جھلسی ہوئی چند کتابیں اور اس سے بھی زیادہ جھلسا چہرہ، اُس ننھی پری کا‘ جسے آگ اور بارود کا کھیل نگل گیا۔ وہ آگ جو خیبر سے کراچی اورچمن تک ہزاروں مائوں کی گود اجاڑ چکی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ آگ کس نے لگائی اور یہ بھی کہ کون اسے دہکا رہا ہے۔ ہاں، بارود کا یہ کھیل ہمارے اندر چھپے ہوئے اپنے کھیل رہے ہیں‘ لیکن اغیار کی مدد سے۔ منصوبہ بنانے والوں نے منصوبہ بنایا، جو آگ لگی تھی اسے شہر شہر بھڑکانے کا، بلوچستان کو لہو لہو کرنے کا۔ کھوج لگانے والوں نے کھوج لگایا کہ یہ اپنوں کی مہربانی اور غیروں کی کارستانی ہے۔ تلاش کرنے والے اپنی صفوں میں چھپے دشمن تو تلاش کر رہے ہیں، ان کا صفایا کر رہے ہیں، لیکن غیروں کے چہروں پر لپٹے نقاب کون اتارے گا؟
بلوچستان میں جلتی پر تیل سرحد پار سے ڈالا جا رہا ہے۔ یہ کسی اور نے نہیں، اعلیٰ ترین حکومتی ایوانوں میں بیٹھے وزیروں مشیروں نے بتایا، اور یہ بھی کہ ان کے پاس پکے سچے ثبوت ہیں، اور یہ بھی کہ انہوں نے یہ ثبوت اقوام متحدہ اور امریکہ کے حوالے کر دیے۔ بجا، شاید ٹھیک ہی فرمایا ہو گا انہوں نے، لیکن ذرا ہمت کیجیے، وہ ہمسایہ جہاں سے یہ کھیل رچایا جا رہا ہے، اس سے بھی بات کیجیے، بھڑکتے جذبات کے ساتھ نہیں، تحمل اور سنجیدگی سے۔ پوچھیے، ہولی تو خوبصورت رنگوں سے کھیلی جاتی ہے، لیکن ہمارے ہاں آپ ہمارے خون سے ہولی کیوں کھیل رہے ہیں؟ اور یہ بھی کہ آپ کے جن ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کے ہاتھ ہمارے لہو سے رنگے ہیں، اُن کے خلاف آپ نے کیا کارروائی کی؟ یہ بھی پوچھیے کہ کہیں آپ ان کی پشت پناہی تو نہیں کر رہے، بالکل ویسے ہی، جیسے وہ ہم سے پوچھتے رہے ہیں اور آج کل بھی پوچھ رہے ہیں۔
پٹھان کوٹ پر جس نے حملہ کیا، برا کیا کہ سرحد کے آر ہو یا پار، لہو کا رنگ ایک جیسا ہوتا ہے۔ آنسو، سسکیاں، آہیں، دکھ اور کرب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ خاک و خون کا کھیل کھیلنے والے کسی کے دوست نہیں ہو سکتے، یہ ہم سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ سرحد پار والوں کا دعویٰ ہے کہ پٹھان کوٹ پر حملہ پاکستان سے ہوا، یہ بھی کہ کچھ کچے ثبوت وہ پاکستان کے حوالے کر چکے۔ پوری دیانت داری کے ساتھ، پوری ذمہ داری کے ساتھ اس معاملے کی تحقیق ہونی چاہیے۔ اسے ایک آزمائشی کیس بنائیے، کوئی بھی ملوث ہو، اسے الٹا لٹکائیے، چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، لیکن حق پر۔ دبائو میں جھکیں گے تو وہ آپ کو اور جھکائیں گے جیسے وہ کر رہے ہیں۔ پہلے کمزور معلومات کے ساتھ غیر ریاستی عناصر پر الزام اور پھر براہ راست ریاست پاکستان پر۔ کسی اور کی طرف سے نہیں، اہم ترین دفاع کے وزیر منوہر پاریکر کی جانب سے، اور اہم ترین ایوان راجیہ سبھا میں۔ سستی جذباتیت کا جواب جذباتیت سے مت دیں، لیکن نپے تلے سفارتی لہجے میں پکے ثبوت مانگیے اور مجرموں کا کھوج لگانے میں ان کی پوری مدد بھی کیجیے۔ اگر کوئی مجرم ثابت ہو جائے تو عبرت کا نشان بنا ڈالیں کہ جس نے بھی یہ کیا وہ پاکستان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔
جاننے والے جانتے ہیںکہ وزیر اعظم نواز شریف امن چاہتے ہیں، پورے خلوص کے ساتھ، ہمارے ادارے بھی، انہیں تو اپنے گھر میں لگی آگ بجھانے سے فرصت نہیں۔ وہ آگ جس کے شعلوں کو بیک وقت کئی دشمن ہوا دے رہے ہیں۔ ہمسایوں سے دوستی کی فطری خواہش بجا کہ ہمسایوں سے ہر وقت لڑتے بھڑتے امن و سکون کی زندگی ممکن نہیں۔ ہمسایوں سے دوستی نہ ہو سکے تو دشمنی بھی کوئی نادان ہی کرے گا کہ اس سے بڑی حماقت کوئی ہو نہیں سکتی۔ وزیر اعظم کی امن کی خواہش لائق تحسین‘ لیکن ذرا ہمسائے کو بھی احساس دلائیے۔ دلیل کے
ساتھ کہ ہمیں کمتر نہ سمجھیں اور یہ کہ جیسے آپ کی جانیں قیمتیں ہیں، ہماری جانیں بھی ارزاں نہیں۔ اور یہ کہ ممبئی حملوں میں مرنے والے معصوم بھارتیوں کو رونے والے بہت ہیں‘ تو سمجھوتہ ایکسپریس میں جلنے والے بے گناہ پاکستانیوں پر ماتم کرنے والے بھی کم نہیں۔ یہ احساس بھی دلائیے کہ ہم انجان نہیں، ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے ہاں سے ہمارے ہاں کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ قبائلی پٹی سے بلوچستان تک، لاشیں بچھانے والوں کی سرپرستی کا کھیل! یہ بھی پوچھیے کہ افغانستان میں آپ کے قونصل خانے بلوچستان میں بارود کے بیج آخرکیوں بو رہے ہیں؟ کیا آپ کے عزائم 1971ء والے تو نہیں؟
مذاکرات کی میز سجے تو اپنے حصے کا سچ کھول کر بیان کر دیجیے۔ ان کی ضرور سنیے لیکن اپنی بھی تو سنائیے۔ یہ بھی پوچھیے کہ چھ عشروں سے کشمیر کی رگوں سے خون کیوں رِس رہا ہے؟ تجارت کیجیے، ثقافتی تبادلے بھی، کھیل کھیلیے اور سرحد کے آر پار آمدورفت بھی، لیکن انسانی المیے ختم کیے بغیر پائیدار امن کیسے قائم ہو؟ کشمیر جلتا رہے اور پاکستان اور بھارت اس کی تپش سے محفوظ رہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ ہم بھی جانتے ہیں اور ہمارا ہمسایہ بھی۔ نسل در نسل کشمیریوں کا خون بہہ رہا ہے لیکن ایک بے حسی ہے، یہ انائوں کا مسئلہ ہے یا ایک فریق کی ہٹ دھرمی کا؟ یا دونوں فریق برابر کے قصوروار؟ چلیے ماضی کو چھوڑیے، کیا سیاسی مصلحتوں سے اوپر اٹھ کر اب کوئی کشمیریوں کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے؟ بڑادل، بڑی جرأت، بڑی سوچ اور بڑا تدبر چاہیے اس کے لیے۔ کیا یہاں اور وہاں کے وزیر اعظم تاریخ میں اپنا نام لکھوا سکتے ہیں؟ اب کی بار مذاکرات کی میز بچھے تو اسے شطرنج کی بساط سمجھ کر چالیں مت چلیے، نہ اِدھر سے نہ اُدھر سے، آمنے سامنے بیٹھیے، کھلے دل اور دماغ کے ساتھ، ایک عزم کیجیے، پختہ عزم کہ ہم بھی پوری نیک نیتی کے ساتھ تخریب کاروں کو نکیل ڈالیں گے اور وہ بھی۔ اور یہ کہ اپنی سرزمین دہشت گردی کے لیے ہم استعمال ہونے دیں گے نہ وہ ایسا ہونے دیں گے، عقاب ذہنوں کو وہاں حاوی ہونے دیا جائے گا‘ نہ یہاں۔ شاید کبھی وہ دن آ جائے کہ سرحدوں پر توپوں کی گھن گرج کے بجائے دیوالی کے پٹاخے پھوٹیں، عید پر بارود کی بو کے بجائے میٹھی سویوں کی خوشبو مہکے، اِدھر بھی، اُدھر بھی۔
آگ اور بارود کا کھیل کھیلنے والے تخریب کار تین نسلوں کی زندگیاں برباد کر چکے، یہاں بھی، وہاں بھی۔ امن ہی عام لوگوں کی فلاح کی ضمانت ہے، ان ڈیڑھ ارب عام لوگوں کی جو سرحد کے آر پار بستے ہیں۔ اسلحے اورگولے بارود کے ڈھیر معیشت کو نگل جاتے ہیں، انسانی جانوں کو بھی اور زندہ بچ جانے والوں کے مستقبل کو بھی۔ جو لوگ اب تک یہ نہیں سمجھ سکے، انہیں بھی سمجھ لینا چاہیے، اِدھربھی، اُدھر بھی۔