کھلاڑی کم، اناڑی زیادہ۔ پاکستانی کرکٹ بازی گروں کا نہیں، سیاسی کاری گروںکا کھیل بن چکی، کھلاڑی بھی سیاسی اور بورڈ بھی۔ میدان میں میچ نہیں، میدان سے باہر ذاتی مفادات کا کھیل ہم زیادہ کھیلتے ہیں۔ حریف ٹیموں کو ہمیں ہرانے کی کیا ضرورت، ہم خود ہی خود کو ہرانے کے ماہر ہیں۔
ذلت کا ایک اور تمغہ ہمارے سینے پر سج چکا، انگلینڈ نے پاکستان کے خلاف 444 رنز کا ریکارڈ کیسے بنایا؟ کیا یہ صرف انگلستان کے بلے بازوں کا کارنامہ تھا؟ کیا یہ سانحہ اچانک ہوا؟ ہرگز نہیں، بقول شاعر ''وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا‘‘۔ یہ حادثہ بھی ایک دم نہیں ہوا، برسوں ہم نے اس کی تیاری کی۔ پہلے کرکٹ بورڈ کو سیاست کی بھینٹ چڑھایا، اس کی سربراہی کو میوزیکل چیئر بنایا، آئی سی سی چیختی چلاتی رہ گئی لیکن ہم نے ایک نہ سنی، شدید ترین تنقید کے باوجود سیاسی لوگ کرکٹ بورڈ سے جونکوں کی طرح چمٹے رہے، آخر وجہ کیا ہے؟ کرکٹ بورڈ اگر سیاسی ہو تو ٹیم کیسی ہو گی؟ وہ ٹیم جس کے کھلاڑی، گھٹیا گروہ بندی کا شکار رہے، ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے جنہیں فرصت نہیں، جن کا دھیان اپنی کارکردگی پر کم دوسروں کو ٹیم سے نکلوانے پر زیادہ ہوتا ہے۔ شعیب ملک جو ٹیم میں دھڑے بندی کا بانی ہے، کس کی پرچی پر آج تک ٹیم کا حصہ ہے؟ اس پر دو ہزار دس میں ایک سال کی پابندی کیوں لگائی گئی تھی؟ ٹیم میں اس کا منفی کردار کوئی راز ہے؟ یہی کام بعد میں آفریدی نے کیا، پھر خود آفریدی بھی اسی دھڑے بندی کا شکار ہوا، شعیب ملک، احمد شہزاد اور عمر اکمل نے رواں برس بھارت میں ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں کیا گل کھلائے؟ نیوزی لینڈ کے خلاف اہم ترین میچ پاکستان کیسے ہارا؟ میچ کے بعد وقار یونس میڈیا کے سامنے احمد شہزاد اور عمر اکمل پر کیوں برسے؟ خود نیوزی لینڈ کے کھلاڑی شعیب، احمد شہزاد اور عمر اکمل کی پراسرار سست رفتار بلے بازی پر حیران تھے۔ فرش سے عرش پر پاکستان نے انہیں پہنچا دیا، پیسہ ملا اور شہرت بھی، لیکن ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی۔ بورڈ اور ٹیم میں موجود سیاسی، سفارشی اور سازشی عناصر پوری طرح بے نقاب ہیں، ان کے خلاف کارروائی اگرچہ کبھی نہیں ہوتی۔
قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کی صلاحیتیں بھی سب کے سامنے ہیں، اظہر علی‘ جس کی ون ڈے ٹیم میں جگہ تک نہ تھی، اسے اچانک کپتان بنانا پڑا۔ ایسا کپتان جو صرف بلے بازی میں ہی نہیں سوچنے، سمجھنے اور فیصلے کرنے میں بھی سست ہے۔ اللہ میاں کی گائے کی طرح، میدان میں وہ چپ سادھے کھڑا رہتا ہے، جارحانہ حکمت عملی کا لفظ ہی اس کی لُغت میں نہیں۔ وکٹ تیز ہو یا سست، مقابلہ مضبوط ٹیم سے ہو یا کمزور سے، حریف ٹیم حاوی ہو یا دبائو میں، اظہر علی کی حکمت عملی ایک جیسی ہی رہتی ہے۔ پروفیسر حفیظ صرف 32 رنز کی ون ڈے اوسط سے ٹیم کا مستقل حصہ ہیں، چھتیس برس کے وہ ہو چکے، انہیں اپنی اوسط بڑھانے کے لیے اور کتنے برس درکار ہیں؟ آخری بار حفیظ نے اپنی بلے بازی سے کب پاکستان کو میچ جتوایا تھا؟ بائولنگ پر پابندی کے بعد حفیظ کی ٹیم میں جگہ بنتی ہے؟ وہاب ریاض کس گیدڑ سنگھی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل ہے، اسے میدان میں گالم گلوچ اور نمائشی جارحانہ کرتب دکھانے کے سوا بھی کچھ آتا ہے؟ انگلینڈ کے خلاف10 اوورز میں 110 رنزکھانا ہی اس کا واحد کارنامہ ہے؟ موصوف کی مایہ ناز صلاحیتوں کا احوال یہ ہے کہ 72ون ڈے میچوں میں صرف ایک بار مین آف دا میچ قرار پائے، وہ بھی زمبابوے کے خلاف۔ ون ڈے میں بائولنگ کی فی وکٹ اوسط 33 رنز ہے اور فی اوور رنز دینے کی اوسط 5.62، یعنی ایسا انوکھا لاڈلا جو وکٹیں اڑا سکتا ہے نہ رنز بچا سکتا ہے، پھر بھی ٹیم کے سر پر سوار ہے۔ ابھی تو 523 میچوں میں بمشکل 23 میچ جتوانے والے آفریدی بھی واپسی کے لیے پر تول رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے موصوف نے فرمایا تھا کہ ان پر ریٹائرمنٹ نہ لینے کا شدید دبائو ہے، یقینا یہ دبائو بھارت، سری لنکا اور دیگر حریف ٹیموں کی جانب سے ہی ہو گا۔
ہماری ٹیم ریکارڈز بنانے کی نہیں، ریکارڈز بنوانے کی ماہر بن چکی۔ خود تو ہم ڈوب رہے ہیں، ساتھ مایہ ناز بین الاقوامی کوچز کو بھی ڈبو رہے ہیں۔ ڈیو واٹ مور‘ جس نے 1996ء میں سری لنکا کو ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز دلوایا، جس نے بنگلہ دیش کو 2005ء میں پہلا ٹیسٹ میچ جتوایا، جس کی کوچنگ میں بنگلہ دیش نے آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور بھارت کو ہرایا، وہی ڈیو واٹ مور پاکستان کا کوچ بنا تو قومی ٹیم 2013ء کی چیمپئنز ٹرافی میں ایک میچ بھی جیت نہ پائی، واٹ مور بیچارے کا بوریا بستر گول ہوا اور اسے اپنے کیریئر کو داغ دار کرکے رخصت ہونا پڑا۔ مکی آرتھر کی کوچنگ میں جنوبی افریقہ نے لگاتار 9 ٹیسٹ سیریز جیتیں، انہی کی کوچنگ میں جنوبی افریقہ ون ڈے رینکنگ میں پہلے نمبر پر رہی لیکن جب وہ پاکستان کے کوچ بنے تو ہماری ٹیم نے چار سو چوالیس رنز کا ریکارڈ بنوا لیا۔ انگلینڈ کے ہاتھوں پہلے چاروں ون ڈے میچ یکطرفہ مقابلے کے بعد ہار گئی، خود بھی رسوا ہوئی، مکی آرتھر کے ماتھے پر بھی کلنک کا ٹیکا سجا دیا۔ ریکارڈ توڑ رنرز بنوانے اور بدترین شکست کے بعد بھولے بھالے اظہر علی کی افلاطونی منطق پر برطانوی میڈیا اور کرکٹ شائقین چکرا کر رہ گئے، معصومیت سے کپتان نے فرمایا کہ ہم اتنا برا نہیں کھیلے۔ مطلب ہم میں اس سے بھی برا کھیلنے کی صلاحیت ہے۔ چار سو چوالیس نہیں، ہم آٹھ سو چوالیس رنز بھی بنوا سکتے ہیں۔ انگلینڈ کے کپتان مورگن بھی، پاکستانی بائولروں کے پائوں دھو دھو کر پی رہے ہوں گے، اپنے کیریئر کی بدترین فارم کا انہیں سامنا تھا، گیند ان کے بلے کو چھوتی تک نہیں تھی لیکن تیرہ میچوں کے بعد پاکستانی بائولرز نے انہیں دو نصف سنچریاں بنوا دیں۔ برطانوی شائقین البتہ پاکستانی ٹیم کو کوس رہے ہیں‘ جن کے ٹکٹوں کے پیسے ہمارے کھلاڑیوں نے حرام کروا دیے، بیچاروں کو ایک بھی دلچسپ میچ دیکھنے کو نہ ملا۔
2003ء کے ورلڈ کپ سے ہر شرمناک شکست کے بعد، ہم ٹیم میں نیا خون شامل کرنے، نئی ٹیم بنانے کے کھوکھلے دعوے کرتے آئے ہیں۔ پچھلے تیرہ برس میں کتنے بڑے کھلاڑی ہم نے پیدا کیے؟ گزشتہ چھ سال میں ہماری کرکٹ سے مصباح الحق کا حصہ نکال دیا جائے تو کیا بچتا ہے؟ ذلت آمیز شکستوں کے بعد ہمارے سر پر ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائنگ راونڈ کھیلنے کی تلوار لٹک رہی ہے لیکن کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا لمبی تان کر سوئے ہوئے ہیں۔ بیاسی برس کے چیئرمین پی سی بی شہریار خان اور چوہتر برس کے ٹیم منیجر انتخاب عالم سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ ضعیف العمری کے باعث جو بیچارے خود کو نہیں سنبھال سکتے، وہ ٹیم کو کیا سنبھالیں گے۔