خوف سے میچ

خوف بگاڑ دیتا ہے یا سنوار دیتا ہے ، خوف کی دلدل میں ڈوبنا ہے یا ڈٹ کر ابھرنا ہے ، فیصلہ انسان اورمعاشرے کرتے ہیں۔ہماری قوم اپنا فیصلہ سنا چکی ۔
پی ایس ایل کا فائنل برسوں زندہ رہے گا ، تاریخ میں اورہم سب کے دِلوں میں بھی ، کرکٹ کے حوالے سے کم، قومی عزم کے حوالے سے زیادہ ۔دہشت کی ایک لہر ہے، پھر بھی پوری قوم لاہور امڈ آنے کو بے تاب۔ٹکٹوں کے لیے قطاروں کی قطاریں، چوبیس چوبیس گھنٹے انتظار، جس کا بس چل گیا، قذافی اسٹیڈیم اُس کی منزل ہے ، ایک ایسا میچ دیکھنے کے لیے ، دہشت کے سائے جس پر لہرارہے تھے ، خوف کا حصار توڑ کر،قافلوں کے قافلے شہرِلاہور پہنچ رہے ہیں ۔ خوف کی اپنی نفسیات ہے ،کسی کو کس حد تک ڈرایا جا سکتا ہے ؟ خوف حد سے بڑھ جائے تو ختم ہو جاتا ہے ،پھرایک جذبہ بیدار ہوتا ہے، یہ جذبہ کہ جو ہو گا ، دیکھا جائے گا۔بجا کہ ایک خوفناک جنگ کاہمیں سامنا ہے ،ساٹھ ہزار لاشیں ہم اُٹھا چکے ، سفاک دشمن ہروقت ہماری تاک میں ہے،احتیاطی تدابیر سوفیصد لازم لیکن خوف کے آگے جھکنا کوئی راستہ نہیں۔ جو جُھکتا ہے، اُسے اور جھُکایا جاتا ہے، جو دبتا ہے، اُسے اور دبایا جاتا ہے ۔
دو برس ہوتے ہیں ، دسمبر ہمیں لہو رلاتا ہے ، پشاور کے اسکول میں 132بچوں کا لہو بہایا گیا۔ اس کا رد عمل کیا ہونا چاہیے تھا ؟ یہ کہ ہم پورے ملک میں سکول بند کر دیں؟ اپنے بچوں کو اسکول بھیجنا ہی چھوڑ دیں ؟ دہشت گرد وں نے آٹھ سو سے زیادہ اسکول تباہ کر ڈالے، کیاہم نے نئے سکول نہیں بنائے ؟اگست 2016میں کوئٹہ کے سول اسپتال میں خود کش حملہ ہوا، 74افراد شہید ، ڈیڑھ سو لہو لہان ہو گئے۔ کیا ہمیں تمام ہسپتال بند کردینے چاہیے ؟ستمبر 2013میںپشاور کا قصہ خوانی بازار دہشت گردوں کا نشانہ بنا، چالیس افراد شہید، سوا سو زخموں سے چور ہوئے ۔ 2009میں پشاور ہی کے مینا بازار دھماکے میں 135 افراد لقمہ اجل بنے ، کیا ہم بازار جانا چھوڑ سکتے ہیں ؟جنوری 2016میں باچا خان یونی ورسٹی کے بیس طلبا شہید کر دیے گئے ، کیا اس کے بعد تمام یونی ورسٹیاں بند کر دی گئیں؟اسلام آباد اورچارسدہ کی کچہریوں پر حملے ہو چکے، کیا تمام کچہریوں میں کام ٹھپ ہو گیا ؟مارچ 2016میں لاہور کے گلشن اقبال پارک میں خود کش حملہ ہوا، 72افراد موت کے منہ میں چلے گئے ، کیا ہم نے پارکوں میں جانا چھوڑ دیا ؟ سیہون شریف مزار پر دھماکے میں 90افراد کی جانیں گئیں، اس سے پہلے لاہور کے داتا دربار، خضدار میں دربار شاہ نورانی،ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی اوراسلام آباد میں امام بری دربار پر حملے ہو چکے ۔ کیا ملک بھر میں مزار بند ہو گئے ؟کراچی ایئرپورٹ دہشت گردوں کا نشانہ بن چُکا، ہماری ٹرینیں اور بسیں بھی ، کیا ہم نے سفر کرنا چھوڑ دیا ؟ ہماری عبادت گاہیں خون سے رنگین ہوئیں، کیا ان پر پکے تالے لگ چُکے؟
عمران خان لاہور میں فائنل کروانے پر برہم ہیں، عوامی رہنما ہیں لیکن عوام کی نبض پر اکثر ہاتھ نہیں رکھ پاتے۔کبھی کبھار کہنا کچھ اور چاہتے ہیں، کہہ کچھ اور جاتے ہیں ۔بات ٹھیک ہوتی ہے لیکن انداز نہیں ۔ اس بار دلیل ان کی بھی کمزور نہیں، دوسروں کے دلائل لیکن زیادہ ٹھوس ہیں، قائل کرنے والے ۔اگر فائنل لاہور میں نہ کروایا جاتا تودنیا کو کیا پیغام جاتا ؟ یہ کہ ملک میں دہشت گردوں کی مکمل عملداری ہے ، ریاست دہشت گردوں کے آگے جھک گئی ، تمام ریاستی ادارے ایک میچ کوبھی تحفظ نہیں دے سکتے ؟ سمجھنے والے سمجھ سکتے ہیں، یہ صرف ایک میچ کا معاملہ نہیں، مجموعی قومی ردعمل ہے ۔ویسے بھی آخری فیصلہ عوام کا ہوتا ہے،یہ فیصلہ کیا 
ہے، دیکھنے والے دیکھ رہے ہیں ۔شیخ رشید سے کسی کو لاکھ اختلافات ہوں ، عوام کی نبض محسوس کرنے کا ہنر وہ خوب جانتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ یک رکنی پارٹی کے باوجود ، ہر رو ز ٹی وی اسکرینوں کی زینت وہ بنے رہتے ہیں ۔عوامی جذبات دیکھتے ہوئے ہی انہوں نے فائنل کی ٹکٹ کٹوائی ، وہ بھی علامتی طور پر پانچ سو روپے والی ۔ساتھ ہی جذباتی نعرہ بھی لگایاکہ جو ڈر گیا وہ مر گیا۔پی ایس ایل فائنل کے لیے غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کوئی انوکھی بات نہیں ۔ نومبر 2015میں پیرس میں دھماکوں اورفائرنگ سے 137افراد مارے گئے ۔اس کے بعد دہشت گردی کی ایک لہر شروع ہو گئی ، چند ماہ بعد فرانس میں فٹ بال کی یورپی چیمپئن شپ ہونا تھی۔اس عالمی ٹورنامنٹ پرحملوں کی انٹیلی جنس اطلاعات ملیںاور سنگین سکیورٹی خدشات سامنے آئے۔ کیا ان خطرات کے باعث یہ مقابلے ملتوی یا منسوخ کر دیے گئے ؟ ہر گز نہیں ۔فرانسیسی صدر نے اعلان کیا کہ وہ خوف کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالیں گے ۔ پھر ان مقابلوں کے لیے سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی،کھلاڑیوں اورتماشائیوں کی حفاظت کے لیے ایک لاکھ اہلکار تعینات کیے گئے ۔کیاان سکیورٹی اقدامات سے دنیا کو کوئی منفی پیغام گیا ؟نہیں۔فرانس نے یہ پیغام دیا کہ وہ اتنا بے بس بھی نہیں کہ ایک ٹورنامنٹ کو تحفظ نہ دے سکے۔اگست 2016میں برازیل میں ہونے والے اولمپکس پر داعش کے حملوں کا سنگین خطرہ تھا۔اولمپکس شروع ہونے سے پہلے حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں 12افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ان خطرات کو دیکھتے ہوئے گرائونڈز کے اطراف پچاسی ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ۔سادہ کپڑوں میں ملبوس سیکڑوں اہلکار اسٹیڈیمز کے اندر بھی موجود رہے ۔یوں یہ عالمی مقابلے سخت حفاظتی حصار میں ہوئے لیکن دنیا کو کوئی منفی پیغام نہیں گیا۔اب اگرپی ایس ایل کے فائنل پر کڑا پہرا ہے تو اس میں قباحت کیا ہے؟
بجا کہ صرف سکیورٹی بڑھانا دہشت گردی کا حل نہیں، کوتاہیاں ہم سے بہت ہوئیں، ناکامیاں ہماری بہت ہیں لیکن کامیابیاں بھی کچھ کم نہیں۔ایک طویل اور پیچیدہ جنگ ہم لڑ رہے ہیں ۔پندرہ برس ہوتے ہیں امریکی فوج افغانستان پر چڑھ دوڑی تھی، جدید ترین اسلحے اور ٹیکنالوجی سے لیس امریکی فوج۔زمین پر جب اس فوج نے قدم اتارے تو چودہ طبق روشن ہو گئے ۔ڈیڑھ عشرہ گزر گیا،700کھرب روپے پھونک دیے گئے ، تیس ملکوں کی افواج مل کر بھی یہ جنگ نہیں جیت سکیں ۔ ہماری جنگ بھی ابھی جاری ہے۔جنگ جیتنے کے لیے سب سے پہلے خوف کا حصار توڑنا ہوتا ہے۔جو قومیں خوف کا حصار توڑ دیتی ہیں، آخری فتح انہی کی ہوتی ہے ۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں