’’ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی!‘‘

ناصر کاظمی تب تک نہیں پسند آتا جب تک آپ رات کو پسند نہ کرتے ہوں، بقول شخصے آپ اے حمید کی طرح کھمبے کو دیکھ کر رومینٹک نہ ہو جاتے ہوں، آپ کا چاند سے کچھ خاص لگاؤ نہ ہو، رت جگا کرنے والے نہ ہوں، اندھیرے میں پیدل چلنا فیسینیٹ نہ کرتا ہو، پکے آوارہ گرد نہ ہوں، کوئی نہ کوئی علت نہ پال رکھی ہو، کوئی نہ کوئی کل ٹیڑھی نہ ہو۔ کوئی داغ ہو، کوئی گھاؤ ہو، کوئی ٹینشن ہو، کسی فکر میں ہوں اور سوچتے رہیں، ناصر کاظمی تب آہستہ آہستہ کھلتا چلا جاتا ہے ۔ شاکر علی کی تصویر دور سے دیکھی جائے تو بالکل سادہ سی عام سی تصویر نظر آئے گی۔ وہ صادقین کی طرح چیخ کر پکارے گی نہیں کہ آؤ مجھے غور سے دیکھو۔ اسے دیکھنے کے لیے آپ کو موڈ بنانا پڑے گا۔ وہی موڈ آپ سے ناصر کاظمی کو پڑھوائے گا۔ 
تو آوارہ گرد ہونا لازم کیوں ٹھہرا کہ آپ مست ہونا جانتے ہوں۔ آپ جانتے ہوں کسی ایک لفظ پر جھوما کیسے جا سکتا ہے ۔ پنکھے کی مختلف آوازوں میں آپ موسیقی ڈھونڈ لیتے ہوں، آپ کی ٹانگیں ایک دھن پر کئی روز خود بہ خود ہلتی رہیں، کوئی ایک شعر دماغ میں پھنس جائے ، سوئیں تب بھی پیر ہلاتے رہیں، تب ناصر کاظمی پسند آنے لگے گا۔ تب معلوم ہو گا کہ "سو گئے لوگ اس حویلی کے ، ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی" میں کیا حسن ہے ۔ کہنے والا کیا کہہ گیا، نصابی کتابوں کی طرح سمجھانے سے کام بنتا نہیں ہے ، یہ شاعری تو موڈ کی شاعری ہے ، افتاد کی شاعری ہے ۔ سادہ الفاظ ہیں، سادہ خیال ہے ، اب دماغ کے پیچ پر منحصر ہے کہ ایک شعر کہاں کہاں کی سیر کروا لائے ۔ 
جسے سریلا دماغ کہتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے ، اسے سمجھتے ہیں۔ آب حیات میں مولانا محمد حسین آزاد لکھتے ہیں کہ امیر خسرو ایک دن کسی بازار سے گزرے ۔ جو آدمی روئی کوٹ کوٹ کر برابر کرتا تھا جیسے آج کل ہم رضائیوں کے لیے کرواتے ہیں اسے دٌھنیا کہتے تھے ۔ تو ایک دُھنیا اپنی دوکان میں روئی دُھنک رہا تھا، کسی نے کہا کہ جس دُھنیئے کو دیکھو ایک ہی انداز پر روئی دُھنکتا ہے ۔ سب ایک ہی اُستاد کے شاگرد ہیں، کسی نے کوئی اور بات کی، ایک صاحب کہنے لگے کہ دھنیا جس تال پر روئی دھنکتا ہے اسے آپ لفظوں میں کیسے لکھ سکیں گے ، امیر خسرو نے تال بتائی؛ "درپئے جاناں جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، جاں ہم رفت، رفت رفت جاں ہم رفت، ایں ہم رفت و آں ہم رفت، آنہم رفت آنہم رفت، اینہم آنہم اینہم آنہم رفت، رفتن، رفتن، رفتن، دہ دہ، رفتن دہ، رف، رفتن دہ۔" ناصر کاظمی کو دل کے قریب لانے کے لیے اس قسم کی حرکتیں ضروری ہیں۔ یہ پیدا نہیں کی جاتیں یہ خود پیدا ہوتی ہیں، اکثر اوقات تو بائے ڈیفالٹ ہوتی ہیں۔ 
جب ناصر کاظمی کہے کہ میں ہوں رات کا ایک بجا ہے ، خالی رستہ بول رہا ہے ، تب ضروری ہے کہ آپ کی گھڑی میں اس وقت رات کے کم از کم تین بجے ہوں۔ جو سناٹا اس زمانے میں رات ایک بجے میسر ہو گا وہ آج کل تین بجے بھی مشکل ہے لیکن کوشش کر دیکھیے ۔ علت کا ذکر اوپر اس لیے کیا تھا کہ اور کچھ نہیں تو سگریٹ ہی پیتے ہوں۔ تو اب تین بجے واک کرنا ضروری نہیں۔ آپ بستر میں دبک کر لیٹے ہیں، کتاب پڑھ رہے ہیں، صحن کا چکر لگا آئے ، چھت پر سگریٹ پینے چلے گئے ، کھڑکی سے باہر دیکھ لیا، تب یہ ہو گا کہ اچانک دھم سے یہ شعر آپ کے دماغ میں کود کر اترے گا اور اس ایک لمحے میں تمام عمر کا گیان آپ کے حوالے کر کے چلا جائے گا۔ گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر۔ 
سانپ سے یاد آیا جو میجک رئیلزم آج ہم مارکیز، موراکامی وغیرہ میں ڈھونڈتے ہیں وہ بھی ناصر کاظمی کی شاعری میں جا بجا بکھرا نظر آتا ہے اور اس سے پہلے یہ سبھی کچھ ہماری داستانوں میں موجود تھا۔ فرق کرافٹ کا ہے ۔ کسی چیز کو پیش کرنے کا ہے ۔ بڑے بوڑھے وہ کہانیاں بغیر کوئی ٹیکنیک استعمال کیے بالکل سادگی سے سنا دیتے تھے ، نیا ادیب نفسیات جانتا ہے ، لکھنے کا ڈھنگ جانتا ہے ، لکھے کو سنوارنے کے لیے ایڈیٹر موجود ہوتے ہیں تو جو چیز نکل کر سامنے آتی ہے وہ شاندار ہوتی ہے ۔ کاظمی صاحب کی ایک نظم میں سے کچھ حصہ پیش خدمت ہے ، ذرا فضا دیکھیے بلکہ پورا ماحول چیک کریں؛
یہ مرے ساتھ چل رہا ہے کون / کس نے مجھ کو ابھی پکارا تھا / سامنے گھورتی ہیں دو آنکھیں / اور پیچھے لگی ہے کوئی بلا / ڈوبی جاتی ہیں وقت کی نبضیں / آ رہی ہے کوئی عجیب ندا / اک طرف بے اماں اجاڑ مکاں / اک طرف سلسلہ مزاروں کا / سرنگوں چھتریاں کھجوروں کی / بال کھولے کھڑی ہو جیسے قضا / یہ دیا سا ہے کیا اندھیرے میں / ہو نہ ہو یہ مکان ہے تیرا / دل تو کہتا ہے در پہ دستک دوں / سوچتا ہوں کہ تو کہے گا کیا / جانے کیوں میں نے ہاتھ روک لیے / یہ مجھے کس خیال نے گھیرا / کسی بے نام وہم کی دیمک / چاٹنے آ گئی لہو میرا / دشت شب میں ابھر کے ڈوب گئی / کسی ناگن کی ہولناک صدا / تیرے دیوار و در کے سایوں پر / مجھ کو ہوتا ہے سانپ کا دھوکا / بوٹا بوٹا ہے سانپ کی تصویر / پتا پتا ہے سانپ کا ٹیکا / آسمان جیسے سانپ کی کنڈلی / تارا تارا ہے سانپ کا منکا / آ رہی ہے لکیر سانپوں کی / ہر گلی پر ہے سانپ کا پہرا / سانپ ہی سانپ ہیں جدھر دیکھو / شہر تیرا تو گڑھ ہے سانپوں کا ۔اب یہ جو اتنی ساری بلائیں ہیں، سانپ ہیں، ناگن ہے ، رات کا ایک پورا منظر آنکھوں کے سامنے بن جاتا ہے ، کون کرے گا ایسی جادو بھری شاعری؟ 
رات کتنی گزر گئی لیکن، اتنی ہمت نہیں کہ گھر جائیں۔ کس کس رخ سے ناصر کاظمی نے رات کو برتا ہے ۔ گھر جانا سکون تلاش کرنے کی علامت ہے ، جس روح کو گھر میں سکون میسر نہیں وہ کیسے ہمت کرے کہ گھر جائے ۔ پریشانیوں سے فرار، الٹی سوچوں سے فرار، سیدھی سوچوں سے فرار، بس گھومتے رہا جائے ، تمام رات کاٹی جائے اور پھر یہ شعر پڑھا جائے تو سمجھ بھی آئے اور یورپ میں جو ہپی ہوتے تھے ، خود کو ان کے قریب بھی محسوس کیا جائے ۔ناصر کاظمی کی ایک باریک سی کتاب پر لکھنے کے لیے دو ہزار صفحے بھی کم پڑیں گے ۔ کلام الملوک ملوک الکلام ہوتا ہے ۔ ایک سادہ سا شعر، سامنے کی بات، عام سے لفظ، آسان سا خیال ۔۔۔ لیکن کہا کیا جا رہا ہے ، ہائے ہائے ، پوری کیفیت بیان ہو جائے ایں خیال است و محال است و جنوں! 
میر تھا، غالب تھا، جس شاعر سے قوم فری ہو جائے وہ "تھا" ہو جاتا ہے ۔ اسے "آپ" یا "تھے " کر کے مخاطب نہیں کرتے ۔ تو ان سب سے اور ناصر کاظمی سے بے تکلفی رکھے بغیر، آپ جناب کے چکر میں بندہ گرِپ نہیں کر پاتا۔ چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں، جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا۔ اس سے زیادہ بے اختیار شعر کیا ہو سکتا ہے ۔ کہاں تک لکھا جائے ۔ کیا کیا لکھا جائے ، لکھ رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ ۔۔۔ الخ

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں