پسند ناپسند اپنی اپنی ہوتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ ہم رنگوں سے الرجک کیوں ہیں؟ ذرا ایویں آس پاس والوں سے پوچھ کے دیکھیں کہ یار آپ کا فیورٹ رنگ کون سا ہے۔ اسی فیصد جواب ملے گا، بلیک۔ باقی زیادہ تر سفید کے حق میں ووٹ ڈالیں گے، مشکل سے پانچ فی صد لوگ دوسرے رنگوں کی طرف آئیں گے۔ مردوں میں آ کے تو معاملہ اور بھی لیٹ جاتا ہے۔ حرام ہے جو کوئی ایک آدمی بھی کہے کہ مجھے لال رنگ پسند ہے، جی میں پیلا رنگ پسند کرتا ہوں۔ من حیث القوم ہم سب پہ فرض ہو چکا ہے کہ ہر وقت ہم لوگ گرے، نیلے یا کالے رنگ کی پتلونیں پہنتے رہیں، سفید یا کریم رنگ کی قمیصیں ہوں، کوئی ایک آدھی لائنوں والے ڈیزائن کی سترہ ٹائیاں ہوں، سارے موزے کالے یا نیلے ہوں، سارے جوتے بھورے یا کالے ہوں، موٹر سائیکل ہو تو وہ کالی، گاڑی لی جائے تو وہ کالی یا سفید، یہاں تک کہ جیب سے پرس نکال کے دیکھ لیں وہ بھی کالا ہو گا۔ عینک کا فریم بھی کالا، شیشے بھی کالے... میرا کالا ہے دلدار...
ایک دن غلطی سے ایک پینٹ خرید لی، جیسا وہ کمانڈو رنگ ہوتا ہے، سبز سا میل خورا سا، لیکن اس پہ کیموفلاج کی جگہ پھول بنے ہوئے تھے۔ یعنی اس کا تھیم یہ تھا کہ ضروری نہیں ہر وقت کمانڈو پتلون پہنی جائے کیمو فلاج پرنٹ پہننے والا ہی ماچو مین ہو گا، پھول بھی پہنے جا سکتے ہیں، اسی تھیم میں، انہیں رنگوں میں، تو وہ بس غلطی سے گھر آ گئی۔ ''بابا، یہ کیسی پینٹ ہے، آپ یہ نہیں پہنیں گے، او کے‘ ہمارے ساتھ جاتے ہوئے نہیں پہنیں گے‘‘۔ یہ بیٹی کا رسپانس تھا۔ اوما تو بے چاری اللہ والی ہے، اس نے مسکرا کے بات جانے دی، ''وئیرڈ‘‘کا لفظ بولا‘ اس کے بعد میاں کو اپنے نصیبوں پہ چھوڑ دیا۔ بھائی کہنے لگا، ''یار بھیا، ابھی تو میں نے تجھے بہت سے لوگوں سے ملوانا تھا، انہیں معلوم ہے میرا بھائی ''دنیا‘‘ میں لکھتا ہے، اب میں ذرا اس سارے معاملے پہ دوبارہ سوچوں گا۔ ایک اور دوست نے پہنے دیکھی، ''مطلب سیریسلی حسنین، اب تُو پھولوں والی پینٹ پہنے گا؟" استغفراللہ، بھائی اب تو پہنے گا، اب تو اس کے ساتھ لال قمیص بھی پہنے گا، ایسے تھوڑی ہوتا ہے یار، یعنی مرد ہیں تو کیا ٹھپہ لگوا کے آئے ہیں کہ صرف بزرگانہ کپڑوں میں ہی دکھائی دینا ہے؟ چٹے بال ہو گئے، مان لیا، تھوڑے وقت سے پہلے ہو گئے، بندہ اب رنگین کپڑے بھی نہ پہنے۔
دیکھیے ایک لمحے کو یہ بات ذہن میں لائیں کہ ایک لائبریری ہے اور اس میں ہم کھڑے ہیں۔ ساری کتابیں کالے یا سفید گرد پوش کے ساتھ ہیں۔ قبرستان لگے گا نا کتابوں کا؟ یا کسی ایک کمرے میں کبھی کالا اور سفید سیٹ اپ بنا کے دیکھ لیجیے، بہت جلد ہی وہ کمرہ پورا کا پورا کھانے کو آئے گا۔ رنگ بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ہم نے یہ چیز تھوڑا با عزت نظر آنے کے لیے اپنے آپ پہ مسلط کر لی ہے کہ رنگوں کی دنیا سے بھاگ جاؤ، لوگ سمجھیں گے بہت سوبر انسان ہے۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے، یہ سنجیدہ پن پوری زندگی کا روگ بن جاتا ہے۔ یار جو بندہ لال موزے نہیں پہن سکتا، اس کی کیا زندگی ہے؟ مطلب وہ پوری زندگی کے لیے ایک ایسی پابندی کا شکار ہو گیا جو خواہ مخواہ کی تھی؟ یہ جو ہم کہتے ہیں، بہت بوریت ہو گئی، کچھ نیا پن نہیں ہے، کیا کریں، کدھر جائیں، اس میں بہت زیادہ حصہ رنگوں سے دور بھاگنے کا ہے۔ نہ صرف دور بھاگنے کا بلکہ دوسروں کو بھی دور رکھنے کا۔ کسی دن ماں پیلا جوڑا پہن لے گی تو بیٹیاں شروع ہو جائیں گی، ہائے اماں یہ کیا پیلا پٹک رنگ پہن لیا ہے، آپ تو گرے پہنا کریں، سوٹ کرتا ہے۔ گرے رنگ تو بھائی سوائے لندن کی سردیوں کے کہیں بھی سوٹ نہیں کرتا، وہ تو ہمارا رنگ ہی نہیں ہے۔ اجرک میں گرے رنگ ہے؟ لاچے کرتے میں کہیں گرے رنگ ملتا ہے؟ رلی میں کتنا سرمئی ہوتا ہے؟ بہاولپور کی عورتیں جو دستکاری آئٹم بناتی ہیں اس میں کوئی ڈل رنگ ہوتا ہے؟ کالاش کی خواتین جو کڑھائیوں والے خوبصورت کالے لباس پہنتی ہیں، ان میں کوئی موتی راکھ ملے رنگ کا ہوتا ہے؟ ہالہ کی ٹائلوں میں کتنا گرے ہے؟ بلیو پاٹری میں کہیں گرے ہے؟ تو یار کیوں اپنی جڑوں سے دور بھاگتے ہو؟
رنگ، پھول، ڈیزائن، خوبصورتی یہ سب سیلیبریٹ کرنے کی چیز ہے۔ ابھی بہت دور نہیں جاتے، وہ آندا تیرے لئی ریشمی رومال کیا تھا۔ مطلب مرد کو تحفہ دیا جا رہا ہے ریشمی رومال کا؟ اس پہ کڑھائی بھی کی گئی ہے ؟ پھر وہ جو کرتے ہوتے تھے جن پہ باقاعدہ بوٹیاں کاڑھی جاتی تھیں، اون کے بنے ہوئے رنگین سویٹر ہوتے تھے ، تکیوں کے غلافوں پہ ستی ساوتریاں پورا دل نچوڑ کے رکھ دیتی تھیں، وہ سب ہماری ہی تہذیب تھی۔ ہمارے تو فن تعمیرات تک میں پھول بوٹے، موٹفس اور پتہ نہیں کیا کیا ہوتا تھا، وہ سب کس کی نذر ہو گیا؟ لال، سبز، نیلے اور پیلے رنگ کے بے شمار شیڈز تو اب خواتین بھی نہیں پہنتیں کہ یہ ''پھٹا‘‘ ہوا رنگ لگتا ہے، یا بہت جٹاکا رنگ ہے۔ بھئی رنگ کوئی بھی برا نہیں ہوتا، بات کیری کرنے کی ہے یعنی آپ اس رنگ کو استعمال کس طرح کر رہے ہیں۔ ایک صرف ایک چھوٹی سی رنگین چیز پوری زندگی میں خوش گوار تاثر لا سکتی ہے۔ مثلاً ایک ڈرائنگ روم ہے ، سارا براؤن اور کریم کلر کے شیڈز میں ہے، جیسا ہمارے اکثر گھروں میں ہوتا ہے ۔ اب اس میں لا کے ایک لمبا سا لال رنگ کا لیمپ رکھ دیجیے ، وہ کیا اٹھ کے سامنے آئے گا! یا وہی ہمارا قومی پسندیدہ گرے رنگ، پوری ڈریسنگ گرے کے شیڈز میں کر کے ایک عدد لال ٹائی لگا لیں، چیختی ہوئی لال ٹائی، آہا، مزے آ جائیں گے۔ یا خواتین جیسے پیلے رنگ سے بھاگتی ہیں، کسی دن پورے سفید لباس کے ساتھ صرف دوپٹہ زرد اوڑھ کے دیکھا جائے ۔ رنگ زندگی میں خود بھرنے پڑتے ہیں، کوشش کی جائے گی تو کچھ ہاتھ آئے گا ورنہ دن بہت ہی کم ہیں استاد، امی کہتی ہیں، بہتی گزر گئی تے تھوڑی رے گئی اے، تو کس کی کتنی گزری یہ کسے پتہ ہے، لال موزے پہنو لال موزے!
بلیک اینڈ وائٹ تصویریں خوب صورت ہوتی ہیں۔ ان میں پراسراریت یہ ہوتی ہے کہ تصویر بنانے والا جو چیز دکھانا چاہتا ہے وہ آرام سے دیکھنے والے کو سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اسی لیے آج بھی بہت سے لوگ فوٹو گرافی کے لیے مونو ٹون میڈیم پسند کرتے ہیں۔ ٹھیک ہو گیا، بات سمجھ میں آ گئی۔ لیکن یہ ہوتا کیوں ہے؟ چکر یہ ہے کہ وہی تصویر اگر رنگین پرنٹ میں لی جائے تو اس میں موجود بہت سے رنگ جو ہیں وہ زندگی کا عکس بن جائیں گے، جیسے ہی رنگ آ گئے، نظریں ڈسٹریکٹ ہو گئیں، بھٹک گئیں، فوکس وہاں سے ہٹ گیا جو فوٹو گرافر دکھانا چاہتا تھا۔
تو رنگوں کا یہ سین ہے۔ شدید طاقت اور غضب کا اثر ہوتا ہے ان میں۔ کہاں استعمال کرنا ہے، کہاں نہیں، یہ سوچنے والے کا فیصلہ ہے۔ ایک بات طے ہے۔ ہمیں رنگوں کو واپس لانا ہو گا، ہمیں پھولوں کو واپس لانا ہو گا، ہمیں شوخ چیزیں اپنے ماحول میں بھرنی ہوں گی، زندگی سجانی پڑے گی اور خود ہی کرنا پڑے گا یہ سب کچھ۔ اور کچھ نہیں تو وہ کیسے مزے کی ترکی ٹوپی ہوتی تھی میرون رنگ کی، جو آخری بار نواب زادہ نصراللہ مرحوم کو ہی پھبی تھی، کوئی اس ٹائپ کی چیز دوبارہ لائی جائے۔ اس سب کا فائدہ یہ ہو گا کہ کلف لگے ہوئے چٹے کپڑوں کے تکلف سے جان چھوٹے گی، ہر طرف چھائی کرختی کچھ کم ہو گی۔ ہمارے بچے بھی رنگوں کی طرف پلٹیں گے ، انہیں زندگی شاید ہم سے بہتر دکھائی دے ۔ پہلا رنگ کون بھرے گا، سوال یہ ہے!