جنگ کس کے خلاف؟…(2

2008 ء میں پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا بہت مضبو ط ہو چکا تھا اور اس نے پاکستان پیپلز پارٹی کو کارنر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تمام تجزیہ کار اور اینکر دن رات یہ راگ الاپتے رہے کہ یہ ایک کرپٹ پارٹی ہے اور ان کی حکومت آج گئی یا کل گئی۔ دیکھا جائے تو یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دھواں آگ کے بغیر ممکن نہیں۔ ان الزامات کا دفاع کرنے میں پیپلز پارٹی اپنی کمزور طرز حکومت اور میڈیا مینجمنٹ کی وجہ سے بری طرح ناکام رہی ہے۔ جس نے اس کی ساکھ کو بری طرح مجروح کیا ہے اور ٹین پرسنٹ کا الزام اب سو پرسنٹ ہوچکا ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کچھ مثبت کام بھی ہوئے مگر ان پر نہ تو میڈیا نے توجہ دی نہ ہی پارٹی نے تشہیر کر کے ان کے حوالے سے عوام میں آگہی پیدا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی۔ 
دوسر ی خرا بی یہ ہو ئی کہ پا رٹی میں ویثرن نہیں رہا، پیپلز پا رٹی دوسر ی جما عتو ں سے مختلف تھی مگر یہ وہ اپنے عمل سے ثا بت نہیں کر پا ئی ۔ مفاہمت کی پالیسی کی وجہ سے پارٹی کے بنیادی فلسفہ سے انحراف بھی ان کے لئے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا۔ جس میں اقتدار کی خاطر مسلم لیگ ق سے الحاق سب سے اہم ہے۔ پھر جب یہ جماعت انتخابات کے لئے گئی تو ان پر دہشت گرد حملوں کا خطرہ منڈلا رہا تھا۔ وہ پارٹی جس کی جڑیں کبھی عوام میں ہوتی تھیں صدارتی محل اور بلاول ہائوس کی بلند دیواروں میں قید ہو چکی تھی۔ پانچ سالہ دور اقتدار میں پارٹی کو نچلی سطح پر
منظم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے اور مقامی قیادت ڈویلپ نہیں کی گئی۔ ان حالات میں لیڈر شپ کا جلسے نہ کر پانا ایک بڑی کمزوری ثابت ہوا اور پارٹی منتشر نظر آئی۔ جب آپ اپنی پا رٹی کو منظم نہ کر نا چا ہیں ،جب آپ پا رٹی کو یونین کو نسل کی سطح پر نہ لے جا نا چا ہیں، آپ یہ فیصلہ نہ کر پا ئیں کہ الیکشن کو ن لڑے گا، آپ کے ممبر قومی و صوبائی اسمبلی کو ن ہوں گے ،آپ کا را بطہ عوا م سے بالکل کٹ جا ئے یا محض ٹی وی کے ذریعے رہ جائے تو پارٹی کا تباہ ہونا تو لازم تھا۔ ہر سیا سی جماعت کی طا قت اس کے ورکرز ہو تے ہیں جو تحصیل میں ہو تے ہیں ، گا ئو ں میں ہو تے ہیں ،شہر میں ہو تے ہیں ،محلے میں ہو تے ہیں، جو پارٹی کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہیں، عام کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہو ں جو سب سے بڑ ی نا اہلی پیپلز پا رٹی کی قیا دت نے بے نظیر بھٹو کی شہا دت کے بعد کی‘ وہ یہ تھی کہ پا رٹی کو سر ے سے آر گنا ئز ہی نہیں کیا،نہ اپنے ورکر کو اعتماد میں لیا اور نہ ہی ان سے رابطہ کیا۔ آپ مجھے کو ئی بھی بڑا کنو نشن بتا ئیں جو بے نظیر کی شہا دت کے بعد پا کستا ن پیپلز پا رٹی نے کیا ہو جس کو ورکر ز کنو نشن کا نا م دیا جا سکے ،جس کو لیبر کنو نشن کہا جا سکے۔ میں پریزیڈنسی میں ہو نے وا لے کنو نشن اور اسلا م آباد میں ایک کنو نشن ہا ل میں ہو نے وا لے کنونشن کو سیا سی کنو نشن نہیں سمجھتا ۔ نتیجہ کیا ہو ا وہ لو گ آئے جن کا پیپلز پا رٹی سے کو ئی تعلق ہی نہیں تھا یعنی کہ آصف زرداری کے قریب تر ین جو لو گ تھے ان کا اس پا کستا ن پیپلز پا رٹی سے کو ئی تعلق نہیں تھا جو ذوالفقا ر علی بھٹو کی تھی یا بے نظیر بھٹو کی تھی۔ سب سے بڑی
چیز یہ دیکھنے وا لی ہے کہ جب آپ ایسے لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں جو نظریات سے ہی متفق نہ ہوں، جو رو ٹی‘ کپڑا اور مکا ن کے نعر ے کو ہی فضو ل سمجھتے ہو ں، جن کی قا بلیت اور مہا رت محض پیسہ کما نا اور اسے دوگنا کر نا ہو تو مثبت نتائج کی توقع رکھنا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔سیا سی پارٹیا ں اپنے ورکر ز میں سے ایسے لو گو ں کو چنتی ہیں جو پڑ ھے لکھے ہو تے ہیں‘ ان کو عہدوں پر تعینا ت کر تی ہیں کیو نکہ وہ کا م کر تے ہیں ،محنت کر تے ہیں اور اس کے نتا ئج اپنی پا رٹی کو دیتے ہیں‘ یہاں پر تو سا ری سیاست ذاتیا ت اور دوستی پر چلتی ہے۔ وہ نہیں چا ہتے کہ وہ کسی کو جو اب دہ ہو ں وہ نہیں چا ہتے کہ ان سے یہ سو ال کیا جا ئے کہ پیسہ کہا ں سے آیا۔ یہ سو ال اس وقت اٹھایاجائے گا جب آپ اپو زیشن میں ہو ں اس لیے آپ اپوزیشن میں نہیں ہو تے اور حکو مت کے سا تھ رہنا چا ہتے ہیں اور اسے نا م دیتے ہیں جمہو ریت کے تسلسل کا ۔جمہو ریت وہ ہوتی ہے جس کا فا ئد ہ عوا م کو ہو‘ خوا ہ وہ جمہو ریت نواز شر یف کی ہو، آصف ذرداری کی ہو یا الطاف حسین کی۔جو جمہو ریت عو ام کے مسائل کو حل نہ کر سکے‘ جو مہنگا ئی کو نہ ختم کر سکے، جو ان کو روز گا ر کے بہتر مو اقع نہ فراہم کر سکے ،جو ان کو اچھا گھر نہ فر اہم کر سکے، جو ان کو زند گی کی بنیادی ضروریات مہیا نہ کر سکے اس جمہوریت کا کوئی مقصد نہیں۔ 
اگر بلاول بھٹو زرداری واقعی پارٹی کو منظم کرنے اور اسے پنجاب میں بحال کرنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں عوام کے پاس واپس جانا ہو گا۔ میں نے ایک با ر آصف زرداری صاحب سے گزا رش کی تھی کہ میں بطور ایک صحافی، بلا ول سے ملنا چا ہتا ہو ں لیکن انہو ں نے کہا آپ نہیں مل سکتے کیونکہ وہ ابھی تر بیت لے رہا ہے۔ یہ بہت عجیب با ت ہے کہ بے نظیر بھٹو پڑ ھ رہی تھیں تو اس وقت انہو ں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سیاست کی بجا ئے فا رن افیئر ز کو پڑ ھیں گی اور وہ پاکستا ن کی وز ارت خا رجہ میں با قا عدہ جا تی تھیں اور آپ یقین کر یں کہ کچھ ایسے فیصلے ہیں‘پا کستا ن کی وز ا رت خا رجہ کے جنہو ں نے بے نظیر کی گفتگو سے جنم لیا۔ جو با پ اپنے بچو ں کو تر بیت دینا چا ہتے ہیں وہ ان کوچھپا کر نہیں رکھتے ،چھپا کر رکھنے سے سیا ست نہیں ہو تی ۔ بلاول بھٹو تب ہی لیڈر بنے گا جب وہ آزادی سے اپنی با ت کر سکے گا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی نقل اتا ر کر کو ئی لیڈر نہیں بن سکتا۔ میری اطلا عا ت کے مطا بق بلاول مثبت سو چ رکھتے ہیں اور وہ مو جو دہ صورتحا ل سے مضطر ب ہیں اور انہو ں نے مطا لبہ بھی کیا کہ سند ھ میں کچھ پا رٹی ممبرز کو اہم عہدو ں سے الگ کیا جائے کیو نکہ وہ deliverنہیں کر پا رہے ۔ اگر 2018ء میں پا رٹی قیا دت بلا ول نے سنبھا لنی ہے ، تو بلا ول کو محترم سمجھنا ہو گا‘ ڈکٹیشن سے آپ کسی کو لیڈر نہیں بنا سکتے۔
غلطیا ں ہر لیڈر سے ہو تی ہیں۔ آپ کو ان پر اعتبا ر کرنا ہو گا‘ وہی اعتبا ر جو بھٹو نے اپنی بیٹی پر کیا تھا۔ تب ہی شا ید بلاول نو جوا ن نسل کی قیا دت کر تے ہو ئے کوئی مثبت کردار ادا کر سکیں۔ بلا ول شاید پیپلز پارٹی کے جیالے کی مردہ امید کو ایک مرتبہ پھر جگانے میں کامیاب ہو جائیں، اور اگر وہ ناکام ہوتے ہیں تو شاید پیپلز پارٹی کو ختم ہونے سے کوئی نہیں روک سکے کا جس کا مجھے بطور ایک سیاسی کارکن اور سیا سی طا لب علم کے‘ دکھ ہو گا۔ 
بلاول کی کامیابی کا دارومدار ذوالفقار علی بھٹو کے ان کی والدہ کو جیل سے لکھے گئے خط کے اس پیرا گراف پر عمل کرنے پر منحصر ہے جس میں انہوں نے لکھا تھا ''میری پیاری بیٹی، میں تمہیں صرف ایک پیغام دینا چاہتا ہوں، یہ کل کا پیغام ہے، یہ تاریخ کا پیغام ہے۔ صرف عوام پر اعتماد کرنا، صرف ان کی آزادی اور برابری کے لئے کام کرنا۔ خدا کی جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں میں ہے‘‘ ۔ (ختم)

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں