سرحدیں بند ہوں تو دل بھی بند ہو جاتے ہیں، سرحد کے آر پار دھڑکنے والے دل۔ محبتیں مرنے لگتی ہیں، نفرتیں بڑھنے لگتی ہیں۔ ایک گھر اگر جلتا ہو، ساتھ والا گھر بھی کیا جھلس نہیں جاتا؟ بس اتنی سی بات سمجھنی ہے، سرحد کے اِس طرف پاکستان کو، سرحد کے اُس طرف افغانستان کو۔
گھائو ہمیں بہت گہرا لگا ہے، جسم ہمارا زخموں سے چور چور ہے۔ پرانے زخم ابھی بھرتے نہیں، نئے زخم ہمیں لہولہان کر ڈالتے ہیں۔ دکھ اور درد حد سے گزر جائیں تو انتقام کا جذبہ جنم لیتا ہے۔ بدلہ لینا ضروری ہے مگر دہشت گردوں سے۔ جوش پر ہوش ہمیشہ غالب رہنا چاہیے۔ سرحد پار سے دہشت گرد ہم پر حملہ آور ہیں، عام افغان نہیں۔ بجا کہ سوال بہت ہیں، جواب کوئی نہیں۔ مُلا فضل اللہ چھلاوا بن کر افغانستان میں کہاں روپوش ہے۔ وہ ملافضل اللہ جس کے حکم پر پشاور کا سکول مقتل بنا، 132 بچے چھلنی کر دیے گئے۔ کیا افغان ایجنسیوں نے اسے محفوظ پناہ گاہ دے رکھی ہے؟ یا کوشش کے باوجود اسے نشانہ نہیں بنایا جا سکا۔ سو سوالوں کا مگر ایک سوال اور بھی ہے، ملا منصور کو تو پاکستان میں بھی ڈھونڈ نکالا گیا، امریکی ڈرونز نے تاک کر اسے نشانہ بھی بنا ڈالا۔ حکیم اللہ محسود بھی شمالی وزیرستان میں امریکیوں کی عقابی نگاہوں سے بچ نہ پایا۔ اس سے پہلے ولی الرحمان میران شاہ میں ڈرون کا شکار ہوا۔ بیت اللہ محسود کو بھی ڈرون حملے میں ٹھکانے لگا دیا گیا۔ امریکی چپ چاپ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن تک بھی آن پہنچے۔ پاکستان میں تو کوئی ان کی نظروں سے اوجھل نہیں، اِدھر تو ٹھیک ٹھیک نشانے لگائے جاتے ہیں، اُدھر ملا فضل اللہ نے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی ہے؟ خراسانی، احسان اللہ احسان، عزت اللہ، منگل باغ، حافظ دولت، مُلا طوفان اور سجنا گروپ کے دہشت گرد کون سے آہنی قلعوں میں چھپے ہیں؟ پاکستان میں کارروائیاں کروانے والے طالبان اور داعش کے گروہوں کی کمین گاہیں کنڑ اور ننگرہار میں ہیں۔ جاننے والے سب جانتے ہیں۔ اگر افغان حکومت اور امریکا جانتے بوجھتے انجان بنے رہیں تو الگ بات ہے۔ یہ سب حقائق تصویر کا ایک رخ ہیں، ایسا رُخ جو پاکستان افغانستان کو دکھانا چاہتا ہے۔ اس تصویر کا ایک رُخ اور بھی ہے، وہ رُخ جو افغانستان پاکستان کو دکھانا چاہتا ہے۔ ہمارے پاس شکووں کے انبار ہیں تو افغانستان کے پاس بھی بے شمار شکایات ہیں۔ افغان حکومت کا الزام ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں، یہ نیٹ ورک افغانستان میں دہشت گردی کا بڑا ذمہ دار اور سہولت کار قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان پر یہ الزام بھی ہے کہ افغان طالبان کی شوریٰ کوئٹہ اور کراچی میں چھپی ہوئی ہے۔ یوں جیسے کو تیسا کے چکر میں دونوں طرف بداعتمادی ہے، دونوں طرف قتل و غارت گری جاری ہے، دونوں طرف انسانوں کے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں، اِدھر بھی اتنے لاشے کہ قبریں کم پڑ گئیں، اُدھر بھی اتنے جنازے کہ کفن کم پڑ گئے۔
پاکستان اور افغانستان کا ایک دوسرے پر الزام ہے کہ دہشت گرد سرحد پار کرکے ان کی سرزمین پر حملے کرتے ہیں۔ دونوں کا یہ موقف اتنا ہی پیچیدہ ہے جتنی پیچیدہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2400 کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ الجھی رسی جیسی یہ سرحد قبائلی علاقوں، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے اطراف لپٹی ہوئی ہے۔ اپنی نوعیت کی یہ پیچیدہ ترین سرحد ہموار میدانوں پر نہیں، سنگلاخ چٹانوں، بلند پہاڑوں، ڈھلوانوں اور دشوار گزار راستوں سے گزرتی ہے۔ اس سرحد پر آمد و رفت کے سولہ پوائنٹس قانونی ہیں۔ اس کے علاوہ بیسیوں غیرقانونی راستے بھی ہیں جن پر پیدل یا خچروں کے ذریعے سرحد پار کی جا سکتی ہے۔ کیا دونوں ملکوں کے لیے ایسی سرحد کی مکمل نگرانی ممکن ہے؟ بجا کہ سرحد کی نگرانی اہم ہے لیکن اس سے بھی اہم یہ ہے کہ دونوں طرف دہشت گرد اور ان کی پناہ گاہیں ختم کی جائیں۔ نہ دہشت گرد رہیں گے نہ وہ سرحد کے آر پار آ جا سکیں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنائو خطرے کے سرخ نشان تک پہنچ چکا۔ مغربی سرحد پر دونوں ملکوں کی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ دونوں ملک سرحد پر بھاری توپ خانہ پہنچا چکے ہیں۔ جنگ میں پہلی گولی کس نے چلائی، یہ پتہ چلانے تک دونو ں طرف لاشوں کے ڈھیر لگ چکے ہوتے ہیں، کھیت کھلیان، شہر اور دیہات بھسم ہو چکے ہوتے ہیں۔ جب دونوں طرف اشتعال ہو، دونوں خود کو مظلوم، دوسرے کو ظالم سمجھتے ہوں، جب دونوں ملکوںکے فوجی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے ہوں تو ذرا سی غلط فہمی بڑی جنگی جھڑپوں میں بدل سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو فتح پاکستان یا افغانستان کی نہیں بلکہ دہشت گردوں کی ہو گی۔ دونوں ملکوں کے وسائل دہشت گردوں کے خاتمے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوں گے۔ پاکستان اور افغانستان تین بڑی زمینی حقیقتیں نظر انداز کر رہے ہیں۔ پہلی آفاقی حقیقت یہ ہے کہ دونوں ملک ہمسائے ہیں، پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو کسی اور جگہ منتقل نہیں کر سکتے۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ اگر پاکستان میں بدامنی بڑھتی ہے تو اس سے افغانستان کا متاثر ہونا یقینی ہے، ایک کمزور پاکستان سے دہشت گرد زیادہ آسانی سے سرحد پار کرکے افغانستان میں کارروائیاں کر سکیں گے۔ اسی طرح اگر افغانستان مکمل عدم استحکام کا شکار رہتا ہے تو کیا وہ دہشت گردوں کو سرحد پار کر پاکستان آنے سے روکنے کے قابل ہو گا؟ تیسری زمینی حقیقت یہ ہے کہ سرحد کی نگرانی مسئلے کا واحد حل نہیں، اصل ہدف دونوں طرف دہشت گردوں اور ان کے
سہولت کاروں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بداعتمادی کا خاتمہ بھی ناگزیر ہو چکا۔ کھلے عام الزام تراشیوں سے دونوں طرف عوام میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے کی شکایات پر بات کرنے کے لیے سیاسی اور عسکری قیادت کا مشترکہ فورم بنایا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد سے کابل کے درمیان تیس منٹ کی کال کی قیمت پانچ سو روپے سے زیادہ نہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے پاس ایک دوسرے کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرستیں موجود ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اسلام آباد سے کابل اور کابل سے اسلام آباد آنے والی کالز پر یہ بتایا جائے کہ کتنے دہشت گردوں کو ہلاک کرکے ان کے ناموں پر ''کراس‘‘ لگا دیا گیا ہے۔ افغانستان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر کسی تیسرے ملک کو اثر انداز نہ ہونے دے۔ اگر سرحد کے دونوں طرف خونریزی جاری رہتی ہے تو متاثر پاکستان اور افغانستان کے عوام ہی ہوں گے، تیسرا ملک صرف تماشا دیکھے گا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدیں بند کرنا مسئلے کا حل نہیں، سرحدیں بند ہو جائیں تو تجارت، خوشحالی اور محبتوں کے دروازے بھی بند ہو جاتے ہیں۔ بچپن میں سانپ اور سیڑھی کا کھیل ہم سب نے ہی کھیلا ہو گا، پاکستان اور افغانستان کو بھی مل کر یہ کھیل کھیلنا ہے، مِل کر امن و خوشحالی کی سیڑھی چڑھنی ہے اور سانپ سے بچنا ہے، ہاں یہ کھیل تھوڑا پیچیدہ ضرور ہے، یہاں صرف دہشت گردی کے سانپ سے بچنا ہی نہیں، اسے کچلنا بھی ضروری ہے۔