"HNC" (space) message & send to 7575

حادثہ ۔ الیکشن سے پہلے اور بعد !

اگر پاکستان بنتے ہی کاری گروں، فنکاروں، جیب کتروں، ٹھگوں اور چوروں کے ہاتھوں ہائی جیک ہوگیا تھا تو سادہ لوح عمران خان اور اس کی تحریک انصاف کس شمار قطار میں کہ عمران کو نرغے میں لینے والے کامیابی سے ہاتھ صاف کرچکے اور اب ’’کلین سویپ ‘‘ کا سندر سپنا ڈرائونے خواب میں تبدیل ہوچکا۔ کیا واقعی ’’سویپ‘‘ سیاسی ٹھگوں کے ڈیپ فریزرمیں منجمد ہوچکی؟ پی ٹی آئی میں ٹکٹوں کی تقسیم بلکہ بندر بانٹ کے حوالہ سے خبریں تو مجھے بھی عجیب وغریب اور الٹی سیدھی مل رہی تھیں لیکن سچی بات ہے ہمدم دیرینہ ہارون الرشید کے گزشتہ کالم نے مجھے ہلاکر رکھ دیا۔ پی ٹی آئی سے وابستہ امیدوں کا تاج محل ریت کے گھروندے میں تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ہارون کا تبصرہ وتجزیہ اس معاملہ میں ہلکا ہوہی نہیں سکتا کیونکہ وہ میری طرح سست الوجود نہیں۔ ماشاء اللہ متحرک بھی ہے اور عینی شاہد بھی ‘سواگر وہ اپ سیٹ ہے تو سمجھ لیجیے بہت کچھ اپ سیٹ ہوچکا اور اب پی ٹی آئی سے توقعات … ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے والے معصوم پاکستانیوں کے ساتھ تعزیت ہی کی جاسکتی ہے کہ اس پارٹی پر بھی اس قسم کے لوگ قابض ہوچکے جیسے دوسری پارٹیوں پر قابض ہیں بلکہ اک اور واقف حال کا تبصرہ تو بہت ہی ہولناک تھا کہ باقی مین سٹریم پارٹیوں کے امیدوار تو پھر پیٹ بھرے ہیں، یہاں تو بھوکے چوروں کی یلغار ہوگی جو اقتدار ملنے پر اس سے بھی بڑھ کر کریں گے جو تاتاری لشکر نے بغداد کے ساتھ کیا تھا لیکن میں پھر بھی کنفیوژڈ تھا حالانکہ پی پی 161سے جہاں ہماری رہائش ہے‘ اک ایسے مڈل پاس کوٹکٹ دیا گیا جس کے خلاف دودرجن سے زیادہ ایف آئی آرز ہیں۔ اس کی اکلوتی صفت یہ بتائی گئی کہ اس نے پیسہ بہت خرچ کیا۔ ہر بات بکواس ہوسکتی ہے لیکن ایف آئی آرز کا ڈھیر کس کھاتے میں ڈالا جائے؟ پرانے یا ’’نئے پاکستان‘‘ کے کھاتے میں؟ لیکن میں ڈھیٹوں کی طرح کنفیوژہوکر یہ سوچتا رہا کہ ممکن ہے باقی حلقوں میں سب ٹھیک ہو۔ تب پنجاب بالخصوص سنٹرل پنجاب کی سیاست پر انتہائی گہری نظر رکھنے والی اک شخصیت نے جو عمران کی ہمدرد ہے، انتہائی دکھ سے بتایا کہ عمران شیخوپورہ سے سویپ کرسکتا تھا لیکن افسوس ٹکٹوں کی احمقانہ غیر سیاسی تقسیم کے بعد اب پی ٹی آئی کو شیخوپورہ سے شاید ایک سیٹ بھی نہ مل سکے۔ یہ سب حزن وملال سے نڈھال کردینے والی خبریں تھیں لیکن میں HOPE AGAINST HOPEکے تحت پھر بھی پرامید تھا کہ باقی ہرجگہ تحریک انصاف کے کرتوں دھرتوں نے انصاف کیا ہوگا لیکن ہارون کے کالم نے مہر تصدیق ثبت کردی کہ تحریک انصاف بھی امیدوں کے قتل عام کا میدان بن چکی اور شاید عمران کو اندازہ بھی نہ ہوکہ اس کے ساتھ کتنا بڑا ہاتھ ہوچکا: ؎ میرا دکھ یہ ہے میں اپنے ساتھیوں جیسا نہیں میں بہادر ہوں مگر ہارے ہوئے لشکر میں ہوں ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ اگر دو نمبر لوگوں کی اکثریت کے ساتھ عمران رہ جاتا ہے تو عمران کا نقصان، بالفرض محال جیت جاتا ہے تو پاکستان کا نقصان کہ خالی پیٹ چور…پیٹ بھرے چوروں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ ہارون کا یہ جملہ زہر بجھے خنجر کی طرح میرے دل کو چیرتا ہوا میری روح میں پیوست ہوچکا ہے کہ : ’’حادثہ ہوگیا۔ وہ حادثہ جس کا خوف تھا اور جسے روکنے کی بہت تدبیر کی‘‘ ’’حادثہ ‘‘ کے لفظ سے دھیان ملک کے اک سیاسی سیانے چودھری شجاعت حسین کے تازہ بیان کی طرف جاتا ہے۔ میں چودھری شجاعت کی ’’رسٹک وزڈم‘‘ کا مداح ہوں۔ وہ ایک آدھ سادہ سے جملے کے کوزے میں دریا بند کردیتے ہیں۔ ان کی تازہ ترین وارننگ یا پیش گوئی دیکھیے کہ …’’الیکشن تو ہوجائیں گے لیکن بعد والا منظر زیادہ خطرناک نظر آرہا ہے۔ بھانت بھانت کے لوگ ممبر بن جائیں گے‘‘ یہی بات کچھ عرصہ پہلے میں نے بھی اسی کالم میں عرض کی تھی کہ اصل تماشا تو الیکشن کے بعد شروع ہوگا حالانکہ اس وقت مجھے سو فیصد یقین تھا کہ تحریک انصاف کے امیدوار تازہ ہواکے جھونکے کی مانند ہوں گے جبکہ اب تو ساری کہانی ہی الٹ چکی ہے بلکہ الٹ پلٹ چکی ہے کہ مختلف قسم کے جرائم پیشہ اور ڈیفالٹرز تحریک انصاف میں کامیابی سے نقب زنی کرچکے۔ کئی سال پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو کی متوقع سیاسی تباہی پر میں نے ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا۔ ’’ترالٹیا شہر بھمبورنی سسیے بے خبرے‘‘ بی بی کو بہت برا لگا لیکن جب الیکشن کے بعد گنتی کی چند سیٹیں پنجاب سے ملیں تو لاہور کے پرانے ایئرپورٹ پر مجھے دیکھتے ہی اپنے مخصوص لہجہ میں کہا: ’’آپ نے ٹھیک کہیں تھیں‘‘ لیکن آج عمران کو کیا کہوں؟ کہ وہ بھمبور نہیں بنی گالہ میں رہتا ہے اور وہ سسی نہیں سونامی کہلاتا ہے لیکن سسی اور سونامی کا انجام ملتا جلتا ہی دکھائی دیتا ہے۔ الیکشن سے پہلے والا حادثہ تحریک انصاف کے امیدواروں کی شکل میں ہوچکا…الیکشن کے بعد والے خطرناک منظر سے بچنے کے لیے آئو کسی معجزہ کا انتظار کریں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں