قومیں طوفانوں سے لڑتی ہیں، زندہ قومیں ‘ صرف جرأت نہیں، حکمت بھی اس کے لیے درکار ہوتی ہے ۔ ہماری حِکمت کیا ہے ؟طوفان دیکھ کر ریت میں سر چھپا لینا، شترمرغ کی طرح ۔اس طرح بھی کبھی طوفان ٹلے ہیں؟ٹرمپ کے امریکاسے ایک طوفان اٹھ چکا،جو پاکستان کا رخ بھی کر سکتا ہے۔ دیکھنے والے اسے دیکھ سکتے ہیں، کوئی آنکھیں بند رکھنا چاہے تو الگ بات ہے ۔
قابل صد احترام حافظ سعیدکی، فلاحی خدمات بہت ہیں، لیکن صرف پاکستانیوں کے لیے ۔زلزلہ ہو، سیلاب کی تباہ کاریاں یا دیگر قدرتی آفات، ہزاروں بے بسوں کا آسرا حافظ سعید کی فلاحی تنظیمیں بنیں۔تصویر کا یہ ایک رخ ہے ، وہ رخ جو پاکستانیوں کے سامنے ہے ، دنیا مگر اس تصویر کا دوسرا رخ دیکھتی ہے ۔ وہ رخ جو بھارت نے ابھارا ہے ، موثر سفارت کاری سے ۔ ایک ایسے شخص کا تصور جو تخریب کار ہے اور جس نے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کی ۔کسی اور نے نہیں، خود ہم نے عالمی سطح پر اس تاثر کو تقویت دی ، اپنی پالیسیوں سے ‘80ء اور90ء کی دہائی سے ہم اب تک نہیں نکل سکے۔ مسئلہ کشمیر پر اُس وقت ایک پالیسی بنائی گئی ، شاید اُس وقت کے معروضی حالات کے مطابق ۔ اب مگر حالات اور ہیں۔ وقت بدلااورسفارتی تقاضے بھی لیکن ہماری سوچ بدلی نہ پالیسی ۔ چھیاسٹھ برس ہوتے ہیں، نسل درنسل بیچارے کشمیری بھارتی درندگی کا شکار ہیں۔ یہ محض پاکستان کا الزام نہیں، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیںسب کچھ ثابت کر چکیں ۔ ہم نے مگرمظلوم کشمیریوں کا مقدمہ مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیا، اپنی نادانیوں سے ۔ نائن الیون حملوں کے بعد دنیا بدل گئی۔ دہشت گردی اور تحریک آزادی میں کیا فرق ہے، دنیا کو یہ سمجھانا بہت مشکل ہو چکا۔بھارت نے ممبئی حملوں کا ذمہ دار حافظ سعید کو ٹھہرایا ،اقوام متحدہ، امریکا اور یورپ نے ان کی تنظیم پر پابندیاں لگائیں ، امریکا نے حافظ سعید کو دہشت گرد قرار دیا، انہیں گرفتارکروانے یا مروانے پر ایک ارب روپے انعام کا اعلان بھی کیا۔پاکستان پر جب بھی عالمی دبائو بڑھا، حافظ سعید یا ان کے قریبی ساتھیوں کو عارضی طور پر نظر بند کیا، پھرقانونی اور دیگر وجوہ پر رہا کر دیا ۔ یوں دبائو بڑھنے اور گھٹنے کے ساتھ ساتھ نظربندی اور رہائی کی آنکھ مچولی چلتی رہی ۔ بھارت نے کبھی سچی جھوٹی کہانیاں گھڑیں، کبھی کچے پکے ثبو ت دیے ، ہم بھی کبھی آدھا اقراراور آدھا انکار کرتے رہے ‘ یہ سب اپنی جگہ لیکن زمینی حقیقت خاصی تلخ ہے۔عالمی سطح پر حافظ سعید کی شخصیت کا تاثر انتہائی منفی ہے ۔اس منفی تاثر کے باوجود وہ کھلے عام جلسے جلوس کرتے رہے، جوشیلے خطابات بھی کیے ، کسی نے انہیں روکا نہ ٹوکا۔ بین الاقوامی برادری کو کیا پیغام گیا ؟2016ء کے وسط تک یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن پھر کہانی میں نیاموڑ آیا ۔آٹھ جولائی کو بھارتی فوج نے برہان وانی کو شہید کر دیا ۔ اس واقعہ پر پورا کشمیر سلگ اٹھا، احتجاجی تحریک دبانے کے لیے نہتے کشمیریوں پر گولیاں برسائی گئیں،مخصوص چھروں سے کم سن کشمیری فرشتوں کی بینائی چھین
لی گئی ۔ اس بربریت پر عالمی میڈیا اورانسانی حقوق کے ادارے چِلا اُٹھے۔طویل عرصے بعد بھارت کا روایتی پروپیگنڈا ناکام ہونے لگا، یہ پروپیگنڈا کہ کشمیر میں آزادی کی تحریک حقیقی نہیں بلکہ محض پاکستان کی در اندازی ہے ۔ دو ہفتے بعد اس معاملے میں ایک ڈرامائی موڑ آ گیا ۔حافظ سعید نے گوجرانوالہ میں ایک اجتماع سے خطاب کیا ، جوش خطابت میں انہوں نے دعوی کیا کہ برہانی وانی نے شہادت سے پہلے ان سے رابطہ کیا تھا‘ ساتھ یہ بھی کہا کہ آسیہ اندرابی نے روتے ہوئے ان سے پوچھا کہ میرے بھائیوتم کہاں ہو، اس پر انہوں نے جواب دیا ''میری بہن ہم آرہے ہیں ‘‘۔ بھارتی حکومت اور میڈیا کو جو چاہیے تھا انہیں مل گیا۔ حافظ سعید کی وڈیو صبح شام بھارتی میڈیا پر چلنے لگی، پاکستان کے خلاف زہر بجھی سُرخیاں لگائی گئیں، یوں کشمیریوں کے لہو سے سینچی تحریک کو پاکستان کی دراندازی ثابت کیا جانے لگا۔اس کے بعد پاکستان نے جب بھی عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اٹھایا، اسے حافظ سعید کے متعلق سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔جاننے والے جانتے ہیں کہ کشمیر میں اٹھنے والی حالیہ لہر سے حافظ سعید کا کوئی تعلق نہیں، اپنے جذبات پر مگر وہ قابو نہیں رکھ سکتے۔
اٹھارہ ستمبر2016ء کوبھارتی فوج کے اُڑی کیمپ پر حملہ ہوا۔ بھار ت نے اس کا الزام جیش محمد پر دھر دیا، اگرچہ کوئی ثبوت دیا گیا نہ واقعاتی شواہد پیش کیے گئے ۔ 29ستمبر 2016ء کو بھارت نے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیکس کاڈرامہ رچایا لیکن اس کا پول کھل گیا۔ اس کے بعد بھارت نے پاکستان پرسفارتی جنگ مسلط کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی موثر مہم چلائی گئی ۔ اسی مہم کے باعث پاکستان میں سارک کانفرنس منسوخ ہوئی ،افغانستان اور بنگلہ دیش بھی بھارت کی زبان بولنے لگے ۔ اس بڑے سفارتی جھٹکے کے بعد بھی ہمارے پالیسی سازوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اُدھر بھارت پوری دنیا میں پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرتا رہا، اِدھرالزامات
کی زد میں رہنے والے حافظ سعید اور دیگر غیر ریاستی عناصرکھلے عام ریلیاں نکالتے رہے ۔یوں ہم خود بھارتی موقف کو تقویت دیتے رہے ۔ مصلحت کے تحت ان تنظیموں کی سرگرمیاں محدود کی جاسکتی تھیں،حکمت کا مگر ہم سے کیا لینا دینا۔نومبر 2016ء میںانہونی ہوئی اورڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر منتخب ہو گئے ، وہ ڈونلڈ ٹرمپ جو انتخابی مہم میں بھارت پر نرم لیکن پاکستان پر گرم رہے۔ٹرمپ کے منتخب ہوتے ہی امریکا میں بھارتی لابی پاکستان کے خلاف مزید متحرک ہوگئی ۔ پاکستان کے غیر ریاستی عناصر کا معاملہ پوری قوت سے اُٹھایا گیا۔اس صورت حال میں بھی ہم لمبی تان کر سوئے رہے۔ہم اسی خام خیالی میں رہے کہ اوباما ہو یا ٹرمپ، کوئی مائی کا لال ہم جیسے اہم ترین ملک کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ہمیں یہ زعم بھی رہا کہ چین اپنا یار ہے، اگرچہ جاننے والے جانتے ہیں کہ چین بھی غیرریاستی عناصر کا بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک چکا ہے۔لیکن پھر حالات تبدیل ہو گئے۔
پاکستانی معاشرے میں حافظ سعید کا تصور ایک مددگار شخص کا ہے،شاید کسی خاص وقت پر، کسی خاص پالیسی کے تحت کشمیر کے لیے ان کی خدمات بھی رہی ہوں گی ۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن ہم وقت کی نبض پر ہاتھ نہیں رکھ سکے، زمانہ بدل چکا اور زمانے والے بھی۔ نائن الیون کے بعد جس طرح دنیا میں بھونچال آیا، ٹرمپ کی آمد سے بھی ایک طوفان اٹھ رہا ہے۔اب اس طوفان کا نشانہ بننا ہے یا اس کا رخ موڑنا ہے، فیصلہ کسی اورنے نہیں ، ہم نے خود کرنا ہے ۔