سلمان خان ایک برانڈ چلاتے ہیں بی انگ (BEING)ہیومن کے نام سے ، اس کے کپڑے عام طور پر ٹھیک ٹھاک مہنگے ہوتے ہیں۔ اس کی آمدن کچھ چیریٹی کے کاموں میں بھی استعمال کی جاتی ہے اس لیے کپڑے مہنگے ہونے کا اخلاقی جواز بن جاتا ہے ۔ گذشتہ برس بیٹی فیس بک پر تھی تو اس نے دیکھا کہ ایک جگہ اسی برانڈ کی ٹی شرٹس مل رہی ہیں، ریپلیکا (نقل) تھیں لیکن نقل بمطابق اصل کا دعویٰ تھا۔ بابا کی سالگرہ آنے والی تھی۔ آئلہ بی بی نے کالے رنگ کی ایک ٹی شرٹ بک کروا دی۔ سالگرہ کے دن ڈیلیور ہونا تھی، ہو گئی۔ اب ہوتا یہ ہے کہ آن لائن آرڈر منگوایا جائے تو اس کا ڈبہ کھول کر تبھی دیکھ سکتے ہیں جب آپ نے ادائیگی کر دی ہو۔ پیسے دے دئیے ، ڈبہ اندر آ گیا، بابا دفتر تھے ، ماں بیٹی نے ڈبہ کھولا تو اندر سے جو شرٹ نکلی وہ تو بابا کو دور سے بھی سلام نہیں کرتی تھی۔ وہ اس ناپ کی تھی کہ آئلہ بی بی خود پہنیں یا بارہ تیرہ برس کا کوئی بھی بچہ پہن لے ۔ پھر اس پر بئینگ ہیومن بھی اس قدر گھٹیا چھاپے سے لکھا تھا کہ اس سے بہتر بندہ "ان ہیومن" خود مارکر سے لکھ دے ، رنگ تو چوکھا ہو گا۔ تیسری گڑبڑ یہ تھی کہ ٹی شرٹ خاصے موٹے کپڑے کی تھی۔ اب چونکہ آدھے بازو کی تھی تو گرمیوں اور سردیوں کے لیے یکساں بے سود تھی۔ الحمدللہ کھینچ تان کر بہار میں پہنی جاتی ہے اور بھیجنے والوں کو دعائیں ملتی ہیں۔
ایک مرتبہ اوما (زندگی کی ساتھی) نے اپنے لیے ایک لان کا سوٹ منگوایا۔ اچھا خاصا مشہور برانڈ تھا۔ جب پہنچا تو پیکٹ اور راز ایک ساتھ کھلا کہ کالے کی جگہ کھٹے نارنجی رنگ کا سوٹ بھیج دیا گیا ہے ۔ کچھ لوازمات بھی شارٹ تھے ۔ وہ اس معاملے میں اللہ والی ہیں، چار حرف بھیج کر اگلا سوٹ منگوانے کا سوچنے لگیں اور وہ جوڑا کسی حق دار کو نصیب ہو گیا۔ مومن لیکن ایک ہی بل سے تیسری مرتبہ اس عید پر ڈسا گیا۔ وہی فیس بک تھا، وہی آن لائن شاپنگ کے پیجز تھے مگر اس بار پسرنے والے بیٹی کی جگہ بابا تھے ۔ بابا نے دیکھا کہ ایک انتہائی اچھی فنشنگ والا کرتہ ہے ، نیلی جینز کا، ایکسپورٹ کوالٹی والی مشینوں سے سلائی کی ہوئی ہے ، مغزی اور آستینوں میں اندر کی طرف اجرک کی باریک سی پٹی ہے ، آہا، کیا کنٹراسٹ تھا۔ نیلا کرتہ، آستین پلٹیں تو اجرک کی جھلک، گویا موج ہی ہو گئی۔ پھر جینز بھی سٹون واشڈ تھی، مطلب ایک دم انت قسم کی چیز تھی۔ قیمت دیکھی تو وہ بھی واجبی سی، یہی بارہ تیرہ سو روپے ، اتنے تو فقیر افورڈ کر سکتا تھا۔ تو بس طے کر لیا کہ استاد اس مرتبہ عید اسی کرتے میں کرنی ہے ۔ آرڈر کرتے کرتے نظر پڑی تو معلوم ہوا کہ سفید پائجامہ بھی ساتھ دیا جائے گا اگر پانچ سو روپے مزید دے دئیے جائیں۔ پائجاموں کے معاملے میں ہر شریف آدمی کا قافیہ ویسا ہی تنگ ہوتا ہے جیسا جون ایلیا مرحوم کا تھا۔
یاد نہیں کہیں پڑھا تھا یا صرف سنا کہ جون ایلیا ایک مرتبہ کسی دوست سے کہنے لگے ، صاحب میرے پاس اب پینتیس کرتے اور صرف ایک پائجامہ رہ گیا ہے ، سامنے سے جواب آیا قبلہ اسے بھی کسی کو بخش دیجیے تاکہ کم از کم ایک طرف سے تو یکسوئی ہو۔ تو اس یکسوئی میں کچھ دسراہٹ پیدا کرنے کے لیے سوچا کہ یار کیا حرج ہے ، پانچ سو روپلی میں ایک بنا بنایا پائجامہ آ جائے گا، ہر کرتے کے ساتھ چلے گا اور ریڈی میڈ کی فٹنگ تو ویسے ہی اعلی ہوتی ہے ۔ تو بس یہ سوچ کر اللہ کا نام لیا اور نہایت تفصیل سے آرڈر فارم فل کر کے ‘ نہیں فل کر کے بھی آرڈر نہیں دیا، اسے دوبارہ چیک کیا کہ یار کہیں کوئی غلط اینٹری تو نہیں کی۔ غلط اینٹری سے یاد آیا جب پرانے زمانے میں خط لیٹر بکس میں ڈالے جاتے تھے تو سیانے بزرگ ایک مرتبہ اندر جھانک کر یا کان لگا کر لفافہ گرنے کی آواز ضرور سن لیتے تھے کہ ایویں کہیں اوپر ہی نہ اٹکا رہ گیا ہو۔ تو بھائی نے پوری تسلی کی کہ ایک جگہ بھی ایسی نہ چھوٹ جائے جہاں سے آرڈر میں فی پڑے ، ایکدم پرفیکٹ ہر چیز لکھ کر اوکے کا بٹن دبا دیا۔
اب ایک طویل انتظار تھا۔ یہ سلیکشن مارٹ نامی فرم تھی، کوئی شکیل صاحب ایک دن فون کیے اور پوچھنے لگے کہ آپ نے فلاں کرتے پائجامے کا آرڈر دیا تھا، عرض کیا، جی دیا تھے ، بولے کل ڈیلیور ہو جائے گا، اتنی پے منٹ فلاں وقت تیار رکھیے گا۔ فون بند کر دیا۔ ادائیگی کیا تیار کرنی تھی بھئی دفتر سے چھٹی کر کے صاحب گھر بیٹھ گئے کہ خبر نہیں ڈاک بابو کس وقت آ جائے اور گھر پہ کوئی نہ ہو تو عید بنا کرتہ پائجامہ کیسے منائیں گے ۔ سہہ پہر چار بجے کورئیر صاحب آئے ، پیسے وصولے ، ڈبہ تھما کر چلے گئے ۔ بلّیوں اچھلتے دل کے ساتھ پارسل لیے گھر میں قدم رکھا، گھما کر قمیص پھینکی، ڈبہ پھاڑ کے کرتہ نکالا کہ ذرا ٹرائی کیا جائے ۔ یہ تو کرتی نما کوئی چیز تھی۔ نہ وہ سٹون واش نیلا رنگ تھا، نہ وہ اجرک کی لائننگ تھی، نہ وہ نفیس سلائیاں تھیں اور دامن فقیر کی نیکیوں کے جیسے تھا۔ کرتہ چڑھایا، تنگ دامانی کے باوجود جیسے تیسے پہن لیا تو معلوم ہوا کہ کھڑے رہنے میں تو ایسے ہے جیسے جسم پہ کپڑا مڑھ کے سلوایا گیا ہے ، بیٹھا جائے تو سن ستر کی ٹیڈی قمیصوں کو مات دے ۔ وہیں کھڑے کھڑے بٹوے سے سرجیکل بلیڈ نکالا ( یہ پودوں کی گرافٹنگ میں کام آتا ہے ) دونوں چاکوں کو چار چار انچ چیرا دیا تب جا کے کچھ معاملہ بیٹھتا نظر آیا۔ اب پائجامے کی فکر ہوئی، ڈبے میں تو نہیں تھا۔
نیکر کے اوپر کرتا پہنے باہر گیٹ کا چکر لگایا کہ وہیں نہ گر گیا ہو، پھر لاونج کے دروازے تک سونگھتے ہوئے چکر لگایا، پائجامہ ندارد۔ انہیں شکیل صاحب کو فون کیا، دوسری بار کیا، آٹھویں مرتبہ کیا، حرام ہے کوئی اٹھا لے ۔
اب اصل گیم شروع ہوئی۔ تین دن بعد عید ہے ، پائجامے کے پیسے آپ بھر چکے ہیں، کرتا پہنے کھڑے ہیں، چاک ویسے ہی پھاڑ چکے ہیں کہ کچھ حرکت ممکن ہو، تو اب کیا کیا جائے ۔ ان باکس رابطہ کیا۔ رات کو ایک میسج آیا کہ صبح پائجامہ پہنچ جائے گا اور کرتہ بھی ناپ کا مطلوبہ ڈیزائین والا بھیج دیں گے ۔ دو صبحیں شام ہوئیں، راتیں کالی ہوئیں، "نامہ ملا کوئی نہ کوئی نامہ بر ملا" زیادہ چک چک کی تو بھائی کو انہوں نے بلاک کر دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اب جہانگیر بھائی کو فون کیا۔ وہ بے چارے اوما اور آئلہ کے کپڑے سی کے گھر لا دیتے ہیں۔ دس برس کا ساتھ ہے ، وہ کام آ گئے ۔ کرتے کے چاک سلیقے سے بنائے ، خود ہی کپڑا خرید کے دو عدد شلواریں اسی دن سی لیں، چاند رات کو گھر دے گئے اور فقیر بروز عید ستر پوش ہوا اور اپنے تئیں شکر اپنے رب کا بجا لانے کے قابل پایا۔
اندر کا قصہ یہ بھی ہے کہ ان باکس میسج میں انہیں خوب آگاہ کیا تھا کہ میاں یہ کرتہ بغیر پائجامے کے جسے تم نے بھیجا ہے وہ ایک معقول اخبار میں کالم نویس ہے ، کنزیومر کورٹ میں شکایت کر سکتا ہے اور کچھ نہیں تو سی ایم کمپلینٹ سیل میں شکایت رجسٹر کرا دے گا لیکن انہوں نے سوچا ہو گا ایویں فقٹا آدمی ہے ، کسی جوگا ہوتا تو ایک پائجامے کے لیے اتنا غل مچاتا، کون ایک پائجامے کی ایف آئی آر کٹوائے گا۔ بات بھی ٹھیک ہے ۔ شرم سی آئی اور لب سی لیے ۔ لیکن ایک کالم نویس کا فرض ہے کہ پڑھنے والوں کو اچھے برے سے آگاہ رکھے ۔ تو اے مہربان، جان لے کہ آن لائن دنیا نرا چھل ہے ، کپٹ ہے ، دھوکا ہے ، چاہے تو خود آزما، جو دل مانے تو درویشوں کے حال سے عبرت پکڑ، سودا خریدنا ہے تو خود دکان سے جا کر لے اور ووٹ بینک بنانا ہے تو لوگوں کے گھروں پر جا کے مانگ۔ اس ورچوئل دنیا پہ بھروسہ کرے گا تو نہ ائیرپورٹ پر لوگ لینے آئیں گے اور نہ ہی یہاں الیکشن ہوتے ہیں۔ اللہ بس باقی ہوس!