چھوٹی چھوٹی بہت سی باتوں پر تبصرہ اس سے بہت بہتر ہے کہ ایک فضول اور روکھے پھیکے موضوع پر ہی پورا کالم لپیٹ دیا جائے۔ ’’خیرو برکت‘‘ کیلئے شروع کرنا ہوگا مولانا فضل الرحمن کے عظیم الشان جلسہ سے ،جس کی حاضری بلاشبہ بہت ہی متاثر کن تھی لیکن حیرت انگیز یہ کہ اتنے بڑے جلسہ میں ’’عوام‘‘ نام کی کوئی شے دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دی۔ یہ عوام نہیںخواص بلکہ خاص الخاص پرہیز گار اور صحت مند قسم کے حضرات کا ہجوم تھا جس میں سٹریل مریل گنہگار عوام سر ے سے شریک ہی نہیں ہوئے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے بارے میں عام آدمی کہتا ہے کہ ان کے نہ حالات ہم جیسے ہیں نہ حلیے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں بہت سے موضوعات کو عزت بخشی جن میں سے کچھ تو ایسے ہیں جنہیں بائی پاس کرکے گزر جانا ممکن ہی نہیں مثلاً فرمایا ’’جنوبی ایشیا آتش فشاں پر کھڑا ہے‘‘۔ جنوبی ایشیا کی تو خبر نہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ پاکستان کے مراعات یافتہ طبقات ایک عرصہ سے آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھے پکنک منا رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہ آتش فشاں مردہ ہوچکا ہے جبکہ میرے نزدیک نہ صرف یہ آتش فشاں زندہ ہے بلکہ میں اسے مستقبل قریب میں آگ اگلتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس ملک کے حکمران طبقات بھنور میں بیٹھ کر کینڈل لائٹ ڈنر سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن کم از کم مجھے عشروں پر محیط یہ ڈنر زیادہ عرصہ چلتا دکھائی نہیں دیتا۔ مولانا کی معصومیت ملاحظہ ہو کہ یہ بھی کہہ گزرے کہ …… ’’ملک کی تباہی کی ذمہ دار 65سال سے ملک پر مسلّط قوتیں ہیں‘‘ حضور کتنی آسانی و فراوانی سے بھول گئے کہ خود بھی انہیں قوتوں میں شامل ہیں لیکن ہماری سیاست میں سب چلتا ہے۔ جن کے ادوار میں چھانگے مانگے متعارف ہوئے، فارن کرنسی اکائونٹ منجمد کیے گئے، کپڑوں سے زیادہ SRO تبدیل کرکے دیہاڑیاں لگائی گئیں۔ خود سوزیوں کا کلچر متعارف ہوا، ایجنسیوں سے بریف کیس وصولے گئے۔ وہ بھی خود کو ’’شیرشاہ سوری‘‘ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سب ’’سوری‘‘ نہیں، شیر شاہ Sorry ہیں۔ پھر فرماتے ہیں ’’پاکستان میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔‘‘ اس ملک کا جغرافیہ تو بگڑ ہی چکا، کم از کم اس کی تاریخ تو نہ بگاڑیں۔ پاکستان کیا پورے عالم اسلام میں مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی کوشش تو کب سے کامیاب ہوچکی حضور! ہم تو وہ بدنصیب ہیں جو اپنی گلیوں محلوں تک کی سطح پر بھی تقسیم ہوچکے۔ جہاں تک تعلق ہے گیس معاہدہ میں کمیشن کا تو ’’ڈیزل‘‘، پٹرول، گیس وغیرہ میں یہ سب چلتا ہے۔ ہمارے ہاں تو مقدس ترین مشن بھی کمیشن کی بنیادوں پر ہی استوار ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو کالم میں سے ’’حصہ بقدر جثہ ‘‘پیش کرنے کے بعد چلتے ہیں، اپنے بزرگ بلکہ عمررسیدہ الیکشن کمیشن کی طرف جس نے عوام کو یہ ناقابل یقین قسم کی خوشخبری سنائی کہ ’’امیدواروں کی بے رحمانہ جانچ پڑتال ہوگی‘‘ تو ’’خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔‘‘ لیکن نہ گھوڑا دور نہ میدان۔ دیکھتے ہیں الیکشن کمیشن کون سا تیر چلاتا اور کس آدم خور شیر کا شکار کرتا ہے کہ منی لانڈرنگ کے چیمپئنز سے لے کر ایجنسیوں سے رقمیں بٹورنے والے قرضہ خوروں اور ڈیفالٹرز تک بہت سے کاری گر، فنکار اور دست کار میدان میں موجود ہیں۔ گردنیں نہیں ’’گاٹے‘‘ گلوٹین کے نیچے آئے تو دیکھیں گے جو کم از کم مجھے تو ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ آخر پر چلتے ہیں اداکارہ میرا کی طرف جو عمران خان کے مقابلہ پر انتخاب لڑنے کی خواہش مند تھی لیکن آخری خبر یہ ہے کہ اس کے حصہ میں ہمارا دوست شفقت محمود آیا۔ سلیم کرلا، امبر شہزادہ، ایم ڈی خان اور اسی قسم کے کئی دلچسپ کردار ہماری انتخابی سیاست کی رونق رہے ہیں۔ ایک بابائے اردو بھی ہوا کرتے تھے جن کا نام مجھے اس وقت یاد نہیں آرہا۔ آپ نے ایک بار ملکی صدارت کی امیدواری کا ڈول بھی ڈالا تھا۔ اداکارہ میرا ان میں ایک عمدہ اضافہ ہے۔ میرا کا یوں تو بہت کچھ بہت مشہور ہے لیکن میں صرف دو کا ذکر کروں گا۔ اول یہ کہ وہ لڑائی جھگڑے کیلئے مشہور ہے۔ دوم یہ کہ اس کی انگریزی نے بالی وڈ تا لالی وڈ دھوم مچا رکھی ہے۔ جسے قدم قدم اور بات بات پر لڑنے کی عادت ہو وہ الیکشن کیوں نہ لڑے لیکن لڑنا جیتنے کی ضمانت نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود میرا کی جیت کے امکانات خاصے روشن ہیں بشرطیکہ وہ اپنی تمام تر انتخابی مہم کے دوران انگریزی میں تقریر کریں۔ ہمارا دوست شفقت محمود پی ٹی آئی کی طرف سے امیدوار اور ایک انتہائی پڑھا لکھا دانشور آدمی ہے جس کی ایک اور وجۂ شہرت اس کی انگریزی میں کالم نگاری بھی ہے۔ میرا ’’جانو جرمن‘‘ کی طرح اپنی ایجاد کردہ انگریزی کی ایک پھونک سے شفقت کی خوبصورت ترین انگریزی کا چراغ بجھا سکتی ہے کہ قوم کامیڈی کیلئے ترسی ہوئی ہے۔ رہ گئی شفقت محمود کی تحریک انصاف کی سونامی تو میرا کی سونامی بھی کم نہ ہوگی…… وہ اپنی انتخابی مہم تین شفٹوں میں سال چھ مہینے پہلے شروع کردیتی تو شاید عمران کو بھی ہرا دیتی …بہرحال شفقت محمود کو میرا مبارک ہو اور قوم کو میرا ٹائپ جمہوریت!