چودہ ہزار روپے کی کہانی

چودہ ہزار ضروریات، چودہ ہزار محرومیاں اور چودہ ہزار حسرتیں، وہ حسرتیں جو سالہا سال سے، جلتی کڑھتی بیوی اور معصوم بچوں کے دل میں دبی ہیں۔ اور ان سب حسرتوں کو پورا کرنے کے لیے صرف چودہ ہزار روپے، وہ چودہ ہزار روپے جو سرکار نے مزدور کی اجرت مقرر کی ہے۔ نقصان کو نفع دکھانے والا حساب کتاب کا کوئی ماہر، اعداد و شمار سے کھیلنے والا کوئی بازی گر، کھوکھلے الفاظ کو دلائل میں ڈھالنے والا کوئی باتونی جادوگر، ٹیکسوں میں ہیرپھیر کرنے والا کوئی کھلاڑی یا مہنگائی میں کمی کی ڈگڈگی بجانے والا کوئی مداری، اپنی پوری چالاکی، عیاری، ذہانت اور فطانت کو مِلا جُلا کر بھی چودہ ہزار روپے میں میاں بیوی اور دو بچوں پر مشتمل گھرانے کا بجٹ بنا سکتا ہے؟
حکومتیں بدل گئیں، سال گزر گئے، لیکن عام آدمی کی زندگی میں ایک ہی وقت ٹھہرا ہوا ہے، آزمائش کا ایسا وقت جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ تپتی دوپہروں، یخ بستہ صبحوں اور ٹھٹھرتی شاموں میں، کمر توڑ محنت مشقت کے بعد بھی، کتنے پیسے ہاتھ آتے ہیں؟ اِتنے کہ بمشکل بچے ہی دو وقت کی روکھی سوکھی کھا سکیں، اور ماں باپ بس فاقے کریں اور اگلے دن کی فِکر۔ گرمی سردی سے بے نیاز، خون پسینہ بہانے والوں کا حال، پارلیمان میں بیٹھے عوامی نمائندوں کے احوال سے کتنا مختلف ہے۔ وہ امیر کبیر حکمران اور نام نہاد عوامی نمائندے، جنہوں نے اپنی تنخواہوں میں تین گنا، اور لاکھوں روپے کی دیگر مراعات میں کئی گنا اضافے کی تحریک منظور کی۔ ایسی انوکھی تحریک، جس نے ہر وقت، ہر لمحہ، آپس میں لڑتی بھڑتی، حکومت اور اپوزیشن کو ایک صف میں لا کھڑا کیا، ایسی تحریک جسے تمام باہمی اختلاف بھلا کر باہمی مفاد کے لیے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ آخر اس تحریک کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ اس لیے کہ الیکشن جیتنے پر کروڑوں روپے انہوں نے خرچ کر ڈالے؟ اور اب یہ پیسے وہ عوام کے ٹیکسوں سے بٹورنا چاہتے ہیں؟ اور یہ عوامی نمائندے عوام کی خدمت کیا کرتے ہیں؟ سال میں قومی اسمبلی کا اجلاس کتنے دن ہوتا ہے؟ ایک سو تیس دن۔ اور ان ایک سو تیس دنوں میں بھی کتنے ارکان حاضر ہوتے ہیں؟ پچاس فیصد سے زائد ارکان پچاس فیصد سے زائد دن غیر حاضر۔ درجنوں ایسے بھی ہیں، جو سال میں دس بارہ روز ہی اسمبلی میں آتے ہیں، لیکن تنخواہ پورے سال کی بٹورتے ہیں۔ کیا کوئی مزدور، عام سرکاری یا نجی ملازم بھی ایسا کر سکتا ہے؟ پھر بھی، عوامی نمائندوں کو گلہ ہے کہ ان کی تنخواہ اور مراعات کم ہیں۔ وہ مراعات جن میں لاکھوں روپے کے بزنس کلاس ہوائی ٹکٹ، یوٹیلٹی الائونس، دفتر کی دیکھ بھال کے الائونس، میڈیکل الائونس، سفری الائونس، پارلے منٹ لاجز کے لمبے چوڑے کشادہ کمرے، اور وزیر، اپوزیشن لیڈر یا قائمہ کمیٹی کا چیئرمین بننے پر، مِنسٹرز انکلیو میں پُرآسائش گھر بھی شامل ہیں۔
بجٹ میں مزدور کی اُجرت کتنی بڑھی؟ ایک ہزار روپے، لیکن پارلیمنٹ کا بجٹ بہتر کروڑ روپے بڑھ گیا، کیسی بے حِسی ہے۔ کم سے کم اجرت کے حوالے سے ہمارا ملک دنیا میں کہاں کھڑا ہے؟ جنگ زدہ اور گمنام جزیروں پر مشتمل ممالک کو نکال دیا جائے، تو پاکستان اس معاملے میں آخری دس ملکوں میں شامل ہے، اور ہمارے ہاں کم سے کم اجرت طے کرنے کا طریقہ کار کیا ہے؟ کیا ہمارے مزدوروں کو سوشل سکیورٹی، انشورنس، تنخواہ سمیت بیماری کی چھٹی، سالانہ تعطیلات اور دیگر سہولتیں دستیاب ہیں؟ جیسے تمام مہذب ممالک میں ہوتی ہیں؟ 
عوام غریب ترین لیکن حکمران امیر ترین، یہ انوکھا تاج، کسی اور کے نہیں، پاکستان کے سر پر ہی سجا ہوا ہے، آج سے نہیں، عشروں سے۔ یہاں کا نظام اور دستور ہی نرالا ہے، مزدور کے بچے مزدور، سیاست دان کے بچے سیاست دان، حکمرانوں کے بچے حکمران۔ کچھ بدلا ہے نہ بدلنے کی امید ہے۔ ہمارے حکمرانوں کے وسیع و عریض اور بلند و بالا عشرت کدے، ماضی کے عظیم شہنشاہوں کے محلات کا منہ چڑاتے ہیں۔ دور دراز سے اگر کوئی عام شخص، اسلام آباد کی شاہراہ دستور پر آ جائے، تو شاہی قلعوں سے بھی بڑے محل دیکھتے ہی غش کھا جائے۔ عام پاکستانی 
تو ایک طرف، کئی مرتبہ امیر ترین ملکوں کے سربراہ اور وفود بھی ان محلات کی تاب نہ لا سکے، ایسے شاہکار دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گئے، خود سے اور دوسروں سے وہ پوچھتے کہ کیا پاکستان واقعی پسماندہ عوام کا ملک ہے؟ ہالی ووڈ کی معروف اداکارہ انجلینا جولی کا پاکستانی حکمرانوں کے بارے میں بیان اب بھی بہت سوں کو یاد ہو گا، جب وہ 2010ء میں یوسف رضا گیلانی کے دور میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کرنے پاکستان آئیں۔ عالیشان وزیر اعظم ہائوس اور وہاں ہونے والی ان کی آئو بھگت نے انہیں ششدر کر دیا۔ پھر اُس وقت اُن کے ہوش ہی اُڑ گئے جب خوشامد کے لیے انہیں انتہائی قیمتی تحائف سے نوازا گیا۔ گیلانی صاحب کے اہل خانہ، انجلینا کے ساتھ تصویریں بنوانے کے شوق میں، ملتان سے پرواز کر کے اسلام آباد آن پہنچے۔ وزیر اعظم کے شاہی دستر خوان پر، انواع و اقسام کے کھانوں کے انبار نے انجلینا کی حیرانی کو پریشانی میں بدل دیا، کیونکہ اداکارہ کے مطابق، اس کھانے سے سیکڑوں متاثرین سیلاب کے پیٹ بھر سکتے تھے۔ اُن کے صبر کا پیمانہ اُس وقت لبریز ہو گیا جب حکام سیلاب متاثرین کو دھکے‘ لیکن انہیں پُرتکلف عشائیوں کی دعوتیں دے رہے تھے۔ انجلینا نے ذاتی طور پر پچاسی لاکھ روپے متاثرین کو عطیہ کیے، اور جلتی کڑھتی واپس لوٹ گئیں۔ اس کے فوراً بعد، انہوں نے اقوام متحدہ سے سفارش کی کہ پاکستانی حکمرانوں سے کہا جائے کہ دنیا سے امداد مانگنے سے پہلے اپنے شاہانہ اخراجات کم کریں۔ دنیا بھر میں پاکستان اور پاکستانی حکمرانوں کی سُبکی ہوئی، لیکن ان کے شاہی خرچے کتنے کم ہوئے؟ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں۔
شاہی محلات کا ذکر آیا، تو وہ وعدے بھی یاد آنے لگے، جب یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف دونوں نے، وزیر اعظم ہائوس کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ ایسا ہی ایک وعدہ، خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی کیا، لیکن وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے، خاص طور پر حکمرانوں کا عوام سے کیا گیا وعدہ۔ شاید حکمرانی کا نشہ ہی ایسا ہے، چارسُو، اپنے سِوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ حکمرانوں کے وعدے سنتے سنتے، کئی نسلیں، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپا پار کر کے موت کی دہلیز پر جا پہنچیں، خوشحالی کے خواب، اگلی نسلوں کو منتقل کیے، لیکن عام آدمی کی کہانی برسوں بعد بھی چودہ ہزار روپے تک پہنچی ہے۔ دل میں دبی معصوم خواہشوں کی کہانی، ذہن پر نقش ہوتی محرومیوں کی کہانی، آنکھوں میں آنسو بن کر تیرتی حسرتوں کی کہانی، ایسی کرب ناک سچی کہانی، جس کے کئی کردار غُربت سے تنگ آ کر موت کو گلے لگا چُکے۔ ان کرداروں میں وہ تنگ دست باپ بھی شامل ہیں جنہوں نے بچوں کو زہر کھلانے کے بعد، خود بھی زہر کھا لیا، اور وہ بے بس مائیں بھی جو اپنے کم سن بچوں سمیت نہروں اور دریائوں میں کود گئیں۔ برسوں پہلے، یہی اس کہانی کا آغاز تھا، اور برسوں بعد یہی اس کہانی کا انجام۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں