آسیب نگری اور سات کہانیاں

تعصب کی کوئی حد ہوا کرتی ہے نہ سرحد، تعصب شکلیں بدلتا ہے، کبھی رنگ اور کبھی نسل کی بنیاد پر۔ ہر شکل گھنائونی، مذہب کی بنیاد پر تعصب مگر مکروہ ترین سمجھا جاتا ہے۔ کم پڑھے لکھے معاشرے ایک طرف، مذہبی تعصب مغربی معاشرے کی عقل بھی چاٹ رہا ہے، مسلمان اس تعصب کا بدترین شکار ہیں، رتی برابر لیکن کسی کو پروا نہیں، جو طاقتور ہے، وہی حق پر ٹھہرا۔
آدم صالح حیران ہے، خود سے وہ پوچھتا ہے اسے امریکی طیارے سے زبردستی کیوں اتار دیا گیا۔ وہ آدم صالح جو معروف بلاگر اور فلم ساز ہے، سوشل میڈیا پر جس کے لاکھوں پرستار ہیں، لندن سے نیویارک آنے کے لیے امریکی ایئرلائن کے جہاز پر سوار ہوا، اڑان سے پہلے اس نے اپنی والدہ سے فون پر عربی میں بات کی تو ہنگامہ برپا ہو گیا۔ قریب بیٹھی سفید فام عورت چِلانے لگی کہ وہ خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہے۔ اس نے صالح سے کہا کہ وہ عربی میں نہیں انگریزی میں بات کرے۔ کئی دیگر سفید فام مسافر بھی اس عورت کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ معاملہ جہاز کے عملے تک پہنچا، صالح نے انہیں پوری تفصیل بتائی، وضاحتیں پیش کیں لیکن سب بے سود۔ صالح اور اس کے دوست کو زبردستی طیارے سے اتار دیا گیا۔ یہ صرف صالح کی کہانی نہیں۔ گزشتہ برس دسمبر میں محمد احمد ردوان کی بھی ایسے ہی تضحیک کی گئی۔ وہ ردوان جو تیرہ برس سے امریکا کا مسلمان شہری ہے۔ ردوان جب امریکی ایئرلائن میں سوار ہوا تو جہاز میں اپنی نوعیت کا عجیب و غریب اعلان ہوا۔ عملے کی ایک خاتون رکن نے باآواز بلند کہا ''محمد احمد میں تم پر نظر رکھوں گی‘‘۔ چند لمحوں بعد پھر اس نے اعلان کیا ''سیٹ نمبر پچیس اے پر بیٹھنے والے محمد احمد، جس کا نام بہت لمبا ہے، میں تم پر نظر رکھوں گی‘‘۔ کچھ دیر بعد اس نے تیسری مرتبہ انتہائی غصیلے لہجے میں کہا ''سیٹ نمبر پچیس اے پر بیٹھے والے شخص، تم پر میری نظر ہے‘‘۔ ردوان عملے کی اس حرکت پر ہکا بکا رہ گیا۔ اُس نے عملے سے اپنا قصور پوچھا تو کوئی جواب نہ ملا، پھر دریافت کیا کہ کسی اور مسافر کا نام لے کر ایسا اعلان کیوں نہ کیا گیا؟ اس سوال پر جہاز کے عملے کاپارہ چڑھ گیا، ردوان سے ایسا برتائو کیا گیا کہ جیسے وہ دہشت گرد ہو، پھر اسے طیارے سے زبردستی اتار دیا گیا۔ بارہ ماہ گزر چکے، اس تعصب پر ردوان اب تک ذہنی دبائو کا شکار ہے۔ رواں برس مارچ میں شکاگو سے واشنگٹن جانے والی پرواز میں اس سے بھی بدتر واقعہ پیش آیا۔ اس فلائٹ میں ایک مسلمان محمد شبلی، اس کی اسکارف پہننے والی اہلیہ اور تین بچے بھی سوار تھے۔ محمد شبلی نے ایئرلائن کے قواعد کے مطابق اپنے چھوٹے بچے کے لیے مخصوص عارضی سیٹ مانگی تو عملہ خوف کا شکار ہو گیا۔ پہلے یہ سیٹ دینے سے انکار کیا گیا اور پھر پورے خاندان کو جہاز سے اترنے کا حکم دیا گیا۔ اس صورت حال میں شبلی کے بچے شدید ذہنی دبائو میں آ گئے۔ اس واقعہ پر شبلی کی اہلیہ ایمان نے سوشل میڈیا پر یہ پیغام جاری کیا ''یونائیٹڈ ایئرلائن مجھے اور میرے اہل خانہ کو تعصب کا نشانہ بنانے پر تمہیں شرم آنی چاہیے، تمہارے پاس ہمیں جہاز سے اتارنے کا صرف یہ جواز تھا کہ ہم دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں، میرے تین بچے اتنے تلخ تجربے کو سہنے کے لیے بہت چھوٹے تھے‘‘۔ ایمان نے ثبوت کے طور پر اس واقعہ کی موبائل ویڈیو بھی جاری کی جسے اڑتیس لاکھ سے زائد لوگوں نے دیکھا۔
