"HNC" (space) message & send to 7575

اشتہاری مہمیں اور انتخابی نشان

میاں نواز شریف کا گزشتہ وفاقی اقتدار بارہ اکتوبر 99ء کو اپنے انجام تک پہنچا اور آج کل ہم 2013ء کے اپریل میں سے گزر رہے ہیں یعنی آج جوووٹر 18سال پلس ہے وہ 1999ء میں تقریباً 3تا 4سال کی عمر کا ہوگا ۔ ن لیگ اپنی اشتہاری انتخابی مہم میں اسی فیصلہ کن ایج گروپ کو بیوقوف بنانے، گمراہ کرنے اور غلط تاثر دینے پر فوکس کررہی ہے۔ ن لیگ حکومت کے نام نہاد ’’کارنامے‘‘ بیان کرتے وقت بلاشبہ ان کے ذہن میں موجود ہے کہ آج کے 24,22,20,18 سال کے نوجوان ووٹرز کے وہم وگمان تک میں نہ ہوگا کہ نواز حکومت کتنی نااہل اور ناکام تھی۔ بے شک پروپیگنڈہ کے اعتبار سے یہ ایک عمدہ MOVEاور زبردست قسم کی اشتہاری چال ہے لیکن ہے سراسر سوفیصد جھوٹ پر مبنی جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب بارہ اکتوبر99ء کو ن لیگ پرائیویٹ لمیٹڈ کا تختہ الٹا گیا تو پنجاب سمیت پورے پاکستان میں کسی چڑیا نے بھی چُوں نہیں کی تھی بلکہ اس کے برعکس ملک بھر میں ’’جشنِ نجات‘‘ منایا گیا۔ اور تو اور ن لیگ کے مرکز لاہور میں بھی مٹھائیاں اس طرح تقسیم ہوئیں کہ چند گھنٹوں کے اندر اندر شہر بھر کی سویٹ شاپس خالی ہوگئی تھیں۔ میں پہلے بھی کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ ن لیگ کی اشتہاری مہم میں جس ’’دور ابتلا‘‘ کو ’’سنہری دور‘‘ کے طور پر پیش کرنے کی چالاکی فرمائی جارہی ہے، اسی عہدتاریک میں چن زیب نامی آدمی نے بھوک‘ بیروزگاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود کو سٹنگ پرائم منسٹر کے گھر ماڈل ٹائون کے سامنے زندہ جلا دیا تھا، یہی وہ زمانہ تھا جب ایک قومی سطح کا اخبار یہ سرخی لگانے پر مجبور ہوا کہ…… ’’شیر آٹا کھا گیا۔‘‘ اسی دور میں فارن کرنسی اکائونٹ فریز کرکے اکانومی کا ستیاناس کیا گیا اور پیلی ٹیکسی ڈرامہ رچا کر بینکوں کی چولیں ہلائی گئیں، مخصوص لوگوں کو تھوک کے بھائو نوازا گیا، قومی خزانہ پر کاری ضرب لگائی گئی…… پھر کیا ہوئے کالے منہ، نیلے پیر اور پیلی ٹیکسیاں، دانش ور اغوا ہوئے، سیاسی ورکرز پرتشدد کیا گیا، رہ گئی موٹروے تو ریمنڈبیکر کی کتاب پڑھ لو غرضیکہ لاتعداد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں لیکن سب سے اہم دلیل پھر وہی کہ جب نوازشریف کو فارغ کیا گیا تو پورے ملک میں ’’یوم تشکر‘‘ منایا گیا۔ کیوں؟اگر ن لیگ کی حکومت اتنی ہی مقبول تھی تو ملک میں صف ماتم کیوں نہ بچھی؟ لوگوں نے احتجاج کیوں نہ کیا ؟وجہ صرف یہ کہ لوگ ان سے بہت تنگ اور نکونک تھے لیکن انہیں اس بات کی داد ضرور دینی چاہیے کہ ایک طرف یہ پورے ’’اعتماد‘‘ کے ساتھ اس نوجوان ووٹر کو ورغلانے کی کوشش کررہے ہیں جو 1999ء میں چند سالہ بچہ تھا تو دوسری طرف یہ اس مفروضہ پر کھیل رہے ہیں کہ…… ’’عوام کی یادداشت جھاڑو کے تنکے سے بھی زیادہ کمزور ہوتی ہے۔‘‘ مختصراًیہ کہ ن لیگ کی پبلسٹی مہم ہے سب سے بہتر‘ چاہے جھوٹ پر مبنی ہی کیوں نہ ہو ۔ \\\\\\\"EVERY THING IS FAIR IN LOVE AND WAR\\\\\\\" اور پاور پلے تو ’’جنگ‘‘ اور ’’محبت‘‘ دونوں ہی کا لیتھل ترین کومبی نیشن ہے جس میں سگے بھائیوں کو مروانا، بیٹوں کو اندھا کرنا اور باپوں کو اندر کرنا بھی روا ہے جبکہ ن لیگ تو صرف جھوٹ ہی بول رہی ہے۔ برادرِ بزرگ اور شاعرِ بے مثال حضرت ظفراقبال ٹھیک کہتے ہیں۔ جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے ادھر بیچاری تحریک انصاف ہے جس پر ہرکوئی ہاتھ صاف کرنے پر تلا ہے لیکن اگر رب مہربان تو کوئی قوت عمران کو نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ میں پی ٹی آئی کی اشتہاری مہم پر تو کوئی تبصرہ نہیں کروں گا کہ یہ اے، بی اور سی کلاس قسم کے ایڈز کا مجموعہ ہے لیکن ایک بات عرض کیے دیتا ہوں کہ پی ٹی آئی کی ساری مہم ایک خطرناک تکنیکی غلطی کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی میڈیا مہم کے ذمہ داران کو چاہیے کہ انا کا مسئلہ بنائے بغیر میری معروضات پر توجہ فرمائیں اور اگر وہ پاکستان اور عمران کے ساتھ مخلص ہیں تو فوری طورپر تصحیح کرلیں۔ یادرہے کہ ووٹر کسی نام یا چہرے پر ٹھپہ نہیں لگاتا بلکہ ’’انتخابی نشان‘‘ اس موقعہ پر فیصلہ کن اور اہم ترین ہوتا ہے‘ اس لیے ہراشتہار میں خواہ اخبار میں ہو یا ٹی وی پر …’’انتخابی نشان‘‘ کو ہی سب سے زیادہ نمایاں اور جلی ہونا چاہیے۔ اسے اس طرح نمایاں کریں، اتنی بار دہرائیں کہ عام ووٹر کے لاشعور میں سرائیت کرجائے۔ پی ٹی آئی کے لیے تو یہ ویسے بھی بے حد اہم اور ضروری ہوگا کیونکہ پیپلزپارٹی کے انتخابی نشان تیر، تلوار اور ن لیگ کے انتخابی نشان ’’شیر‘‘ وغیرہ کے برعکس پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ نسبتاً بہت ہی نیا اور عام ووٹر کے لیے خاصا نامانوس ہے‘ سو کوشش یہ ہونی چاہیے کہ عمران، پی ٹی آئی اور ’’بلا‘‘ کا نشان لازم و ملزوم اور یک جان دکھائی دیں۔ غور کریں کہ ن لیگ کی مہم میں ’’شیر‘‘ بہت نمایاں جبکہ پی ٹی آئی کی مہم میں ’’بلا‘‘ بہت دبادبا اور اور ثانوی دکھائی دیتا ہے۔ معاف کیجیے میں تو ایسے سیریس ہوں جیسے مجھے الیکشن ہوجانے کا سوفیصد یقین ہو۔ ’’حیدر آباد میں متحدہ کا امیدوار قتل ، اک عہدیدار بھی مارا گیا۔‘‘ ’’لاہور ہائی کورٹ نے منفی رپورٹوں والے امیدواروں کی فہرست طلب کرلی۔ الیکشن 2ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست سماعت کیلئے منظور‘‘ ’’پشاور اور کوئٹہ میں سابق وزراء پر حملے‘‘ ’’نواز شریف ہیلی کاپٹر پر تنہا سفر کریں گے۔ شہباز ساتھ نہیں ہوں گے۔‘‘ ’’5ارب کے 86نادہندگان کی 5برسوں سے بند فائلیں کھل گئیں۔ ‘‘ واقعی چوروں، ڈاکوئوں، ٹیکس چوروں اور منی لانڈرنگ چیمپیئنزکو ’’ویڈآئوٹ‘‘ کیے بغیر الیکشن چہ معنی دارد لیکن پھر بھی انتخابی نشان کی اہمیت کے حوالہ سے جو عرض کیا وہ اپنی جگہ کیونکہ ’’اگر‘‘ جھوٹے سچے الیکشن ہوہی گئے تو ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں