خوشبو بڑی ظالم چیز ہے ۔ کہیں جا رہے ہیں، بیٹھے ہیں، لیٹے ہیں، کچھ سوچ رہے ہیں، کام میں مصروف ہیں ، اچانک ایک جھونکا آئے گا اور دماغ کہاں سے کہاں بھٹکنے لگے گا۔ جب یہ ہو گا تو جاتے جاتے ٹکرایا جا سکتا ہے ، بیٹھے بیٹھے لیٹا جا سکتا ہے ، لیٹے لیٹے کہیں گم ہوا جا سکتا ہے ، سوچتے سوچتے سویا جا سکتا ہے اور آج کیے جانے والے کام کی مصروفیت کل پر ڈالی جا سکتی ہے۔ کسی بھی یاد رہ جانے والی خوشبو، لتا کے گانوں اور گلزار کی شاعری میں بہت قریب کا رشتہ ہے ۔ یہ سب وہی کام کرتے ہیں جو کسی کام کا نہیں چھوڑتے۔
کوئی نیا شیمپو خریدا، سر پہ لگایا اور خوشبو اس پت پاؤڈر جیسی لگی جو بچپن میں ماں لگا دیتی تھیں کہ گرمی دانے تنگ نہ کریں، اور لگا بھی کیا دیتی تھیں باقاعدہ نہلا دیتی تھیں اس پاؤڈر میں۔ جب شیمپو کی خوشبو پہچانی گئی اب اس کے ساتھ ساتھ پورا بچپن نگاہوں میں گھوم جائے گا، نہانے میں صابن لگایا یا ایسے ہی باہر آ گئے وہ شام کو یاد آئے گا۔ شاور کے نیچے کھڑے کھڑے ذہن میں گرمیوں کے سارے کھیل گھوم رہے ہوں گے ۔ ننگے پاؤں گلی میں نکل گئے ، تپتی ہوئی زمین ہے لیکن بس دل چاہ رہا ہے تو چاہ رہا ہے ۔ گھر کے ساتھ ریت پڑی ہوئی ہے ، اس میں پاؤں ڈالا اور گھر بنانا شروع کر دیا۔ ریت اندر سے ٹھنڈی ہے ۔ پاؤں ڈال کر اس کے اوپر دونوں ہاتھوں سے تھپتھپایا، اچھی طرح ریت جمائی اور پھر پاؤں باہر نکال لیا۔ اب گھر تیار ہے ، پھر یار دوستوں کو چیلنج کیا کہ آؤ بھئی دیکھتے ہیں کون زیادہ خوبصورت گھر بناتا ہے ۔ پاس موجود بجری کے چھوٹے ترین ٹکڑے چنے ، ان سے گھر کی سجاوٹ کی، گلی یا گھر میں کوئی پودا لگا ہوا ہے تو اسے ذرا سا توڑ کر اندر باقاعدہ شجر کاری کی، پھر گھر پر تھوڑا سا پانی چھڑک کر اسے فریش لک دی اور تنکے سے گیلی ریت میں نقش و نگار بھی بنا دئیے ۔ اتنی دیر میں سب کے گھر تیار ہو گئے ۔ اب فیصلہ نہیں ہو گا، اب لڑائی ہو گی۔ کسی ایک کا گھر کیسے پیارا ہو سکتا ہے ؟ بھئی بچپن میں ریت کا بنایا گھر اتنا ہی اپنا ہوتا ہے ، جتنی بڑے ہو کر اولاد عزیز ہوتی ہے ، تو بس پھر جھگڑا ہو گا، ایک دوسرے کے گھر پاؤں مار کر توڑے جائیں گے۔ ایک دو بچے ہنستے ہوئے اور باقی سب روتے روتے اپنے گھروں کو لوٹیں گے جہاں ماں سے الگ جوتے پڑیں گے کہ تپتی دوپہر میں کہاں گم تھے ؟ نہانا تمام ہوا، صابن لگایا یا نہیں؟
کسی بھی شہر کے پرانے حصے میں چلے جائیے ، جو اندرون شہر کہلاتا ہے ، ہر گلی کی خوشبو ایک ہی جیسی ہو گی۔ بے شک کسی نکڑ پر حلوائی بیٹھا ہو یا کوئی نالی بہتے بہتے رک گئی ہو تو بھی دماغ میں ایسا ہی کوئی نہ کوئی پرانا منظر گھومنے لگے گا۔ قصہ خوانی بازار، محلہ سیٹھیاں پشاور، اندرون بوہڑ گیٹ، جھک، جہاز محل ملتان، بھاٹی، لوہاری، موچی، شیرانوالہ لاہور، پاکستان چوک، برنس روڈ کراچی، فرید گیٹ، شاہی بازار، پھٹوں والی گلی بہاولپور، کشمیری محلہ سیالکوٹ، کہیں بھی جا کر جو گلیاں ہوں گی اور جو مکان ہوں گے اور جتنا تھوڑا سا آسمان ہو گا وہ ذرا سے فرق کے ساتھ ویسا ہی ہو گا جیسا کسی بھی دوسرے شہر میں ہو سکتا ہے ۔ مکانوں کے اندر ہلکی سی نمی لیے ہوا کی خوشبو، تنگ اور گھومتی سیڑھیاں، کہیں کہیں سے جھانکنے والی دھوپ کی کرنیں، یہ سب آپس میں مل کر بیٹھ جائیں گے اور جو حس رکھتا ہے اس کے تو باقاعدہ جوڑوں میں بیٹھیں گے ۔
مارکیٹ میں گھومتے گھومتے اچانک سامنے سے کوئی گزرا، کسی شناسا پرفیوم سے ماحول معطر ہونے کا احساس ہوا، خوشبو بکھیرنے والا وجود جانے کہاں گیا، اب وہیں کھڑے ہو کر سوچیں یا چلتے رہیں، دماغ ادھر ہی رکا رہے گا۔ پہلی مرتبہ یہ مہک مشام جاں میں کب اتری، یونیورسٹی تھی یا کالج کے دن تھے ، ان دنوں میں گانے کون سے سنا کرتے تھے ، فلمیں کون سی دیکھی جاتی تھیں، سرگرمیاں بلکہ خرگرمیاں کیا ہوتی تھیں، سبھی کچھ ذہن میں بن بادل برسات کے جیسے آتا چلا جائے گا۔ کیسے اہتمام سے تیار ہوا جاتا تھا، کھانے کون سے پسند تھے ، بالوں کا سٹائل کیا بنایا جاتا تھا۔ کتنی مرتبہ سوچا کہ یار تھوڑے زیادہ پیسے جیب میں ہوتے تو کیا کیا نہ کیا ہوتا اور پھر وہ خوشبو آخری مرتبہ کس تاریخ، کس گھنٹے ، کس وقت نصیب ہوئی تھی، آخر کار فل سٹاپ لگ جائے گا۔ بھلا ہو اس صاحبِ پرفیوم کا جو شام کالی کرنے میں اہم کردار کا حامل ہوا۔
کچھ خوشبوئیں بڑی عجیب ہوتی ہیں، یعنی ضروری نہیں کہ ہر کسی کو وہ پسند ہوں۔ پیٹرول، سپرٹ، ہومیو پیتھک دوا، نیل پالش ریموور یا کسی بھی ایسے کیمیکل کی خوشبو اگر کسی کو پسند ہے تو وہ اکیلا نہیں ہے ، دنیا میں اور بہت سے ماتھوں پر یہی لکھا ہو گا۔ ہومیو پیتھی سے تو پرانے مڈل کلاسیوں کا ویسے بھی دیرینہ رشتہ ہے ، جس بچے کی پسندیدہ ٹافی ہومیو پیتھک گولیاں ہوں اور وہ انہیں دادا نانا کی الماریوں میں سے نکال نکال کر پھانکتا ہو وہ کم بخت اور پسند بھی کیا کرے گا۔ نزلے زکام بخار کے وقت جب دادی ڈھونڈتیں کہ کچھ گولیاں ملیں اور ان پر دوا ڈال کر دی جائے ، گولیاں ندارد، تو چینی پر دوا کے چند قطرے ڈال کر دے دیتیں، اللہ شفا دے ہی دیتا تھا۔ دادی سر میں ناریل کا تیل لگاتی تھیں، ان کے بعد جب تک وہ گھر رہا، ان کی الماری میں برسوں وہی مہک رچی رہی۔ آج بھی ناریل کی خوشبو اور دادی اکٹھے آتے ہیں۔
لیکن سب کچھ خوشبو سے جڑا ہوا نہیں ہوتا۔ بعض قصے بُوسے بھی یاد آتے ہیں۔ آنسو گیس کی بُو کہیں آئے گی بلکہ خبر بھی چلے گی تو وہ گیارہ بارہ برس کا بچہ یاد آئے گا جس کے سامنے ایک جلوس میں باقاعدہ شیلنگ ہوئی، گولیاں چلیں اور وہ سانس لینے سے بھی بیزار کسی مسجد میں پہنچایا گیا۔ جہاں وہ بار بار حوض میں سر منہ ڈبوتا ، آنکھیں اور ناک رگڑتا ، کھانس کھانس کے گویا موت کے دہانے پر جا پہنچا اور پھر بے ہوش ہوگیا جب آنکھیں کھولنے اور چلنے کے قابل ہوا تو اپنے گھر پہنچا۔ بارود کی بو آئے گی تو وہ دھماکے بھی یاد آئیں گے جو مال روڈ پر ہوئے ، وہی بچہ بڑا ہو کر کسی کام سے ڈرگ ٹیسٹنگ لیب میں بیٹھا تھا تو ایک دھماکہ ساتھ والی عمارت میں ہوا اور جس کمرے میں وہ تھا اس کی پوری دیوار جیسے دھول بن گئی ، ہوا میں بارود کی بُو بھر گئی لیکن گورے کے دور کی بنی دیوار گرنے سے بچ گئی، وہ بڑا ہو چکا ہوا بچہ بھی بچ گیا جو اس وقت لکھ رہا ہے ۔ لکھتے لکھتے اسے ماڈل ٹاؤن Kبلاک والا دھماکہ بھی یاد آیا، جب اس کے دفتر کی کھڑکیاں سو دو سو گز دور ہونے کے باوجود ٹوٹ گئی تھیں، اور نہ جانے کیا کیا کچھ یاد آئے گا۔
جب وہ یہ سب سوچ رہا ہو گا تو پارا چنار میں ایک اور دھماکے کی خبر اس کی منتظر ہو گی۔ اسے خیال آئے گا کہ اگر پارا چنار میں کوئی بچہ ان بہت سارے دھماکوں سے بچ بھی گیا، تو کیا وہ کبھی یہ سب کچھ بھلا سکے گا؟ اس کی یادوں میں بسی خوشبوئیں گلابوں یا موتیے کی ہوں گی یا بارود کی ؟ بڑاہو کر وہ قلم اٹھائے گا یا بندوق تھامے گا؟ اگر قلم اٹھا بھی لیا تو لکھنے کے لیے اس کے پاس خون اور کارتوسوں میں لپٹی ہوئی بھیانک یادوں کے علاوہ کچھ اور کیا ہو گا؟ کیا اس کے پاس کسی پیاری خوشبو کی مٹی ہوئی، میلی سی یاد بھی باقی ہو گی؟ اور اگر یہ سب کسی کے پاس ہوا، اور وہ پاراچنار ہی میں ہوا، تو وہ کب تک باقی ہو گا؟