شکاگو یونیورسٹی کی طاہرہ احمد پر جو گزری، اسے یاد کرکے آج بھی ان کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ سر پر اسکارف پہننے والی طاہرہ نے واشنگٹن آنے والی پرواز میں ایئرہوسٹس سے پینے کے لیے کوکا کولا مانگی، ایئرہوسٹس ان کے لیے پہلے سے کھلا ہوا ''کین‘‘ لے آئی۔ طاہرہ نے درخواست کی کہ انہیں نیا بند ''کین‘‘ دیں‘ لیکن ایئرہوسٹس نے کہا کہ انہیں بند ''کین‘‘ نہیں دیا جا سکتا۔ چند لمحوں بعد ایئرہوسٹس نے طاہرہ کے قریب بیٹھے سفید فام شخص کو ''بیئر‘‘ کا بند ''کین‘‘ پیش کیا، اس پر طاہرہ نے پوچھا کہ اس شخص کو بند کین دیا جا سکتا ہے تو مجھے کیوں نہیں؟ ایئرہوسٹس نے زہر بجھے لہجے میں کہا‘ ''بند کین اس لیے نہیں دیا جا سکتا کہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس پر طاہرہ نے استفسار کیا کہ میرے برابر بیٹھے شخص کو بند کین دیا جا سکتا ہے لیکن مجھے نہیں، کیا یہ واضح امتیازی سلوک نہیں؟ طاہرہ کے سوال پر ایئرہوسٹس نے پھر تعصب بھرا جواب دیا کہ ''انہیں بند کین اس لیے نہیں دیا جا سکتا تاکہ وہ اسے بطور ہتھیار استعمال نہ کر سکیں‘‘۔ طاہرہ نے اس تعصب پر اطراف میں بیٹھے مسافروں کو متوجہ کیا تو الٹا انہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ ایک مسافر ان کی طرف لپکتے ہوئے چِلایا ''او مسلمان، تمہیں معلوم ہے تم اس کین کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرو گی، اب اپنی بکواس بند کرو‘‘۔ اس پر طاہرہ بلک بلک کر رونے لگیں اور ان کا چہرہ آنسوئوں سے تر ہو گیا۔ رواں برس اپریل میں ایک عرب مسلمان خیرالدین مخزومی کو فون پر لفظ ''انشااللہ‘‘ بولنے پر امریکی پرواز سے زبردستی اتار دیا گیا۔ صرف یہی نہیں، اس کے بعد مخزومی کو تحقیقات کے اذیت ناک مرحلے سے بھی گزرنا پڑا۔ اپریل میں ہی حجاب پہننے والی صومالی مسلمان خاتون کو شکاگو ایئرپورٹ پر جہاز سے اتار دیا گیا۔ رواں برس اگست میں فیصل علی اور ان کی حجاب پہننے والی اہلیہ نازیہ بھی امریکی ایئرلائن میں مذہبی تعصب کا نشانہ بنے۔ انہیں جہاز سے یہ کہہ کر اتار دیا گیا کہ فیصل نے فون پر میسج کیا اور اسے پسینہ بھی آرہا تھا۔ اس جوڑے نے عملے کو بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کو میسج کر رہے تھے، اگر عملہ چاہے تو خود ان کے فون چیک کر لے لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔
مغرب میں مذہبی تعصب کی ایک دو نہیں، سیکڑوں داستانیں ہیں۔ اس تضحیک پر آواز اٹھانے کی جرات اگرچہ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ اگر چند مسلمان دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں تو انہیں پوری مسلم دنیا اور اسلام سے نہیں جوڑا جا سکتا۔ سابق امریکی صدر بش اور برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی ثابت شدہ ریاستی دہشت گردی سے عراق میں ڈیڑھ لاکھ عام افراد لقمہ اجل بنے، کیا اس بنیاد پر تمام امریکیوں اور برطانویوں کو دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟ 1995ء میں امریکی شہر اوکلاہاما اور 2011ء میں ناروے میں ہونے والے بم حملوں میں سفید فام ملوث تھے، ان واقعات میں 245 افراد ہلاک ہوئے۔ اس بنیاد پر تمام سفید فاموں کو شک کی نظر سے دیکھا جائے اور انہیں تعصب کا نشانہ بنایا جائے تو انہیں کیسا لگے گا؟ یورپ اور امریکا میں تنہائی پسند نفسیاتی اور متعصب سفید فام شہری قتل و غارت کی درجنوں وارداتیں کر چکے، انہیں ''Lone Wolves‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیا ان ''تنہا نفسیاتی بھیڑیوں‘‘ کے باعث عوامی مقامات، بسوں، ٹرینوں اور جہازوں پر تمام سفید فاموں کی خصوصی نگرانی ہونی چاہیے؟ تعصب ایک آسیب ہے، جن معاشروں پر اس کے سائے چھا جائیں، وہاں نفرتوں کی فصلیں اگتی ہیں اور نفرتیں ہی دہشت گردوں کا ہتھیار بنتی ہیں۔ کیا آسیب نگری بننے والے مغرب کو یہ بات سمجھ نہیں آتی؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں