یا بیسیوں نہیں سینکڑوں کالم ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن تنقید کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی مثبت، تعمیری اور عمدہ کام میں بھی کیڑے ڈالنے بیٹھ جائیں۔ گوادر پورٹ کے حوالے سے چین کیساتھ معاہدہ اور پاک ایران گیس منصوبہ، دونوں ہی تاریخ ساز اقدامات ہیں جن پر پیپلز پارٹی کی ستائش سے گریز کم ظرفی اور بخل سے کم نہ ہوگا۔ عوام ان دونوں فیصلوں پر یکسو ہیں، مکمل طور پر متفق و متحد لیکن ن لیگ ایک طرف تو پولیٹیکل پوائنٹ سکورنگ کیلئے عوام کو کنفیوژ کرنے کی سفلی حرکت کررہی ہے تو دوسری طرف امریکہ کی بھی سیدھی سادی چمچہ گیری کا مظاہرہ ہورہا ہے کہ حضور! پاک ایران گیس منصوبے کے بارے میں صرف آپ ہی تحفظات و خدشات کا اظہار نہیں کررہے بلکہ آپ کے یہ چاکر بھی اس چاکری میں مصروف ہیں۔ ہمارے گھنے بالوں والے سروں پر دست شفقت رکھیں تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ اقتدار ملتے ہی ہر فیصلہ حضور کی مرضی کے مطابق ریورس کردیں گے۔۔۔۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار کیلئے ہمیشہ ہر حد تک گئے ہیں اور آئندہ بھی ہر حد تک جائیں گے لیکن شائد ایران کی حد تک جانا خودکشی کی کامیاب کوشش ہوگا۔ اول تو انہیں اقتدار ملتا دکھائی نہیں دیتا کہ سیاست جعلی سروے در سروے کا نام نہیں کہ سونامی بھی بقول عمران خان ’’سوناما‘‘ بنتا جارہا ہے لیکن اگر کوئی معجزہ انہیں اقتدار میں لے بھی آیا تو یہ چند ماہ سے زیادہ ٹک نہیں پائیں گے کہ دو تہائیوں اور بھاری مینڈیٹوں کے زمانے کب کے لد گئے لیکن پھر بھی اگر معجزہ سے بڑھ کر کچھ ہوجائے تو یقین جانو یہ Kiss Of Death یعنی بوسۂ مرگ سے کسی طور پر کم نہ ہوگا۔ دوسری طرف اک اور سنسنی خیز ہی نہیں معنی خیز کھیل بھی شروع ہوچکا ہے۔الیکشن کمیشن نے ’’جنگلی گھوڑوں‘‘ پر کاٹھیاں ہی نہیں ڈالیں بلکہ ان کے مونہوں میں لگامیں ڈال کر انہیں کھینچنا بھی شروع کردیا ہے جس پر گھوڑوں کی دنیا میں بھونچال کی سی کیفیت طاری ہے۔ سوائے پاکستان تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے‘ سیاسی جرائم پیشہ، اٹھائی گیروں، جیب کتروں، ٹیکس چوروں اور بینک ڈیفالٹروں میں بھگدڑ اور کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔ ان تمام وارداتیوں نے کوشش تو کی تھی کہ الیکشن کمیشن کو ٹیکنیکل انداز میں ناک آئوٹ کرکے ماضی کی غلیظ پریکٹسز جاری رکھیں لیکن الیکشن کمیشن نے ان کے شیطانی منصوبے پر پانی پھیر دیا جس پر الیکشن کمیشن اور اس کی پشت پناہ سپریم کورٹ عوامی خراج تحسین کی مستحق ہے۔ نئے نامزدگی فورمز (Forms) چھپوانے پر قومی اسمبلی سے لیکر سینٹ تک میں شدید احتجاج دکھائی اور سنائی دیا۔ فیصلہ پر تشویشوں کے اظہار کئے گئے‘ اداروں کو حدود میں رہنے کے بھاشن بھی سنے گئے اور یہاں تک کہا گیا کہ اگر الیکشن کمیشن نے من مانیاں ہی کرنی ہیں تو اسمبلیاں ختم کردیں۔ ظاہر ہے کہ جب دُم پر پائوں آئے گا تو چیائوں چیائوں اور چانگڑوں کی آوازیں تو آئیں گی۔ ایک بات طے اور وہ یہ کہ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے! سیانوں کا خیال ہے کہ الیکشن کمیشن کی اصلاحات و حرکات کے بعد ٹیکس نادہندہ 70 فیصد ارکان اسمبلی کی نااہلی کے امکانات انتہائی روشن ہوگئے ہیں۔ انکم ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، کیپٹل گین ٹیکس اور قرض نادہندگی سمیت 18 پوائنٹس بدکرداروں کے اسمبلی پہنچنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں لیکن یہ سب کافی نہیں جیسے پرویز مشرف والی بی اے کی شرط کافی ثابت نہ ہوئی کہ باپ کی جگہ بیٹا یا بیٹی، بڑے بھائی کی جگہ چھوٹا بھائی، سالے کی جگہ بہنوئی، مامے کی جگہ بھانجا، سسر کی جگہ داماد اور چاچے تائے کی جگہ بھتیجا گند ڈالنے پہنچ گیا تھا۔ جمہوریت واقعی اگر کوئی شے ہے، ٹیکس چوری، ڈکیتی، ٹھگی اگر واقعی جرائم ہیں تو مزید بہت کچھ کرنا ہوگا ورنہ ان عفریتوں سے نہ ملک کی جان چھوٹے گی نہ عوام کی۔ ’’زر‘‘ اور ’’شر‘‘ اسی طرح باری باری ملک و قوم کی دھجیاں بوٹیاں نوچتے رہیں گے۔ اک انتہائی اہم اور اندر آپس کی بات جو اتنی بھی ’’اندر‘‘ اور آپس کی نہیں رہ گئی کہ کاغذات نامزدگی میں ’’کڑی‘‘ شرائط میں ’’مناسب‘‘ ترامیم کرانے کے حوالے سے حکومت اور فرینڈلی اپوزیشن میں مذاکرات عروج پر ہیں اوریہ دونوں عوام دشمن قوتیں عوام کے خلاف خفیہ ڈیل کی تفصیلات تقریباً طے کرچکی ہیں۔ اور اب آخری بات کہ پاکستان ’’زر‘‘ اور ’’شر‘‘ برادران کیا تقریباً ہر سیاستدان کیلئے حلوائی کی دکان سے زیادہ کچھ بھی نہیں جس کا اندازہ اس تازہ خبر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نے جاتے جاتے دن دیہاڑے سرعام ملکی خزانے کی لوٹ سیل لگادی ہے اور وہ ایسے کہ سرکاری فنڈز بلا روک ٹوک نکالنے کی منظوری دیدی! نوٹ: انتہائی تازہ خبر۔۔۔۔۔۔۔ الیکشن کمیشن نے پولنگ سٹیشنز پرووٹر کے فنگر پرنٹس لینے کا اعلان کیا۔ ویل ڈن فخرو بھائی! ہم آپ کی صحت یابی کیلئے دعا گو ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عوامی درندے عرف نمائندے ایک طرف تو غربت کے سبب ٹیکس نہیں دیتے لیکن دوسری طرف اس بات پر سراپا احتجاج ہیں کہ ان پر‘ الیکشن میں پندرہ لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہ کرنے کی پابندی زیادتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں