"HNC" (space) message & send to 7575

عوام کا احساس کمتری

جاگیردار اور صنعت کار سانپ بن کر ملکی وسائل کے خزانے پر کب تک بیٹھے رہیں گے؟کب تک خود کھاتے اور عوام کو بھوکوں مارتے رہیں گے؟ ایک غدار اور دوسرا بدبودار طبقہ کب تک سیاست پر اجارہ دار بنارہے گا؟اور اقتدار پر بلاشرکتِ غیرے قابض رہے گا؟ سیاست میں عوام کی شرکت اور اقتدار میں عوام کی شراکت کیسے ممکن ہوسکتی ہے؟ صرف ایک ہی صورت ہے کہ عوام … عوام ہونے کے احساس کمتری سے نجات حاصل کرکے ان ’’ سیاسی شہزادوں اور شہزادیوں ‘‘ کے سحر سے باہر نکل آئیں اور ان کی سرکوبی کا سوچ لیں اور اپنے سروں سے کفن باندھ کر خود اپنے قبیلے میں سے کسی سردار کا انتخاب کریں۔ عوام کو خود پر اعتماد کرنا ہوگا اور عوام ہونے کے احساس کمتری کے اندھے کنوئیں سے باہر نکلنا ہوگا۔ عوام کو خود اپنے آپ پر اپنا ایمان بحال کرنا ہوگا کہ پاکستان محض پہاڑوں ، دریائوں ، میدانوں اور صحرائوں کے مجموعے کا نام نہیں۔ملک عوام سے ہوتے ہیں بلکہ عوام ہی ملک ہوتے ہیں اور ملکوں کے مالک بھی۔ اس ملک کے اصل مالکوں کو اپنی ملکیت کے حصول کی مقدس جنگ لڑنا ہوگی لیکن احساس کمتری میں مبتلا لوگ اپنے جائز حقوق کی جنگ کبھی نہیں لڑسکتے۔ دو نمبر ’’معززین‘‘ سے معرکہ آرائی کے لیے لازمی ہے کہ عوام خود کو معزز ، محترم اور معتبر سمجھیں کہ دراصل صرف عوام ہی معزز ، محترم اور معتبر ہوتے ہیں۔ عوام کا یقین اس حقیقت پر غیر متزلزل ہونا چاہیے کہ جنہیں وہ ’’ خاندانی ‘‘ اور ’’ اشرافیہ ‘‘ سمجھتے ہیں وہ دراصل ’’غیر خاندانی ‘‘ اور ’’ طبقہ دلالیہ ‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ ان میں سے بھاری ترین اکثریت کا تعلق ان دلالوں کے ساتھ ہے جو اس دھرتی کے بردہ فروش اور فرنگی کے ایجنٹ تھے۔ان لوگوں کے شجرے اتنے شرمناک ہیں کہ ان کے مقابلے پر ہیرا منڈی کا ماما مودا بھی کہیں زیادہ معزز دکھائی دیتا ہے۔یہ ان لوگوں کی اولادیں ہیں جنہوں نے وطن اور اہل وطن کی غلامی کے عوض اپنی ’’ محدود آزادی ‘‘اور عوام کی بے حرمتی کے عوض اپنے لیے وہ عزت کمائی جسے پامال کرکے اپنی گزشتہ نسلوں کی بے حرمتی کا انتقام لینا ہی عوام کا ایجنڈا ہونا چاہیے۔ہمیں اپنے بزرگوں اور بچوں کی بے حرمتی کا بدلہ لینا ہوگا۔ عوام کو اپنی عزت داری پر یقین آنا چاہیے اور یہ جان لینا چاہیے کہ یہ ’’ ناخالص خواص ‘‘ ان کے خون پر پلنے والے غلیظ کیڑوں اور ناپاک پیرا سائٹس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔ عوام پیدا (Produce) کرتے ہیں۔ خوص اسے فنا کے گھاٹ اتارتے ہیں ،غیر ملکی بنکوں میں جمع کرتے ہیں۔ عوام دینے والے اور خواص لینے والے ہیں۔ عوام تخلیق کار اور خواص تخریب کار ہیں۔ ان مشٹنڈوں میں سے کون ہے جو ہاتھ کی کمائی کھاتا ہو؟ اور جس کے پیٹ میں رزق حلال جاتا ہو؟ عوام کمانے کے باوجود احساس کمتری میں مبتلا کیوں؟ اور خواص کھانے کے باوجود احساس برتری کا شکار کیوں؟ اور وہ کون بدبخت تھا جس نے کام کرنے والے کو ’’ کمی ‘‘ قرار دیا؟ کام کرنے والوں کو ’’ کمی ‘‘ اور حرام کھانے والوں کو ’’ خاندانی‘‘ بتانے والے بدباطنوں کی مکمل بربادی کے لیے اس ملک کے کمیوں کو خود اپنے اندر سے ’’ لیڈر شپ‘‘ پیدا کرنی ہوگی جو کم از کم ان کے دکھوں اور مسائل سے تو واقف ہو۔ منافق اور معذرت خواہ متوسط طبقے کو متحرک ہونا ہوگا اور ابن فلاں ، بنت فلاں کو فنا کرکے ایک نئے خود مختار ، آزاد اور طاقتور پاکستان کی بنیاد رکھنا ہوگی۔ اس ملک کے کسانوں ، مزدوروں ، موچیوں ، نائیوں ، دھوبیوں ، جلاہوں ، خوانچہ فروشوں ، چھوٹے دکانداروں ، ریڑھے تانگے والوں ، پروفیسروں ، کلرکوں ، سکول ٹیچروں ، غرضیکہ ان سب ’’ کمیوں ‘‘ کو اپنے کمی ہونے پر فخر کرنے کا ہنر سیکھنا ہوگا اور نسل در نسل حرام کھانے والے خاندانیوں کو ان کے شرمناک شجروں سمیت چوراہوں میں لانا ہوگا۔ نظام بدلنے کے لیے کسی تیسری طاقت کا انتظار کیسا؟ کہ عوام ہی پہلی ، دوسری اور تیسری طاقت ہیں بشرطیکہ عوام احساس کمتری کی دلدل سے باہر نکل آئیں اور اپنے دشمن طبقات کے ہر نمائندے کو مسترد کردیں۔ خواہ کوئی جاگیردار ہو یا سرمایہ دار۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں