پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے‘ جو ان دنوں اسلام آباد میں ہیں اور پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کی تیاری کرتے نظر آتے ہیں‘ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری پر وہی الفاظ استعمال کیے ہیں‘ جو ایم کیو ایم اپنے کارکنوں اور قائدین کی گرفتاری پر استعمال کرتی ہے۔ بلاول نے وفاق کو وارننگ دی کہ سوچ سمجھ کر پیپلز پارٹی کے کارکنوں پر ہاتھ ڈالا جائے‘ اور یہ انکشاف کیا کہ وہ پارٹی کے خلاف لکھے گئے ''سکرپٹ‘‘ کے کرداروں سے مکمل طور پر واقف ہیں۔ سید خورشید شاہ نے‘ جو مفاہمت کی سیاست کے سب سے بڑے حامی ہیں‘ کہا ہے کہ آصف علی زرداری پر ہاتھ ڈالا گیا ''تو جنگ کی ابتدا ہو گی‘‘۔ وہ جوشِ خطابت میں اس حد تک چلے گئے کہ یہ تک کہہ ڈالا: ''فیصلہ کر لیا جائے کہ پاکستان کو رکھنا ہے یا غیر مستحکم کرنا ہے‘‘۔ انھیں اس بات کا سخت رنج اور غصہ ہے کہ ڈاکٹر عاصم حسین سے پہلے تفتیش کیوں نہیں کی گئی‘ گرفتار کیوں کیا گیا؟ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے ایک بہت باریک نکتہ اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ کیا کرپشن صرف کراچی میں ہو رہی ہے؟ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ دوسرے صوبوں میں بھی کرپشن ہو رہی ہے‘ اس لیے ان کرپٹ افراد کو گرفتار نہ کیا جائے جن کا تعلق کراچی سے ہے۔ ''کرپشن پر ہاتھ ڈال کر پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے‘‘۔ یہ بڑا عجیب موقف ہے کہ کسی کرپٹ کو صرف اس لیے گرفتار نہ کیا جائے کہ اس کا تعلق ایک صوبے سے ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ معاشی دہشت گردی بھی ایک حقیقت ہے۔ وہ پارٹی جو عوام کی پارٹی تھی اور جس کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو کر رہے تھے‘ اس پر اور اس کی ملک بھر کی قیادت پر کرپشن کا کوئی الزام نہ تھا۔ اس پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ جس جنگ کی بات کی‘ وہ تو غربت‘ بے روزگاری اور جہالت کے خلاف تھی۔ مذہبی انتہاپسندی اور سرمایہ داروں کی معاشی دہشت گردی کے خلاف تھی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ جب کرپـٹ عناصر کو گرفتار کیا جا رہا ہے تو پیپلز پارٹی کا موقف یہ ہے کہ ''پارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے‘‘۔ جس نیشنل ایکشن پلان پر وہ اپنی مہر تصدیق ثبت کر چکے ہیں‘ آج وہ اسی کے بارے میں وضاحتیں مانگ رہے ہیں۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا آغاز ہونے والا ہے اور اس سلسلے میں بلاول بھٹو زرداری پنجاب میں پارٹی کو منظم کرنے کے لیے اسلام آباد میں موجود ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا‘ مگر ان کی پیپلز پارٹی کو جو پذیرائی پنجاب میں ملی وہ دیدنی تھی۔ تاریخی طور پر پیپلز پارٹی ایک سوچ، ایک فلسفے کا نام ہے اور سوچ اور فلسفہ مرتا نہیں، اسے سرکاری طاقت سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ وفاق کی پارٹی کے بارے میں 2013 ء کے انتخابات کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے‘ تو تین نشستیں حاصل کر سکی پیپلز پارٹی کا پنجاب سے صفایا ہو چکا ہے۔ سندھ کے سوا دیگر دو صوبوں میں بھی اس کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پیپلز پارٹی پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے‘ جو وفاق کی نمائندہ تھی‘ اور اب کوئی بھی جماعت ایسی نہیں ہے‘ جس کی موجودگی کراچی تا خیبر ہو۔ نہ مسلم لیگ (ن) کو وفاق کی نمائندہ جماعت کہا جا سکتا ہے‘ اور نہ ہی پی ٹی آئی سندھ اور بلوچستان میں کوئی وجود رکھتی ہے۔ اس لئے کوئی بھی محب وطن پاکستان کی واحد قومی جماعت کو ایک صوبے تک محدود ہوتے دیکھ کر خوش نہیں ہو سکتا۔
صرف پیپلز پارٹی ہے‘ اپنے لیڈر کو آمریت کے ہاتھوں کھو دینے، مارشل لاء کی صعوبتیں برداشت کرنے، کوڑے کھانے، قید و بند کی اذیت سہنے کے باوجود جس کے جیالے کے جوش، ولولے اور حوصلے میں کوئی کمی نہ آئی۔ اپنی جماعت سے اس کی کمٹمنٹ دیدنی تھی۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی گونج اس کے رگ و پے میں زندہ تھی اور اس نے جیالے کو زندہ اور پُرعزم رکھا ہوا تھا۔ 1979ء کے بلدیا تی انتخابات میں عوامی حمایت اس کے حق میں تھی‘ اس لیے کامیابی ملی۔ بے نظیر بھٹو جب جلاوطنی کے بعد وطن واپس لوٹیں تو ان کا جو شاندار استقبال ہوا‘ وہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی پر لٹکا دیا گیا‘ لیکن ان کی سوچ اور فلسفہ زندۂ جاوداں تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو نے جو سیاست شروع کی‘ وہ عوام کی سیاست تھی، جس میں غر یب، کچلے ہوئے عوام، کسان، مزدور اور طالب علم کے ہراول دستے شامل تھے۔ عوام میں بھٹو کو پھانسی سے نہ بچا پانے کا زخم تازہ تھا؛ چنانچہ وہ اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ اسی لئے جب بے نظیر بھٹو وطن واپس لوٹیں تو اپنے رہنما کی پھانسی کا غم و غصہ ایک نئی امید میں تبدیل ہو گیا۔ بے نظیر سیاست میں آئیں تو وہ نوجو ان تھیں۔ ان کے سیاسی کیریئر کی ابتدا ہی قربانیوں سے ہوئی تھی۔ وہ جیلوں میں گئیں۔ انہوں نے مارشل لا کا مقابلہ کیا اور آہستہ آہستہ انہوں نے سیاست کا وہ رخ سیکھ لیا جو ان کے والد سے منسوب تھا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ 1988ء میں فوج سے سمجھوتہ کر کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد پیپلز پارٹی اس طرح کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی‘ جس کی اس سے امید تھی۔ اس کی کئی وجوہ تھیں۔ 1993ء میں اپنے دوسرے دور حکومت میں بھی پیپلز پارٹی مشکلات کا شکار رہی اور بالآخر ایک سازش کے تحت مرتضیٰ بھٹو کی ہلاکت ڈگمگاتے اقتدار میں آخری کیل ثابت ہوئی۔ 1997ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی صرف 17 نشستیں حاصل کر پائی۔ پارٹی کو کرپشن اور دوسرے کئی الزامات کا سامنا کرنا پڑا‘ حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی اختیار کرنا پڑی۔ تب بھی بہت سے تجزیہ کاروں نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ پیپلز پارٹی کا وجود ختم ہو گیا اور اب وہ کبھی اقتدار میں نہیں آ سکے گی‘ مگر پیپلز پارٹی ایک سوچ ہے، ایک فلسفہ‘ جو ہر قسم کے ابتر حالات میں بھی زندہ رہا۔ ایک اور مارشل لا کے دوران آٹھ سال کی طویل جدوجہد کے بعد جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا، تو انہیں کراچی میں بدترین دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردانہ حملوں کی پیشگوئیوں کے باوجود جیالا اپنے تمام تر جوش، جذبے اور نئی امید
کے ساتھ پورے پاکستان سے ان کے استقبال کے لئے اُمڈ آیا تھا۔ بے نظیر بھٹو ایک مرتبہ پھر اسی پرانے نعرے کے ساتھ میدان میں اتری تھیں‘ جو حالات کی ستم ظریفی میں‘ ان کی پارٹی نے پڑھے لکھے دانشوروں کے مشورے پر شاید کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کا وہ نعرہ جو ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے اٹھائیس سال بعد بھی ورکرز کے دل و دماغ میں ایک امید کی مانند روشن تھا‘ جس کی تعبیر کے لیے وہ ایک مرتبہ پھر اپنی لیڈر کے استقبال کے لئے اپنی جان کی پروا کیے بغیر حاضر تھے۔ لیکن ان کی امید اُن طاقتوں کو ایک بار پھر راس نہیں آئی‘ جو اس فلسفہ اور سوچ کی دشمن تھیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ بے نظیر بھٹو کی موت جیالوں کی آنکھوں میں بسے روشن خوابوں کی موت ثابت ہوئی‘ تو غلط نہ ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کے بعد ان کی تربیت یافتہ بیٹی پارٹی کی باگ ڈور سنبھالنے کے لئے موجود تھی، مگر بے نظیر بھٹو کی موت کے خلا کو پارٹی کے لئے پُر کرنے والا کوئی نہ تھا۔ سیاسی جماعت ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی‘ جن کا سیاسی رجحان مثبت نہ تھا اور ایسا معلوم ہوا کہ وہ محض اقتدار کی خاطر سیاست کرنے لگے ہیں۔ اس وقت بے نظیر بھٹو کے قتل کا واقعہ تازہ تھا‘ اور ان کے پاس ہمدردی کا ووٹ بھی تھا۔ مگر جب وہ برسر اقتدار آئے تو اقتدار کی طاقت کو عوام کے لیے استعمال کرنے کی بجائے اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے لگے۔ کرپشن کے اس قدر سنگین الزامات پارٹی سے منسلک لوگوں پر لگائے گئے کہ پارٹی کی ساکھ مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ پاکستانی میڈیا میں موجود ایک بہت بڑی لابی پیپلز پارٹی کی مخالف رہی ہے اور اس کے حوالے سے منفی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی رہی ہے۔ (جاری)