پراسرار سناٹا اور تھپڑ کی گونج

پُراسرار سناٹا، آسیب زدہ طویل خاموشی اور پھر چنگھاڑتا طوفان کہ طویل خاموشیوں کے بعد اکثر زور دار طوفان آیا کرتے ہیں۔ وہ طوفان جو بڑے بڑے تخت اورگھمنڈی تخت والوں کو بھی اُڑا لے جاتے ہیں۔ ایسے ہی کسی طوفان کا انتظار بیس کروڑ عام پاکستانیوں کو ہے، جوطویل عرصے سے چپ چاپ، نام نہاد اشرافیہ اوروی آئی پیز کے ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ 
جونکوں کی طرح صبح شام، ہم عام لوگوں کا خون چوستے، ہماری زمینوں پر قبضے کرکے محلات تعمیر کرتے، ہمارے خون پسینے کی کمائی لُوٹ کر جائیدادیں بناتے، ہمارا حق چھین کر ہمیں ہی آنکھیں دکھاتے یہ چھچھورے لٹیرے اورغاصب، اشرافیہ کا لبادہ اوڑھ کر پل پل، لمحہ لمحہ ہمیں جیتے جی مار رہے ہیں، ہماری زندگیاں کچلتے ہیں اورعزت نفس بھی۔
نیربخاری کے بیٹے نے نچلے درجے کے اہلکار کو نہیں بیس کروڑ عام پاکستانیوں اور ہمارے نظام کے منہ پر تھپڑمارا۔ ایک نہیں کئی بار، ہماری اشرافیہ ایسے شرمناک کارنامے پہلے بھی انجام دے چکی ہے۔ طاقت کے نشے میں چُور اِن مغروروں کا بس، بے بسوں پر ہی چلتا ہے، ورنہ یورپ اورامریکا میں یہ خودساختہ طُرم خان، بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ ایئرپورٹس اورحساس مقامات پر ان کے جوتے اتروائے جاتے ہیں، جیکٹیں اور بیلٹس، ضرورت پڑے توکپڑے بھی! سر سے پیر تک ان کی تلاشی لی جاتی ہے اورپوری تسلی کے ساتھ پوچھ گچھ بھی ہوتی ہے۔ بغیر کسی چوں چراں کے یہ دیسی طرم خان پورے ادب کے ساتھ، ڈرے، سہمے متعلقہ حکام کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ یہاں گرجنے برسنے والی ان کی آواز وہاں حلق میں ہی پھنس کر رہ جاتی ہے ۔ سر جھکائے، پلکیں بچھائے، شرماتے، نظریں چراتے ایک اضافی لفظ تک بولنے کی جرأت وہ نہیں کرپاتے۔ ان کی خودساختہ، جعلی عزتِ نفس کی وہ چیر پھاڑ ہوتی ہے کہ ان کے چہروں پر سجے کھوکھلے وقارکے سارے خول اتر جاتے ہیں۔
نیربخاری اور اُن کے بیٹے نے جو حرکت کی، اگر یہی کچھ وہ کسی مہذب ملک میں کرتے تو اُن کے چودہ طبق روشن کروا دیے جاتے۔ ایسا سبق قانون انہیں سکھاتا کہ برسوں بھلائے نہ بھولتا، لیکن پاکستان کا قانون اشرافیہ کے گھروں کی باندی ہے۔ اور یہ بات نیر بخاری جیسے لوگ بخوبی جانتے ہیں۔ پیسہ بہت ہے اُن کے پاس اور اثر و رسوخ بھی۔ وہ جانتے ہیں کہ اس گلے سڑے، بوسیدہ، کرپشن زدہ نظام میں اتنی سکت نہیں کہ ان جیسے طاقتوروں کو قانون کے شکنجے میں لا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عینی شاہدین، تھپڑ مارنے کی ویڈیو، مقدمے کے اندراج اور وارنٹ جاری ہونے کے باوجود کوئی گرفتاری نہ ہوسکی۔ واقعہ کو مثال بنانے کا آئی جی کا دعویٰ ہوا میں اُڑ گیا یا اُڑا دیا گیا۔ اڑتالیس گھنٹے تک یہی رام کہانی سنائی جاتی رہی کہ پولیس ملزمان کی گرفتاری کے لیے روانہ ہوچکی، لیکن شاید راستے کی ''گھمن گھیریوں‘‘ میںہی گم ہو کررہ گئی۔ بھارہ کہو میں نیر بخاری کی رہائش گاہ تک چند کلومیٹر کا فاصلہ کیڑیوںکی طرح رینگتی پولیس اڑتالیس گھنٹے میں بھی طے نہ کر پائی۔ دو روز بعد ملزمان سینہ پُھلائے عدالت آئے، حفاظتی ضمانت کروائی اوردل ہی دل میں قانون کی بے بسی پر قہقہے لگاتے، ہنستے ہنساتے واپس اپنے عشرت کدوں کی جانب لوٹ گئے۔
لامحدود ڈھٹائی، مکر و فریب اور جھوٹ پر جھوٹ بولنے کا فن ہماری اشرافیہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ نیر بخاری نے فرمایا، ان خلاف سازش ہوئی، واقعی؟ اور اس ساز ش کی جرأت کس نے کی؟ اُس ادنیٰ پولیس اہلکار نے جس کی سرِ عام آپ نے تذلیل کی؟ اور وہ بے بسی کی تصویر بنا رہا؟ رحمان ملک کے برعکس آپ نے تھوڑا ہاتھ ہلکا رکھا ورنہ آپ اسے بھارتی ایجنسی 'را‘ کی سازش بھی قرار دے سکتے تھے کہ پاکستان کے لیے آپ کی خدمات ہی اتنی شاندار ہیںکہ 'را‘ بھی آپ سے خوفزدہ رہنے لگی تھی اور اُسی نے آپ کو بدنام کرنے کے لیے یہ سازش تیار کی۔ پاناما لیکس میں نام آنے کے بعد رحمان ملک نے بھی اِسے اُن کے خلاف 'را‘ کی سازش قرار دیا تھا۔
ملزمان کے بدلتے موقف اور متضاد بیانات اپنی جگہ لیکن حکومت اور اس کے اداروں نے اتنی بے حسی کیوں دکھائی؟ خاص طور پر وزیرداخلہ نے۔ وہ وزیرداخلہ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قائل ہیں۔ قانون کی بالادستی کو جواپنا مشن بتاتے ہیں، جوپلک جھپکتے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا نوٹس لیتے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں اور حکام کو چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر بھی معطل کر ڈالتے ہیںکہ قانون کی عملداری کی نئی مثالیں وہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انہی کی وزارت کے ماتحت ایک اہلکار کو سرکاری فرض نبھاتے ہوئے تھپڑ رسید کیا گیا لیکن وزیرداخلہ چپ سادھے ہوئے ہیں۔کیوں؟ اِس لیے کہ ان کی جماعت کو ایک بڑی سیاسی آزمائش کا سامنا ہے؟ وہ کوئی ایسا قدم اُٹھانا نہیں چاہتے جو پیپلزپارٹی کو زِچ کر ڈالے اور وہ پاناما لیکس پر مزید ہنگامہ شروع کر دے؟ انہیں خاموش رہنے کا حکم کہاں سے ملا ہے؟ سیاسی مصلحتوں اور مفادات پر مُک مُکا اب کوئی راز نہیں!
لمحہ بھر، صرف لمحہ بھر کے لئے بھی اشرافیہ میں سے کسی نے اُس مظلوم اہلکار کے بچوں کے بارے میں سوچا؟ کیا بیتی ہوگی اُن پر، اپنے باپ کے منہ پر تھپڑ لگنے کے مناظر دیکھ کر! کیا یہ مناظر اُن کے ذہنوں پر ہمیشہ کے لیے نقش نہیں ہوگئے ہوںگے؟ اپنے باپ کی بے بسی دیکھ کر بچوں کی آنکھیں نم نہیں ہوجاتی ہوںگی؟ کتنی بری طرح اُن کی عزت نفس مجروح ہوئی ہوگی، اندر ہی اندر کتنا ٹوٹا ہوا وہ خودکو محسوس کرتے ہوں گے۔ لیکن یہاں عام انسانوں کے سستے جذبات کی کس کو پروا ہے۔ یہ دنیا تو خورشید شاہ صاحب جیسے لوگوں کی ہے جو صبح شام آئین اورقانون کے حوالے دیتے ہیں اور دھڑلے سے نیر بخاری جیسوںکا دفاع بھی کرتے ہیں۔
اشرافیہ جتنا بھی ظلم ڈھا لے، قدرت کا ایک نظام ہے۔ ہر زوال کو عروج اور عروج کو زوال ہے۔ ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹنے لگتا ہے۔ زمانے کی گردش صدیوں سے ایسی ہی ہے۔ ایک خاص عرصے تک محکوم، محکوم رہتے ہیں، پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب محکوم حاکم بن جاتے ہیں اور حاکم محکوم! ہم بہت محکوم رہ چکے، ظلم حد سے بڑھ چکا، دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیںکہ وہ وقت زیادہ دورہ نہیں جب بقول فیض''سب تاج اچھالے جائیں گے، سب تخت گرائے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا، جو میں بھی ہوںاور تم بھی ہو!‘‘۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں