جاسوسوں کی اپنی تاریخ ہے، ایک قوم کے وہ ہیرو، دوسری کے وِلن ہوتے ہیں۔ جاسوسی اور دہشت گردی میں مگر فرق ہے۔ کلبھوشن صرف جاسوس نہیں، دہشت گرد بھی ہے، ہم اور ہمارے ادارے تو یہ جانتے ہیں، دنیا کو بھی لیکن یہ سمجھانا ضروری ہے۔
جاسوسوں کو کڑی سزائیں دینے کی تاریخ پرانی ہے۔ ان کی گردنیں کاٹی جاتیں، اونچی فصیلوں سے گرایا جاتا، بھوکے شیروں کے سامنے ڈالا جاتا، پورے شہر کے سامنے، نشانِ عبرت بنانے کے لیے۔ جاسوسوں کو سزائے موت دینا، جدید تاریخ میں بھی معمول رہا۔ پچپن برس ہوتے ہیں، برلن کے ایک پُل پر تاریخ نیا موڑ مُڑ گئی۔ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا الائو بھڑک رہا تھا۔ نفرتوں کے اس دور میں ایک حیران کن فیصلہ کیا گیا، گرفتار جاسوسوں کے تبادلے کا فیصلہ۔ گِلینک پُل پر سوویت جاسوس کرنل رڈولف اور امریکی جاسوس فرانسیس گیری کو رہا کر دیا گیا۔ 1985 میں بھی اسی پُل پر 23 گرفتار امریکی جاسوسوں اور تین سوویت جاسوسوں کا تبادلہ ہوا۔ اگلے برس پھِر اسی مقام پر گرفتار ایجنٹس ایک دوسرے کے حوالے کیے گئے۔ یہ پُل اب جاسوسوں کا پُل کہلاتا ہے۔ امریکا اور روس نے جاسوسوں کا تبادلہ کیوں شروع کیا، اس کے پیچھے ایک کہانی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں مرا ہوا جاسوس لاکھ کا، زندہ سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ گرفتار جاسوس کی جان لینے سے، اسے زندہ رکھنا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ اُس کے ذریعے پورے نیٹ ورک کا کھوج لگائیں، تانے بانے مِلائیں، پھر کسی اہم موقع پر سودے بازی کا ہتھیار بنائیں۔
کلبھوشن کی کارستانیاں کوئی گھڑا ہوا فسانہ نہیں، حقیقت ہیں۔ ایرانی شہر چاہ بہار میں اُس نے 2003 میں ٹھکانہ بنایا، کاروبار کی آڑ میں۔ اگلے دو برس وہ کراچی آتا جاتا رہا، دہری شناختی اور سفری دستاویزات پر۔ 2013 میں بھارتی ایجنسی ''را‘‘ نے اسے ایک بڑا مشن سونپ دیا۔ گوادر، پسنی اور جیوانی میں تخریب کاری کروانے کا مشن۔ بلوچستان میں شرپسندوں کو مالی امداد اس نے پہنچائی۔ تربت اور گوادر میں اُس نے بارودی سرنگ کے دھماکے اورگرنیڈ حملے کروائے۔ جیوانی میں ریڈار اسٹیشن اور کشتیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ سِبی اور سوئی میں گیس پائپ لائنوں پر دھماکوں میں معاونت کی۔ 2015 میں کوئٹہ میں بھی بارودی سرنگ کا بڑا دھماکا کروایا۔ کلبھوشن بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے، اُسے 2022 میں ریٹائر ہونا تھا۔ کلبھوشن کی گرفتاری پر بھارت کا پہلا ردعمل بھونڈا تھا۔ پورا انکار نہ پورا اعتراف، تسلیم کیا کہ وہ نیوی افسر ہے، ساتھ یہ کہانی بھی سنائی کہ ریٹائر ہو چکا۔ بھارت کا کھوکھلا موقف اگر مان لیا جائے، پھر بھی سوال بہت ہیں، جواب کوئی نہیں۔ کلبھوشن یادیو نے بطور ہندو اور مسلمان، دو الگ پاسپورٹس کیوں بنوائے؟ اُسے حسین مبارک پٹیل کے نام سے پاسپورٹ کیوں جاری کیا گیا؟ بھارت میں اس کے پاسپورٹ نمبر کی تصدیق ہو چکی، یہ بھی ثابت ہو چکا کہ فرضی پاسپورٹ بھارتی شہر پونا سے جاری ہوا۔ کلبھوشن اس پاسپورٹ کے ساتھ بلوچستان میں کیا کر رہا تھا؟ بھارت کا الزام ہے کہ پاکستان نے اسے ایران سے اغواکیا، کیا یہ ممکن ہے؟ اگر ایسا ہوا تو ایران نے پاکستان سے احتجاج کیوں نہیں کیا؟ خود بھارتی میڈیا کی ایک تحقیقاتی رپورٹ کلبھوشن کا بھانڈا پھوڑ چکی۔ رپورٹ کے مطابق کلبھوشن دورانِ ملازمت لمبے عرصے کے لیے غائب ہو جاتا تھا۔ ایران نے اس کی سرگرمیوں سے بھارت کو آگاہ کر دیا تھا۔ اس کے ساتھی افسران نے بتایا کہ انہیں کلبھوشن پر شبہ تھا۔
کلبھوشن کو تین مارچ دو ہزار سولہ کو گرفتار کیا گیا۔ اُس وقت جب وہ ایران سے ساراوان سرحد پار کرکے بلوچستان میں داخل ہوا۔ پچیس مارچ کو اُس نے اعترافی ویڈیو بیان دیا۔ چوبیس ستمبر دو ہزار سولہ سے بارہ فروری دو ہزار سترہ تک فیلڈ جنرل مارشل کی عدالت میں مقدمہ چلا۔ دس اپریل کو کلبھوشن کا سزائے موت سنا دی گئی۔ اُسے وکیل کی خدمات فراہم کی گئیں، عینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ ہوئے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ اس مقدمے میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے، ایک تلخ زمینی حقیقت مگر اور بھی ہے، فوجی نظام کے تحت ہونے والے فیصلوں کو عالمی سطح پر قبولیت حاصل نہیں، خاص طور پر حساس نوعیت کے مقدمات میں۔ بھارتی حکومت اس کیس کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا واویلا کر رہی ہے۔ عالمی اور سفارتی سطح پر بھی پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ ایک نیا ڈھونگ ہو سکتا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ پاکستان اس مقدمے کو سپریم کورٹ میں نہیں جانے دے گا‘ یوں پوری دنیا میں وہ اپنی مظلومیت اور معصومیت کا ڈھنڈورا پیٹے گا۔ پاکستان اس چال کو بھارت کے منہ پر مار سکتا ہے، جوش سے نہیں اگر ہوش سے کام لیا جائے۔ بھارتی حکومت اگر سپریم کورٹ جانا چاہے تو پاکستان کو ذرہ برابر ہچکچانا نہیں چاہیے۔ کلبھوشن کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں، اعلیٰ عدالتوں سے بھی اس کی سزائے موت کی توثیق یقینی ہے۔ اس فیصلے کے بعد بھی کلبھوشن کو فوراً لٹکانے کی ضرورت نہیں۔ کلبھوشن پاکستان میں بھارتی مداخلت اور دہشت گردی کی زندہ نشانی ہے۔ جب تک وہ زندہ رہے گا، یہ نشانی اورکہانی زندہ رہے گی۔ پاکستان اس کے ذریعے برسہا برس بھارت کو بے نقاب کرتا رہے گا، خاص طور پر نازک اور اہم مواقع پر۔ کلبھوشن مر گیا تو یہ نشانی اورکہانی بھی دو چار سال بعد مر جائے گی۔ تنگ و تاریک کال کوٹھڑی میں سسک سسک کر جینا، پھر وہیں مرنا، پھانسی سے زیادہ اذیت ناک اور عبرت ناک ہوتا ہے۔ دنیا کے اہم ممالک جاسوسوں کو تختہ دار پر چڑھانے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ اس کے پیچھے محض سفارتی تقاضے نہیں، گہری سوچ اور حکمت کارفرما ہے۔ کلبھوشن پاکستان کے لیے تُرپ کا پتہ ہے، کسی نازک صورت حال میں اسے سودے بازی کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کلبھوشن کے متعلق بھارت میں بھی کئی حقائق سامنے آ چکے، بہت سے حقائق ابھی سامنے آنا باقی ہیں۔ کچھ کہانیاں ہم پڑھ اور سن چکے، کئی کہانیاں لیکن ابھی ادھوری ہوں گی، وہ کہانیاں جن کا سِرا گھوم پھر کر کلبھوشن سے مل سکتا ہے۔ اب ہمیں زندہ کلبھوشن چاہیے یا مردہ، فیصلہ کسی اور نے نہیں، ہم نے خود کرنا ہے۔